666

ابھی تک پاؤں سے لپٹی ہیں غلامی کی زنجیریں

 

ابھی تک پاؤں سے لپٹی ہیں غلامی کی زنجیریں
دن آ جاتا ہے آزادی کا آزادی نہیں آتی
پاکستانی عوام گزشتہ پچھتر برس سے ہر سال چودہ اگست کو یوم آزادی پاکستان نہایت شان و شوکت سے مناتے ہیں۔یوم آزادی کا یہ خاص دن منانے کا مقصد محض اس دن کو یاد رکھنا ہی نہیں بلکہ اس دن کی اہمیت کو اجاگر کرنا بھی ہے۔چودہ آگست 1947 کو محض ایک آزاد مملکت کی بنیاد ہی نہیں رکھی گئی بلکہ اس تاریخ ساز دن کو ایک الگ نظریے اور سوچ کا عمل وجود میں آیا۔ہندوں اور انگریزوں کے تسلط سے آزاد کروائی گئی یہ ریاست جو کہ محل وقوع،رقبے،آبادی اور مالی وسائل کے لحاظ سے ہر طرح سے بھارت سے پیچھے تھی،عوام کے جذبے اور حوصلے کے باعث جلد دنیا کے نقشے میں الگ حیثیت سے ابھری۔
تقسیم کے وقت ہندوؤں اور انگریزوں نے گھٹ جوڑ کر کے ہر لحاظ سے اس ریاست کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی اب وہ مشرقی پاکستان کی صورت علاقے کی تقسیم ہو،کشمیر کی صورت علاقے کا الحاق ہو یا پھر مالی وسائل کی صورت اثاجات کی تقسیم۔ہر ممکن کوشش کی گئی کہ کسی طرح پاکستانی عوام کو گھٹنے ٹیکنے پہ مجبور کیا جائے مگر پاکستان کے قیام کے بعد ہر فرد واحد نے اس ملک کی ترقی،خوشحالی اور استحکام کے لیے اپنا کردار ادا کیا۔س قلیل مدت میں بے شمار فیکڑیوں اور ملوں کا قیام عمل میں آیا۔زمینی،بحری اور فضائی افواج کا وجود عمل میں آیا تاکہ ملک کی سرحدوں کی حفاظت کی جا سکے۔ہزاروں افراد کو روزگار کے مواقع فراہم کیے گئے۔یہ سب ہمارے آباؤ اجداد کی انتھک محنتوں اور کاوشوں کا ثمر ہے جو آج ہماری آنکھوں کے سامنے ہے۔ایک نئی جنم لینے والی ریاست کو اپنے پاوں پہ کھڑا ہونے کے قابل بنانا کوئی آسان کام نہ تھا۔
پاکستانی عوام نے نہ صرف ہجرت کے وقت بے پناہ قربانیاں دی بلکہ قیام پاکستان کے بعد بھی اس ملک کو اپنے خون جگر سے سینچا ہے۔
پاکستان کے قیام کے وقت قائد اعظم سب سے زیادہ توجہ نوجوانوں پہ دیتے وہ انہیں کہتے کہ "کیا آپ مستقبل کی ذمہ داریاں نبھانے کی تیاری کر رہے ہیں؟ کیا آپ اپنی صلاحیتوں میں اضافہ کر رہے ہیں اور کیا آپ کے پاس تربیت ہے؟ اگر نہیں، تو جائیں اور تیاری کریں کیونکہ مستقبل کی ذمہ داریوں کے لیے تیاری کرنے کا وقت یہی ہے۔"
آج ملک کے پچھترویں یوم آزادی کے موقع پہ اگر صرف ایک فوج کے ہی ادارے کی طرف نظر اٹھا کر دیکھا جائے جو دل پاکستان کی خوشحالی پہ باغ باغ ہو جاتا ہے۔
 انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف سٹریٹجک سٹڈیز کے سروے کے مطابق اپریل 2013 میں پاک فوج کی فعال افرادی قوت 7،25،000 تھی ان میں غیر فعال 5،50،000 افراد(جو 45 سال کی عمر تک خدمات سر انجام دیتے ہیں)کو ملاکر افرادی قوت کا تخمینہ 12،75،000افراد تک جا پہنچتا ہے۔ پاک فوج بشمولِ پاک بحریہ اور پاک فضائیہ کے دُنیا کی ساتویں بڑی فوج ہے۔پاک فضائیہ کے پاس 1530 ہوائی جہاز موجود ہیں جبکہ ان میں میراج، ایف-7، ایف-16 اور کئی دوسرے بھی شامل ہیں۔پاک بحریہ پاکستان کی بحری حدود اور سمندری اور ساحلی مفادات کی محافظ ہے۔ یہ پاکستان کی دفاعی افواج کا حصہ ہے اس کے پاس بھی جدید آلات و ہتھیار،آبدوز،سب میرین اور ریڈارز  موجود ہیں۔
بلاشبہ پاکستان نے تعلیم،صحت،روزگار غرضیکہ ہر شعبے میں کامیابی حاصل کی ہے۔اس کے باوجود 2001 کے سروے کے مطابق 2001 سے اب تک 80 ہزار سے زیادہ افراد دہشتگردی کا نشانہ بن چکے ہیں اور عالمی سطح پہ پاکستان کا خاکہ بری طرح متاثر ہوا ہے جس کے باعث لوگ پاکستان آنے سے خوفزدہ ہوتے ہیں۔
2001 ستمبر کے نیویارک حملوں کے بعد پاکستان کو فقط ایک دہشت گرد ملک کے طور پہ جانا جانے لگا۔پاکستان مستقل دہشتگردی اور انتہا پسندی کی جنگ کا نشانہ بنا رہا۔ہر چھوٹے بڑے ادارے کو بم دھماکوں کے ذریعے نشانہ بنایا گیا۔کئی قیمتی جانوں کے ضیاں کے ساتھ ساتھ ملکی املاک کا بھی نقصان ہوا۔اس کے باوجود پاکستان کی عوام اور متعلقہ اداروں نے ہمت نہ ہاری اور اپنے ملک کی فلاح و بہبود کے لیے مستقل کوشاں رہے۔
اگر آج کے پاکستان کی بات کی جائے تو آج کا پاکستان،سیاسی لٹیروں کی زد میں ہے جنہوں نے اپنے لیے تو تیل کے کنویں تک نکال لیے ہیں مگر عوام کو پیس پیس کر ان کی ہڈیوں کا تیل نکال لیا ہے۔ملک میں بدامنی،بدعنوانی،کرپشن،جھوٹ،چوری اور جرائم اپنے عروج پہ ہیں۔پاکستانی عوام فقط دو طبقوں میں بٹ چکی ہے۔ایک جانب وہ عوام ہے جس کے پاس کھانے کو کھانا نہیں،پہننے کو کپڑا نہیں اور سر چھپانے کو ٹھکانہ نہیں۔بچوں کی تعلیم کے اخراجات کس طور برداشت کریں کہ ان کے لیے تو ضروریات زندگی کو خریدنا ہی مشکل ہے۔کبھی کسی کے آگے ہاتھ پھیلاتے ہیں تو کبھی کسی دریا میں کود کر جان دے دیتے ہیں۔پچھلے سالوں میں پاکستان کی زیادہ تر آبادی مڈل کلاس تصور کی جاتی تھی۔یہ متوسط طبقہ نہ تو غربت میں پستا نہ ہی نہایت امیر ہوتا۔اب نئی حکومت کے دور میں اس متوسط طبقے کا وجود بھی ختم ہوتا جا رہا۔وہ لوگ جو تھوڑا بہتر کماتے تھے کچھ بچت کر پاتے تھے مگر اب ہوشربا مہنگائی،چیزوں کی آسمان سے باتیں کرتیں قیمتیں،نئے سے نئے برینڈ کا جنم لینا اور ہر چیز پہ غنڈہ ٹیکس متوسط طبقے کی کمر توڑ چکا ہے۔وہ طبقہ جو اپنی ضروریات سے بچا کر دوسروں کی مدد کرتا تھا آج خود سفید پوشی سے اپنا ہی بھرم رکھنے کی کوشش میں غلطاں ہے۔
دوسری جانب ملک کو چوسنے والے امراء ہر شہر میں جمع ہو چکے ہیں۔امرا کا یہ مخصوص طبقہ اس قدر امیر ہے کہ کھڑے کھڑے جائدادیں،زمینیں،گاڑیاں حتی کہ انسانوں کو بھی خرید سکتا ہے۔یہ طبقہ نئی ماڈل کی گاڑیوں میں سفر کرتا ہے،اربوں روپے کے محلوں میں رہتا ہے اور پیسے کو دونوں ہاتھوں سے اڑاتا ہے۔نئے دور کا ایک نیا فتنہ ٹک ٹاک ہے اور یوٹیوب ہے۔امرا کا یہ طبقہ یوٹیوب پہ چینل کی صورت آپ کو دکھائی ضرور دے گا۔کہیں یہ اپنے نئے گھر کی ویڈیو اپ لوڈ کرتے نظر آئیں گے تو کہیں اپنے جٹ میں دوسرے ملک کا سفر کرتے۔کہیں یہ کسی کو نئے ماڈل کی گاڑی گفٹ کرتے نظر آئیں گے تو کہیں سونے اور ہیرے کے محلوں میں قیام کرتے ہوئے۔ان امراء کو دیکھ کر غریب عوام نہ صرف اپنی حسرتوں پہ آہیں بھرتی ہے بلکہ اس بلندی تک پہنچنے کے لیے ناجائز ذرائع بھی استعمال کرتی ہے۔قائد اعظم جن نوجوانوں کو ملک کا سرمایہ کہتے تھے اور جنہیں ملک کی ترقی کا سنگ میل سمجھتے تھے آج وہ خواتین اور مرد ٹاک ٹاک اور انسٹا پہ مجرا کرنے اور دیکھنے پہ مشغول ہیں۔اسکول کے بچوں سے لے کر یونیورسٹی کے طلبہ تک سب کو لائیکس اور فالورز کی فکر ہے۔جس آزاری کی خواب علامہ اقبال اور قائد اعظم نے دیکھا تھا وہ ہمیں مل تو گئی ہے مگر دوسری جانب ہمارے ذہن ابھی تک غلامی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ہم ابھی تک یورپی نظریات پہ عمل پیرا ہیں،ابھی تک ہمارے ہیرو فلم و ڈرامے کے ہیرو ہیں،ہمارے زندگی کا مقصد بس زیادہ سے زیادہ دولت کا حصول اور سوشل میڈیا کے ذریعے زیادہ سے زیادہ شہرت ہے۔
کہاں ہیں وہ اقبال کے شاہین جنہیں اونچی اڑان بھر کر پہاڑوں پہ نشیمن بنانا تھا یہاں تو وہ شاہین ہیں جو کرکٹ میچ جیتنے پہ بھنگڑے ڈال سکتے ہیں یا پھر وہ شاہین ہیں جو لمبے بال رکھ کر الٹی سیدھی حرکات کی ویڈیو سے لاکھوں لائک اکھٹی کر سکتے ہیں۔
ہمارے ذہنوں کے ساتھ ابھی بھی غلامی کی زنجیریں منسلک ہیں۔اگر ملک کی ترقی اور استحکام کے خواب دیکھنے ہیں تو نظریات کو وسعت دینی ہو گی۔ذہنوں کو انگریزوں اور ہندوؤں کی غلامی سے آزاد کرنا ہو گا۔صرف باتیں ہی نہیں کچھ عمل کر کے دیکھانا ہو گا۔قوم کے معماروں کو محنت اور لگن پہ ابھرنا ہو گا۔صرف تبھی اس ملک کی سلامتی ممکن ہے۔
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر 
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ

بشکریہ اردو کالمز