چھ ستمبر کا دن پاکستان کی تاریخ میں نہایت اہمیت کا حامل ہے اس دن کو "یوم دفاع"کے طور پہ بھی منایا جاتا ہے۔یہ دن ان شہداء کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے منایا جاتا ہے جنہوں نے پاکستان کی بقا کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا۔
1965 کے حوالے سے کئی تاریخی واقعات تو تاریخ اور کتابوں میں درج ہیں جن سے سب ہی واقف ہیں مگر کچھ واقعات میرے ذہن کے پوشیدہ خانوں میں بھی پنہاں ہیں جو مجھ تک میری والدہ کے ذریعے پہنچے اور اب میں انہیں قارئین کی نذر کرنا چاہوں گی۔
تاریخی واقعات میں ذکر کیا گیا ہے کہ چھ ستمبر کی جنگ جنگوں کی تاریخ میں دوسری جنگ عظیم دوئم کے بعد ٹینکوں کی سب سے بڑی لڑائی ہے جو سیالکوٹ کے ایک علاقے چونڈہ کے مقام پر لڑی گئی۔اس وقت طاقت کے نشے میں چور بھارتی فوج چھ سو ٹينک لے کر پاکستان ميں داخل ہوگئی تھی۔ پاکستان فوج کی زبردست جوابی کارروائی نے دشمن کے 45 ٹینک تباہ کر دیے اور کئی ٹینک قبضے میں لے لیے تھے۔ اسی طرح پانچ فیلڈ گنیں قبضہ میں لے کر بہت سارے فوجی قیدی بھی بنائے گئے۔ جنگ کا پانسہ پلٹتا دیکھ کر بھارتی فوجی حواس باختہ ہوگئے اور ٹینک چھوڑ کرفرار ہونے لگے تو پاک فوج نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دشمن کے علاقے میں کئی چوکیوں پر قبضہ کر لیا۔ اسی لیے چونڈہ کے مقام کو بھارتی ٹینکوں کیلئے ٹینکوں کا قبرستان کہا جاتا ہے۔
ہماری مرحومہ والدہ ستمبر کا ذکر بہت ہی عقیدت سے کرتی تھیں۔وہ بتایا کرتیں کہ بھارت کے پاس جنگی ہتھیار اور فوجی طاقت پاکستان کی نسبت زیادہ تھی۔یہی وجہ تھی کہ جیسے ہی بھارت اپنے چھ سو ٹینک لے کر پاکستان میں گھسا تو فوجی جوان پیٹ پہ بم باندھے ان ٹینکوں کے نیچے لیٹتے چلے گئے۔ان ٹینکوں کو پاکستانی عوام سے بچانے کے لیے فوجی جوانوں نے اپنے جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اپنے جسم پہ بم باندھ کر انہیں اڑا لیا۔اس وقت ہمیں یہ بات سن کر حیرانی ہوتی تھی مگر اس سے بھی بڑی حیرت اس وقت ہوتی جب والدہ بتایا کرتیں کہ پاکستان پہ اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت ہے کیونکہ جنگ کے بعد ہندو فوج کے کئی فوجی جو ٹینک چھوڑ کر بھاگ چکے تھے ذکر کرتے کہ ہم نے اپنی آنکھوں سے ہرے کپڑے پہننے کئی لوگوں کو قطار در قطار ٹینکوں کے نیچے لیٹتے دیکھا جن کے لیٹتے ہی ٹینکوں کے پرخچے اڑ جاتے۔والدہ کے مطابق اس جنگ میں اللہ تعالیٰ نے پاکستانی فوج کے لیے غیب سے مدد بھیجی ورنہ اتنے کفار کے سامنے جم کر مقابلہ کرنا کہ وہ اپنے عزائم میں کامیاب نہ ہو ممکن نہ تھا۔یہ ہرے کپڑوں والی فوج کوئی غیبی مدد تھی جس نے پاکستانی فوج کے شانہ بشانہ بھارتی فوج کو پسپا کیا۔
بے شک کہ اس بات کے متعلق واضح شہادتیں اکھٹی کرنا ایک مشکل امر ہے کہ کیا واقعی اس وقت کوئی غیبی یا آسمانی مدد نازل کی گئی تھی یا پھر یہ فقط سنی سنائی کہانیاں ہی ہیں لیکن فوج کی طرف سے جو قربانی دی گئی اس کے متعلق کسی شک و شبے کی گنجائش نہیں۔ملک کے دفاع میں ہمیشہ ہی سے پاک فوج سرگرم عمل رہی ہے۔
ستمبر 1965 کے متعلق ایک اور واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے والدہ محترمہ بتایا کرتیں کہ جنگ کے دنوں میں رات کے وقت بالکل بلیک آؤٹ کر دیا جاتا یعنی کسی کو بھی گھر میں روشنی کرنے اور بتی جلانے کی اجازت نہ ہوتی۔اس وجہ یہ تھی کہ دشمن کے جنگی طیارے فضائی جائزہ لیتے اور کہیں سے بھی روشنی نظر آنے پہ وہاں پہ مزائل حملہ کر دیتے کیونکہ نانا پاکستان آرڈیننس فیکٹری کے ملازم تھے اور ان کا گھر فیکٹری کے ہی علاقے میں تھا اس لیے ان کے گھر کی چھت پہ بھی فوجی زمزمہ توپ یا جسے کمزگن توپ کہتے ہیں وہ لے کر دشمن کے حملے کے لیے تیار بیٹھے ہوتے۔
چونکہ ہندو اور سکھ تو مسلمانوں کے علاقوں سے ہجرت کر چکے تھے مگر عیسائی اب بھی کافی تعداد میں مسلمان علاقوں میں موجود تھے جیسا کہ ہم عموماً اب بھی دیکھتے ہیں کہ ہسپتالوں میں کام کرنے والی نرسیوں اور کچھ عیسائی اسکولوں میں اب بھی عیسائی استانیاں تدریس سے منسلک ہیں۔پاکستان میں گرجا گھر اور عیسائی اسکول اب بھی قائم ہیں۔
اس وقت بھی انہی کے علاقے میں کچھ عیسائی استانیاں موجود تھیں۔والدہ کے مطابق غالباً ان کے کسی گھر والے نے رات کے وقت ایک عیسائی استانی کو اپنے گھر کی کھڑکی سے باہر ٹارچ کے ذریعے روشنی کرتے دیکھ لیا تھا۔یہ روشنی وقفے وقفے سے کی جاتی یعنی روشنی دکھا کر بند کر دی جاتی پھر روشنی دیکھا کر بند کر دی جاتی جیسے سامنے والے کو کوئی اشارہ دیا جا رہا ہو۔گھر والوں نے فوراً ہی اس کی اطلاع فوجی جوانوں تک پہنچائی اور انہوں نے اس عیسائی عورت کو فوراً گرفتار کر لیا جو چاہتی کہ دشمن کے طیارے اس علاقے میں میزائل گرا کر پاکستان کی اسلحہ ساز فیکٹری کو تباہ کر دیں مگر اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو اس بڑی مشکل سے محفوظ رکھا۔
والدہ کا کہنا تھا کہ وہ وقت بہت ہی مشکل تھا جب رات کے وقت فضا طیاروں کی گرج سے گونج اٹھتی تھی۔پاکستانی طیارے بھی فیکٹری کی حفاظت کے لیے بارہا چکر لگاتے اور ایک دو بار دشمن کے طیارے بھی پاکستانی حدود میں داخل ہوئے مگر لائٹ آؤٹ کے باعث وہ کوئی بھی کاروائی کرنے سے قاصر رہے۔
ستمبر کا ذکر ہو اور ساتھ ملکہ ترنم نور جہاں کے مشہور ملی نغموں کا ذکر نہ ہو تو یہ ذیادتی ہو گی۔مرحومہ نور جہاں نے چھ ستمبر کی جنگ میں اپنی آواز کے ذریعے فوجی جوانوں کا لہو گرمانے کے لیے جو ترانے ریکارڈ کروائے وہ پاکستانی تاریخ میں امر ہو گئے۔اے وطن کے سجیلے جوانو، رنگ لائے گا شہیدوں کا لہو، میریا ڈھول سپاہیا تینوں رب دیاں رکھاں، اے پتر ہٹاں تے نئیں وکدے وہ مشہور ملی نغمے ہیں جو 1965 کی جنگ آزادی سے آج تک سننے جا رہے ہیں اور آج بھی ان نغموں میں وہی درد و سوز محسوس ہوتا ہے جیسے ہم حالت جنگ میں ہوں۔والدہ محترمہ بھی کچھ عرصہ ریڈیو پاکستان سے منسلک رہیں اس لیے وہ نور جہاں کے ملی نغموں کو اکثر گنگناتیں۔وہ ہمیں بتایا کرتیں کہ جنگ کے دنوں میں مرحومہ نور جہاں اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کو گھر میں چھوڑ کر ریڈیو پہ ریکارڈنگ کروانے جایا کرتیں۔ان کے نغمے سن کر جوانوں میں شہادت کا جذبہ پیدا ہوتا اور عوام ہاتھ اٹھا کر اپنے ملک کی سلامتی اور ان جوانوں می کامیابی کے لیے دعائیں کرتی۔جس طرح محترمہ نور جہاں نے اپنی صلاحیتوں کو ملک کے دفاع کے لیے استعمال کیا اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور انہیں جنت الفردوس میں اعلی مقام عطاء فرمائے آمین۔
یہ جنگ سترہ روز تک جاری رہی اور اس دوران جہاں چاروں جانب جنگ کی ہولناکی اور دہشت کا دور دورا تھا ہمارے نانا کے گھر وہ یادگار واقعہ پیش آیا جسے سن کر بے اختیار ہمارے لبوں پہ مسکراہٹ بکھر گئی تو ہوا کچھ یوں کہ ہماری منجھلی خالہ کا نکاح ان کی بھابھی کے بھائی سے طے پا گیا اور انہی جنگ کے دنوں میں بھابھی کے بھائی جو کہ اس وقت چٹا گانگ یعنی اس وقت کے مشرقی پاکستان کے رہائشی تھے نانا کے گھر موجود تھے۔جنگ کے دنوں میں ہی دن کے اوقات میں خالہ کا نکاح پڑھا دیا گیا کیونکہ ان کے شوہر کو چٹا کانگ واپسی کی بے حد جلدی تھی اس لیے جنگ کے دنوں میں ہی نکاح کر دیا گیا۔اب وہ بنیادی وجہ تو بالکل بھی یاد نہیں جس کے باعث اتنے ہنگامی حالات میں نکاح کی رسم ادا کی گئی مگر بس اتنا ضرور یاد ہے کہ انہیں چٹا گانگ واپس پہنچنا تھا۔یہ نکاح صرف کچھ گھر والوں کی موجودگی میں کیا گیا۔شام کے وقت نانی اماں نے میٹھائی کی پلیٹ چھوٹے ماموں کے حوالے کی کہ چھت پہ بیٹھے فوجی جوانوں کو دے آؤ کہ بہن کا نکاح ہو گیا ہے۔چھوٹے ماموں اس وقت غالباً آٹھ نو سال کے تھے وہ پلیٹ لے کر تو چلے گئے مگر جیسے ہی مٹھائی فوجی جوانوں کے حوالے کی انہوں نے بے اختیار پوچھا
"آج تمہارے گھر میں کچھ لوگ آئے تھے،خیریت تو ہے اور مٹھائی کس خوشی کی ہے"؟
اس وقت چھوٹے ماموں نے نہایت دانش مندی سے جواب دیا کہ "آج میری آمین ہوئی ہے یہ مٹھائی اسی خوشی کی ہے"
بچوں کا قرآن مکمل کرنے پہ آمین کی رسم ادا کی جاتی ہے جس کے ذریعے قرآن کی تکمیل پہ سارے خاندان والے مسرت کا اظہار کرتے ہیں۔
ماموں نے واپس آ کر ساری بات بتائی تو ان کی بہنیں اور امی خوب ہنسے۔ماموں کہنے لگے
"ایک جانب جنگ ہو رہی ہے اور ہمارے گھر میں شادی ہو رہی ہے کسی کو پتہ چلے گا تو کتنا مذاق اڑائے گا کہ ان لوگوں کو جنگ کے حالات میں بھی سکون نہیں"
اس واقعے کو یاد کر کے آج بھی ہمیں بہت ہنسی آتی ہے کہ اس وقت کے لوگ واقعی بہت باہمت لوگ تھے جو توپوں کے سائے میں،جنگوں کے ماحول میں بھی خوش رہتے تھے۔جو جرات اور بہادری سے اپنے وطن کا دفاع کرتے رہے۔اللہ تعالیٰ میری والدہ مرحومہ کی مغفرت فرمائے آمین جن کی یاداشتیں میں قارئین تک پہنچانے کے قابل ہو سکی۔اللہ تعالیٰ اس ملک کے جوانوں کو اس وطن کا حق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارے وطن کو دشمن کے شر اور ہر بری چال سے محفوظ رکھے آمین ثم آمین۔