168

ادب اور آپ بیتی

مطالعے کا شوق رکھنے والوں کو عموماً آپ بیتی پڑھنا پسند ہوتا ہے ۔ آپ بیتی میں آپ کو ادب بھی ملتا ہے اور دلچسپ اورحقیقی کہانی بھی ۔سو ! مطالعے کے رسیا اکثر احباب کو آپ بیتی کا شوق جنون کی حد تک ہوتا ہے ۔ ادب میں آپ بیتی کی بے پناہ اہمیت ہے ۔اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ آپ بیتی کا مطالعہ عموماً دلچسپی کا باعث ہوتا ہے اور شاید ہی کوئی آپ بیتی اپنے قاری کو بور کرتی ہو یا کم از کم میرا کوئی ایسا تجربہ نہیں ہے ۔ دوسری طرف ا س کا بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ آپ بیتی کے مطالعے کے دوران آپ محض چند دنوں میں ہی وہ تعلیم و تربیت اور تجربہ حاصل کر سکتے ہیں جو شاید سالوں خاک چھاننے کے بعد بھی میسّر نہیں آتا۔ اسے یوں دیکھیے کہ کوئی انسان ساٹھ ستّر سال گزارنے کے بعد اپنی آپ بیتی لکھتا ہے اور اُسے یہ لکھتے ہوئے کئی مہینے بلکہ بعض اوقات کئی سال درکار ہوتے ہیں اور آپ وہ کتاب ہفتے دس دنوں میں پڑھ لیتے ہیں تو گویا اس کا پچاس ساٹھ سال کا تجربہ آپ نے محض آٹھ دس دنوں میں حاصل کر لیا۔لہذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ ایک اچھی آپ بیتی اپنے قاری کے لیے ایک ’’ موٹیویشنل سپیکر ‘‘ کا کردار ادا کرتی ہے جو اس میں ہمت ، حوصلہ اور جذبہ بھر دیتی ہے ۔ ایک عمدہ آپ بیتی کا بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ یہ آپ کو کتابی باتیں نہیں بتاتی بلکہ آپ کو اصلی اور practical knowledge سے روشناس کرتی ہے جس سے آپ کو زندگی کرنے میں آسانی میسّر آتی ہے ۔ اچھا سوانح نگار اپنے قاری کو بتاتا ہے کہ کہاں اُس نے غلطی کی اور کہاں اُس سے بلنڈر سرزد ہوا ۔ اُس کی کہانی میں زندگی کے عملی اسباق شامل ہوتے ہیں ۔ وہ اپنے کارنامے بھی بتاتا ہے اور اُن کے پیچھے کی گئی کوششوں کی تفصیل بھی دیتا ہے ۔ دوسری طرف وہ اپنے پچھتاوے بھی سامنے لے کر آتا ہے اور ان پچھتاووں کے پس ِ پردہ اپنی کمی کوتاہیوں کی بات بھی کرتا ہے ۔ قاری کے سامنے سب کچھ واضح ہوجاتا ہے ۔ اور اُسے اپنی راہِ عمل صاف دکھائی دینے لگتی ہے ۔ ذاتی اصلاحی پہلو کے علاوہ آپ بیتی کا مطالعہ عموماً دلچسپی کا باعث ہوتا ہے ۔حقیقی اور چنیدہ واقعات کی بنا پر اس میں لطف اندوزی کے لیے بے پناہ سامان موجود ہوتا ہے ۔ اس حوالے سے معروف امریکی ادیب اور مزاح نگار مارک ٹوئن کی آپ بیتی خاص طور پہ قابل ِ ذکر ہے ۔ اس کا اسلوب اتنا عمدہ، دلچسپ اور پُر مزاح ہے کہ قاری متبسّم چہرے اور عجیب سرشاری کے ساتھ اسے پڑھتا چلا جاتا ہے ۔انیسویں صدی کے امریکہ کے دیہاتی اور قصباتی زندگی کا اس سے عمدہ بیان شاید ہی کسی اور کتاب میں موجود ہو۔ یہ سچ ہے کہ آپ بیتیوں میں پورا سچ نہیں ہوتا اور شاید ہونا بھی نہیں چاہیے ۔بعض لوگو ں کا خیال ہے کہ اپنی آپ بیتی میںآپ اپنے بارے میں سچ بتائیں لیکن صرف اس حد تک جہاں وہ کسی اور کے لیے Damaging نہ ہو ۔ انہی لوگوں کو کہنا ہے کہ سچ کی جو سطح اور انداز جوش ؔ ملیح آبادی کی’’ یادوں کی بارات‘‘ اور خوشونت سنگھ کی آپ بیتی ’’ سچ ، محبت اور ذرا سا کینہ ‘‘ میں نظر آتا ہے شاید وہ بھی مناسب نہیں ہے اور دوسری جانب معروف انڈین ادیب ، نقاد اور استاد یوسف حسین خان کی آپ بیتی ’’ یادوں کی دنیا ‘‘ کی طرح اسے اس قدر ’’ ہومیو پیتھک ‘‘ بھی نہیں ہونا چاہیئے۔ پھر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آپ بیتی جھوٹ بولنے کا ایک بڑا ہی قابل احترام طریقہ ہے ۔ لیکن میرا خیال ہے کہ اگر بندہ مطالعے کا شوقین اور آپ بیتی پڑھنے سے رغبت رکھتا ہو تو وہ بین السطور سچ اور جھوٹ کی پرکھ آسانی سے کر لیتا ہے ۔ حالیہ دنوں میں جس آٹو بائیو گرافی کے مطالعے نے مجھے بے حد متاثر کیا وہ ہے مولانا عبدالمجید سالکؔ کی ’’ سر گزشت ‘‘۔ سالکؔ صاحب کی سوانح عمری کا مطالعہ بلا شبہ ایک بہت ہی خوشگوار تجربہ رہا۔ جس بندے کو ادب ، صحافت ، تاریخ ، سیاسیات اور تحریک پاکستان میں دلچسپی ہو اُسے اس کتاب کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے۔ یہ سالکؔ صاحب کی زندگی کے کم و بیش چالیس سال کی ڈائری ہے جسے بڑے سادہ ۔ سلیس اور نہایت دلچسپ انداز میں تحریر کیا گیا ہے ۔کتاب بیسویں صدی کی پہلی دہائی سے لے کر قیام پاکستان تک کے عرصہ پر محیط ہے اور ہم جانتے ہیں کہ یہ نصف صدی تاریخ و ادب کے حوالے سے کس قدر اہمیت کی حامل ہے ۔ اہم واقعات کا مختصر ، جامع اور انتہائی دلچسپ بیان اس آپ بیتی کا خاصہ ہے ۔ اہم بات یہ ہے کہ مولانا سالک نے اس خود نوشت میں چشم دید واقعات کا تذکرہ کیا ہے لہذا ان کا مستند ہونا یقینی ہے ۔ عبدالمجید سالکؔ خود ایک منجھے ہوئے ادیب ، بڑے معروف شاعر اور انتہائی کہنہ مشق اور سلیقہ مند صحافی تھے۔ ان سب سے بڑھ کر وہ بڑے محبتی ، یار باش اور دوست احباب کی محفلیں منڈلیاں سجانے والے انسان تھے ۔بیسویں صدی کے نصف اول میں برصغیر کو کونسا سرکردہ ادیب ، شاعر ، صحافی، سیاست دان اور لیڈر ہو گا جن سے سالکؔ صاحب کی ملاقاتیں نہیں رہی ہوں گی ۔۔ اس آپ بیتی سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ڈاکٹر اقبال ، مولا نا ظفر علی خان اور عطا اللہ شاہ بخاری اور کئی دیگر اکابرین سے اُن کی مسقل اور طویل صحبتیں رہیں ۔۔۔پطرس بخاری ، غلام رسول مہر ؔ ، چراغ حسن حسرت اُن کے قریبی دوستوں میں شُمار ہوتے تھے ۔ برصغیر کے معروف سیاست دان سر سکندر حیات خان، ملک خضر حیات خان ،مہاتما گاندھی کے ساتھ بھی اُن کی اکثر ملاقاتیں رہیں ۔ کتاب کی سلاست اور روانی انتہائی متاثر کُن ہے ۔ جناب سالکؔ صاحب کی بذلہ سنجی ، کمال جملے بازی اور شگفتہ نگاری قاری کو ہمہ وقت اپنے حصار میں لیے رکھتی ہے ۔ میرے خیال میں اردو ادب و تاریخ کے حوالے سے اہلِ ذوق احباب کے لیے سالکؔ صاحب کی آپ بیتی حد درجہ دلچسپی اور توجہ کا باعث ہو گی اور اسے ان احباب کی لائبریری کا حصہ ہو نا چاہیے ۔

بشکریہ نایٹی ٹو نیوز کالمز