227

تحریک عدم اعتماد کا غبار اور عوامی مسائل

یوں لگتا ہے جیسے تحریک عدم اعتماد کے غبارے سے ہوا نکل چکی ہے۔اپوزیشن  کی گولہ باری میں  بتدریج کمی دیکھنے میں آرہی ہے جبکہ حکومتی کیمپ میں  اعتماد کے آثار واضح نظر آرہے ہیں۔جناب جہانگیر ترین بیرون ملک روانہ ہو چکے ہیں۔چودھری صاحبان کی طرف سے کچھ کڑی شرائط سامنے رکھ دی گئی ہیں۔ اگرچہ چوہدری پرویز الہی اور مسلم لیگی ترجمان دونوں نے اس نوعیت کی شرائط کی بظاہر تردید کی ہے لیکن باخبرذرائع اس بات پر مصر ہیں کہ اپوزیشن اور چودھری صاحبان کے مابین  مذاکرات میں ڈیڈ لاک مطالبات کی وجہ سے سامنے آیا ہے۔تحریک عدم اعتماد کے ساتھ ساتھ پیپلزپارٹی نے اپنا لانگ مارچ شروع کر دیا ہے جو اس کالم کی اشاعت تک اپنے مقررہ مقام تک پہنچ چکا ہوگا۔لیکن دو ہفتے جاری رہنے والی اس سر گرمی نے پاکستانی عوام کی آنکھیں کھول دی ہیں۔باشعور طبقات کھلے بندوں یہ سوال پوچھ رہے ہیں کہ کیا جمہوریت صرف اسی چیز کا نام ہے کہ اقتدار میں اپنا اپنا حصہ کیسے وصول کیا جائے۔؟ماضی میں بھی تحریک عدم اعتماد کی مشق متعدد مرتبہ کی جا چکی ہے۔دیکھا جائے تو دنیا بھر میں ایک سو سے زائد سربراہان مملکت تحریک عدم اعتماد کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔دنیا کی تمام جمہوریتوں میں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے حکومتوں کی تبدیلی ایک معمول کا عمل ہے۔پاکستان میں بھی اس عمل پر کسی کو اعتراض نہیں۔لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ  پاکستان میں کسی وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کامیاب نہیں ہو سکی۔تاہم ایک مرتبہ 1986 میں  سپیکر قومی اسمبلی سید فخر امام کے خلاف تحریک کامیاب ہوئی تھی جس کے بعد جناب حامد ناصر چٹھہ کو قومی اسمبلی کا اسپیکر منتخب کیا گیا تھا۔اس کے علاوہ حکومت کے خلاف  تحریک عدم اعتماد کامیاب نہیں ہو سکی۔یادش بخیر جب میاں نواز شریف وزیراعلی پنجاب تھے تو ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی بازگشت سنائی دی گئی تو اس وقت کے صدر جنرل محمد ضیاء الحق لاہور تشریف لے آئے اور خم ٹھونک کر اعلان کیا کہ میاں نواز شریف کا کلہ  مضبوط ہے۔یاد رہے کہ اس وقت جنرل محمد ضیا الحق صدرِ مملکت ہونے کے ساتھ ساتھ حاضر سروس آرمی چیف بھی تھے جنکی مرہون منت جناب میاں نواز شریف کا کلہ مضبوط قرار پایا۔پاکستانی سیاست کا ایک طالب علم ہونے کے ناطے میں یہ بات سمجھنے سے قاصر ہوں کہ آخر کون سی وجوہات تھیں جنہوں نے سیاست کے ٹھہرے پانی میں تلاطم برپا کر دیا۔وہ کون سے اسباب ہیں جن کی بنا پر چائے کی پیالی میں طوفان آگیا۔وہ کون سے مقاصد تھے جن حصول کے لیے بستر علالت پر موجود جناب آصف علی زرداری نوجوانوں کی طرح چلتے پھرتے نظر آئے،وہ کون سی وجوہات تھیں جن کی بناپر کمر  درد کا شکار جناب میاں شہباز شریف بھی اچانک متحرک اور فعال ہوگئے۔اچانک کون سے حالات پیدا ہوگیے تھے جنکے  پیش نظر دونوں بڑی جماعتوں کے رہنماؤں نے بچوں کو پس منظر میں رکھ دیا اور خود فرنٹ فٹ  پر  کھیلنے لگے،قوم یہ بات سمجھنے سے قاصر ہے کہ وہ کونسی مجبوری تھی جو میاں شہباز شریف کو چودھری پرویزالٰہی کے دروازے پر لے گئی،وہ کون سی وجوہات تھیں کہ جن کی بنا پر پی ڈی  ایم سے نکلنے والی جماعت کے سربراہ جناب آصف علی زرداری اسی پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان سے ملنے ان کے گھر پہنچ گئے،کیا ان سب احباب کا ملنا جلنا پاکستان کو درپیش مالی مشکلات  کے متعلق تھا،؟ہر پاکستانی دبے لہجے میں یہ پوچھ رہا  ہے کہ کیا تمام اپوزیشن رہنما ایف اے ٹی ایف میں درپیش مشکلات کا حل نکال نکالنے کے لیے جمع
 ہوئے تھے،؟،کیا روس اور یوکرائن کے جھگڑے کے دوران پاکستان کی خارجہ پالیسی کے خدوخال سنوارنے کے لئے ساری اپوزیشن جماعتیں بیٹھک کر رہی تھی،ان سب سوالات کے جوابات کے لیے جب ان راہنماؤں کے بیانات اور پریس کانفرنس دیکھتے ہیں تو ان سب کا جواب نفی میں آتا ہے۔تمام رہنماؤں کا متفقہ مقصد عمران خان کی حکومت کو گرانا ہے،گفت و شنید کا موضوع پنجاب کی وزارت اعلی ہے،بند کمروں میں ہونے والی گفتگو کا محور و مرکز، مرکز میں اقتدار کی تقسیم کا فارمولا ہے،اس ساری کشمکش کے دوران عام آدمی کے مسائل کا تذکرہ کہاں ہے؟کیا اس طرح کے رویوں نے عام آدمی کا اعتماد ختم نہیں کر دیا؟ہمارے کان ایسی خبریں سننے کو ترس گئے ہیں کہ کبھی  ان رہنماؤں نے پاکستان کے عام آدمی کے مسائل کی بات کی ہو؟توقع تو یہ تھی کہ مولانا فضل الرحمان جو دینی طبقہ سے تعلق رکھنے والے سیاستدان  ہیں وہ ان مسائل پر بات کریں گے کہ جن سے ہماری دینی شناخت کو خطرہ ہے؟پاکستان پیپلز پارٹی جو سی پیک کی بانی  سمجھی جاتی ہے اس سے یہ توقع کی  جاسکتی تھی کہ وہ سی پیک پر  سست روی کے معاملے پر  سر جوڑ کر بیٹھے گی۔پاکستان مسلم لیگ نون جو ملک کو درست معاشی سمت پر رکھنے کی دعویدار ہے وہ مہنگائی کو معمول پر لانے کے لیے معاشی اصلاحات کا ایجنڈا لے کر عوام کے پاس جائے گی۔عوامی نیشنل پارٹی جن کے پاس جمہوریت کے لئے قربانیوں کی طویل تاریخ ہے ان سے یہ توقع کی جا رہی تھی کہ وہ جمہوری روایات کے استحکام کا علم بلند کرے گئ۔کاش یہ سب راہنما بلوچستان کے معاملہ پر اکٹھے ہوتے اور ناراض بلوچوں کو قومی دھارے میں لاتے۔کاش یہ سب سیاسی جماعتیں ابی وسائل کی کمی پر اکٹھی ہوتیں اور کالاباغ ڈیم جیسے منصوبے کیلے راہ ہموار کرتیں۔کاش یہ سب راہنما سندھ اور خیبر پختونخوا کے تحفظات دور کرتے اور ملک کو ریگستان بننے سے بچاتے،کاش ان بڑے راہنماؤں کی بیٹھک بڑھتی ابادی اور کم ہوتے وسائل کے موضوع پر ہوتی۔کوء ایک رجل رشید تو ہوتا جو کہتا کہ تحریک انصاف کو پانچ سال کا مینڈیٹ ملا ہے تو اسکو پانچ سال پورا کرنے دیں۔پاکستانء سیاست کے زمینی حقائق کو قریب سے دیکھنے والے ایک طالب علم کی حیثیت سے میں یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ ہمارے راہنماؤں نے سیاسی بلوغت کا مظاہرہ نہی کیا۔کء کء مرتبہ اقتدار کے سنگھا سن پر بیٹھنے والے،اداروں کی جانب داری اور غیر جانب داری کی بچگانہ بات کر رہے ہیں۔دشت سیاست میں نصف صدی گزارنے والا راہنما کہتا کہ ہاتھ اٹھا لیا گیا ہے جبکہ حکومتی کیمپ کا ترجمان بازو لہرا کر کہ رہا ہے کہ ہاتھ ہمارے سر پر ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ یہ رویے عوام اور عوامی کی مینڈیٹ کی توہین ہیں۔جو کسی طور بھی قابل تحسین نہیں۔میری دانست میں تحریک عدم اعتماد دم توڑ چکی ہے اور عمران حکومت پانچ سال پورے کریگی۔اور اپوزیشن نے اسی بچگانہ رویہ کا اظہار جاری رکھا تو اسکا مستقبل روشن قرار نہیں دیا جا سکتا۔
 

بشکریہ اردو کالمز