369

کیا میں بنت حوا ہوں؟

 

چودہ اگست کے دن جب سارا ملک آزادی کی خوشیاں منانے میں مصروف ہے۔کہیں  باجے کہیں پٹاخے،کہیں جھنڈیاں،کہیں رنگ و بو کا میلہ غرضیکہ ہر جانب رونق اور عید کا سماں ہے۔ہر شخص اس خوشی کو اپنے انداز میں منا رہا ہے۔ایسے میں بدنام زمانہ ایپ "ٹک ٹاک" پہ ایک دوشیزہ جلوہ افروز ہوتی ہے اور اپنے فالورز کو بتاتی ہے کہ میں مینار پاکستان آ رہی ہوں جس نے بھی مجھ سے ملنا ہے وہ وہاں آ جائے۔"ٹک ٹاک"آج کل کے زمانے کا سستا مجرا بن چکا ہے جہاں بغیر پیسوں کے آپ تماش بینوں میں شامل ہو کر فل شو کے مزے لوٹ سکتے ہیں۔فحاشی پھیلنے کے اس ذریعے کو کئی بار پاکستان میں بین کیا گیا ہے مگر پھر اس کی پابندی ہٹا دی جاتی ہے۔"ٹک ٹاک"ہماری عوام کی سب سے سستی تفریح کا ذریعہ بن چکی ہے۔اچھے گھرانوں کی لڑکیاں جو عام حالات میں اپنے بھائی کے دوستوں کے سامنے بھی نہ آئیں وہ بھی ویوز اور فالورز کے چکر میں ہر ایرے غیرے کو اپنی ادائیں دیکھا رہی ہوتی ہیں۔

چودہ اگست میں مینار پاکستان پہ ایک واقعہ وقوع پذیر ہوتا ہے اور پھر تین دن بعد سوشل میڈیا پہ شور اٹھنا شروع ہو جاتا ہے۔ایک لڑکی اور سو مرد،ایک لڑکی چار سو مرد،کچھ ذرائع نے تو اس خبر کو ایک لڑکی کے ساتھ سو مردوں کے گینگ ریپ کی طرح پیش کیا جس نے تمام لوگوں کی توجہ حاصل کر لی۔ہر جانب ایک شور و غل کا طوفان برپا ہو گیا۔ہیش ٹیگ اور ٹرینڈ بن گئے،پاکستانی مرد اور پاکستان کا ہر شہری درندہ صفت قرار دیا جانے لگا۔ایک لڑکی کی مظلومیت کے رونے روئے جانے لگی۔پھر ایک وڈیو منظر عام پہ آتی ہے کہ محترمہ اپنے ساتھ ہونے والا واقعہ خود سنا رہی ہیں۔کیا اس سب واقعے کے پیچھے ہونے والے عوامل کے متعلق سوچا گیا؟ہماری قوم تو لوگوں کو ایک دن میں شہرت کی بلندیوں پہ پہنچا دینے والی قوم ہے۔اب وہ شہرت اچھی ہو یا بری کوئی معنی نہیں رکھتی۔وہ نیلی آنکھوں والا چائے والا ہو،یا گول گالوں والا پٹھان بچہ،وہ یونیورسٹی میں گھٹنوں پہ بیٹھ کر پروپوز کرنے والی لڑکی ہو یا مینار پاکستان پہ چار سو مردوں کے بیچ گھسنے والی لڑکی۔ہر ویڈیو وائرل ہو کر جنگل میں آگ کی طرح پھیل جاتی ہے اور کچھ ہی عرصے بعد یہ لوگ ٹی وی چینل پہ بیٹھے انٹرویو دے رہے ہوتے ہیں۔

میں نے اس واقعہ کو دیکھنے اور سننے کے بعد کوئی کمنٹ  نہیں کیا بلکہ یوں سمجھیں کسی بھی معاملے پہ دو دن کوئی اظہار خیال کرنا ہی نہیں چاہیے کیونکہ ہمیشہ حقائق بعد میں سامنے آتے ہیں۔چاہے وہ یونیورسٹی میں سب کے سامنے اپنی عزت گنوانے والی لڑکی ہو جسے بعد میں غلطی کا احساس ہوا یا چاہے نور مقدم کا متنازع کیس۔اس واقعے کو زینب کے ریپ اور باقی ننھی بچیوں کے ریپ سے جوڑنے کی کوشش نہ کی جائے۔اس ٹک ٹاک عائشہ کا سو افراد نے ریپ کیا ہوتا تو وہ زندہ نہ ہوتی نہ ہی اتنی دیدہ دلیر ہوتی کہ اپنا چہرہ لے کر کیمرے کے سامنے آئے۔

مینار پاکستان اور اس جیسی جگہیں آج سے نہیں سالوں سے ایسی ہی ہیں۔ہر سال خاص موقعوں پہ جب برقی قمقموں سے عمارتوں کو سجایا جاتا ہے وہاں ہزاروں لوگ اسے دیکھنے کے لیے آتے ہیں۔ایک وقت تھا جب ہم چھوٹے تھے اور ایسے موقعوں پہ باہر نکلتے تھے مگر پھر بڑے ہونے کے بعد نکلے بھی تو گاڑی کے اندر ہی بیٹھے رہے اگر نیچے اترنا بھی پڑا تو والد کے ساتھ گاڑی کے بالکل پاس۔یہ بدمعاش،لفنگے، تلنگے آج پیدا نہیں ہوئے،یہ ایک مشتعل ہجوم ہوتا ہے جو ہر موقع پہ شرابیوں کی طرح بدمست ہاتھیوں کی طرح جھومتا نظر آتا ہے۔یہ سیٹیاں بجاتے،شور کرتے،چھڑ چھاڑ کرتے،جملے کستے،ہلڑ بازی کرتے ہیں یہ ان کا انجوائے کرنے کا طریقہ ہے۔اگر مذکورہ لڑکی اپنے باپ بھائی کے ساتھ ہوتی اور یہ سب ہوتا تو یقیناً اور بات تھی لیکن وہ اپنی ٹیم کے ساتھ موجود تھی جس میں لڑکے ہی تھے۔

پہلی غلطی اس نے خود غلطی کی کہ رش اور ہجوم کو جانتے بوجھتے دعوت دی،پھر اسی کی ٹیم کے لڑکوں نے یہ کام سرعام شروع کیا جو اگلوں نے ہمت پکڑی۔ورنہ خود سوچیں جس لڑکی کے ساتھ چھ لڑکے اس کی حفاظت کے لیے ہوں کیا اس کے پاس کوئی لڑکا آ سکتا ہے؟دو تین کے بھی منہ توڑے ہوتے تو باقی خود پیچھے ہو جاتے لیکن ایسا نہیں ہوا اس کے اپنے الفاظ ہیں کہ میری حفاظت کرنے والے خود شامل تھے جب آپ نے بلی کو ہی چھچھڑوں کی حفاظت سونپ دی تو پھر کس بات کا شکوہ؟اب بلی خود چھچھڑے کھائے یا باقی بلیوں کو بھی دعوت دے۔اس کی مرضی۔

 میں بنت حوا ہوں کا دعویٰ کرنے والی آزاد نسل کی لڑکیوں سے میرا سوال ہے کیا تم واقعی بنت حوا ہو؟نہ تمہیں اپنی عزت کا احساس ہے نہ اپنے سے جڑے مردوں کی۔نہ تمہیں چند لائکس کی خاطر اپنا میک اپ زدہ چہرہ اور اچھے کپڑے غیر مردوں کو دیکھاتے حیا آتی ہے۔نہ تمہیں غیر محرموں کے ساتھ دوستیاں رکھتے شرم آتی ہے۔اگر کوئی بھی ناگوار حادثہ پیش آ جائے تو تم شرم سے ڈوب مرنے کے بجائے کیمرے میں انٹرویو دینے کو ترجیح دیتی ہو۔بلاشبہ جو مردوں نے کیا وہ قابل مذمت ہے مگر جس طرح زنا بالجبر اور زنا بالرضا میں فرق ہے اور سزائیں فرق ہیں بالکل اسی طرح اس فعل میں لڑکی کا کردار بھی بہت اہم ہے جو نامحرموں کے ساتھ ایسی جگہ پہ پہنچی۔اگر کسی کی یہ سگی بہن ہوتی تو وہ اپنی جان پر کھیل کر اس کی عزت کی حفاظت کرتا مگر سگی بہن ہوتی تو ایسی نوبت ہی نہ آتی کیونکہ کوئی بھائی اپنی بہن کو جان بوجھ کر ہزار مردوں کے مجمے میں لے کر نہ جاتا۔

بحیثیت حوا کی بیٹی میرا حکام بالا سے مطالبہ ہے کہ خدارا ریپ کرنے والے جانوروں کو سرعام پھانسی کی سزا دیں۔ایسے درندوں کی لاشیں سرعام چوک میں لٹکی رہیں اور وہیں سڑیں تاکہ ان سے اٹھنے والا تعفن ہمارے معاشرے کے دیگر مردوں کی بڑھتی ہوئی شہوت کو روک سکے۔ایک درندے کا حشر دیکھ کر باقی درندے عبرت پکڑ سکیں۔سڑک پہ چلتی عورت محفوظ ہو،اسکول اور مدرسے میں عورت کو کوئی دیکھے تو سامنے چوک میں لٹکی اپنی لاش پہلے نظر آئے۔کام کرنے والی عورت سے گھر کے اندر موجود بچی تک بنت حوا کو تحفظ دیا جائے تاکہ وہ انسان پیدا کر سکے منہ زور بھیڑیے اور درندے نہیں۔اگر کوئی لڑکی غلطی سے مردوں کی بھیڑ میں آ نکلے تو اسے گوشت کی بوٹی سمجھنے کے بجائے ایک انسان اور عورت کی حیثیت سے دیکھا جائے۔اس کے لیے راستہ چھوڑا جائے راستہ تنگ نہ کیا جائے۔اگر ہمارا معاشرہ اسی طرح بے راہ روی کا شکار رہا تو وہ وقت دور نہیں کہ بچیوں سے لے کر عورت تک ہر بنت حوا کا وجود ہی ختم ہو جائے یا یہ بنت حوا شادی سے انکاری ہو کر اکیلے رہنے کو ہی ترجیح دے گی اور ہمارا خاندانی نظام درہم برہم ہو جائے گا۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو شریعت کے احکام پہ عمل کرنے اور بنت حوا کی عزت و تکریم کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔

بشکریہ اردو کالمز