173

نیا سال بے حال پاکستان

 زندہ و بیدار قوموں کے لئے ہر آنے والا دن بہت سے مواقع لے کر کر آتا ہے ۔اور ان کے حکمران اسے حاصل کرنے کے لئے ہر ممکن کوشش کرتے ہیں ۔مگر جن قوموں کا ہر آنے والا دن دلدل میں دھنستا چلا جائے ۔مایوسی اور بے ہمتی بڑھتی چلی جائے تو سمجھو ان کی قیادت میں صلاحیت اور ویژن کی کمی ہے ۔

نئے سال 2020 میں ترکی اپنی جدید الیکڑک گاڑی کے ساتھ داخل ہوا ۔ترکی میں مقامی طور پر تیار کردہ الیکٹرک اسمارٹ کار  ٹوگ تقریب رونما ہوئی ۔طیب اردگان نے اپنے خطاب میں اس بات کا اظہا کیا کہ انہوں نے  اپنے 60 سال قبل کے ویژن کو حقیقت  میں تبدیل ہوتے دیکھا۔اور ان کے خیال میں اس کار پروڈکشن سے 4 ہزار سے زائد افراد کو روزگار ملے گا ۔

چین نئے سال میں معاشی سپر پاور بننے کے خواب کے قریب تر ہے ۔جدید اور ترقی یافتہ چین اپنے معاشی اور معاشرتی نظام کی ترقی کا آئینہ دار ہے ۔

ایک معروف امریکی مصنف اپنی کتاب (دنیا کا حکمران کون) میں لکھتے ہیں کہ گوادر پورٹ کی تکمیل کے بعد ملاکو کے ساحل سے خلیج ایڈن تک کے پانیوں پر چین کی تجارت  پھیل جائے گی اور سمندر چینی تجارت کی گزرگاہیں بن جائیں گی ۔جو اب تک امریکہ ذاتی جھیل کے طور پر استعمال کرتا ہے ۔39 ممالک کی ایک تازہ سروے کے مطابق یہ بات سامنے آئی کہ عالمی کساد بازاری نے امریکی معیشت کو بری طرح متاثر کیا جبکہ چین نے اس سال تیزی سے ترقی کی ۔

چین کی اس ترقی کے پیچھے ان کی حب الوطنی ۔کام سے لگن اور ویژن تھا ۔

ہمسایہ ممالک افغانستان بھی امریکیوں کی درگت بناتےہوئے نئے سال میں داخل ہوا اور ایران بھی مسلکی روایات اور مہنگائی سے لڑتے ہوئے نئے عزم اور نئے سال کو خوش آمدید کہہ رہے ہیں ۔

بنگلہ دیش ابھرتی معیشت کے ساتھ نئے سال میں داخل ہوا ۔سینئر پاکستانی صحافی ضیغم خان کی جانب سے سوئٹزر لینڈ کی بجائے بنگلہ دیش کو ماڈل بنانے کے مشورے پر رد عمل دیتے ہوئے بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد نے پاکستان کو بھر پور امداد اور راہنمائی کی پیش کش کی ۔ٹرانسپرنسی انٹر نیشنل کے مطابق بنگلہ دیش سات فیصد کی شرح سے ترقی کر رہا ہے جبکہ پاکستانی کی ترقی کی شرح 5.8 فیصد ہے ۔

دنیا کے خوشحال اور کامیاب ممالک کی تاریخ کا مطالعہ کرنے سے یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ ان اقوام کی کامیابی کے پیچھے ان کی انتھک مخنت و جدوجہد اور مخلص قیادت کا ہاتھ ہوتا ہے ۔

جبکہ پاکستانیوں کے پاس مایوسی کے سوا بتانے کے لئے کچھ نہیں ۔نا اہل ۔جھوٹے منافق حکمران بھاری بھرکم نکمی کابینہ ۔اداروں میں ٹسل ۔جو ووٹ لینے اور اقتدار کی کرسی پر براجمان ہونے کے لئے وعدے کرتے ہیں اور اقتدار میں آتے ہی پچھلی حکومتوں کی کرپشن کا رونا روتے ہوئے آئی ایم ایف سے بھیک مانگنے پہنچ جاتے ہیں ۔جس سے انکے اور باقی کابینہ کی جیبیں خوب بھر جاتیں ہیں ۔ اگر ہم پچھلے سال کی ترقی کا موازنہ دوسرے ممالک سے کریں تو نئی حکومت کے آتے ہی ڈالر مہنگا اور پاکستانی روپے 

 کی قدر میں کمی کاتحفہ ملا جس سے معاشی حالت ابتر ہو گئی اور یہ مفروضہ کے موجودہ حکومت مضبوط قیادت معاشی حالات کو فوری سنبھالے گی لیکن تمام تر قد کاٹھ کے باوجود نا انکی سوچ بدلی اور نا فکر ۔اس منظر نامے کے پیش نظر پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں سمیت فوجی سلامتی کے تمام محاذوں پر ایک بد ترین صورت حال جنم لے چکی ہے ۔اس کے علاوہ وزیر اعظم نے پاکستان کی تعمیرو ترقی سے متعلق اپنا ویژن بناتے ہوئے  سوئڑزر لینڈ کے ماڈل پر عمل کرنے کا اعلان کیا تھا ۔اس سے قبل انہوں نے فرد اور قوم کی اخلاقی اقدار ریاست کی شفافیت اور۔حمرانوں کی دیانت داری کے حوالے سے مدینہ کی ریاست کو اپنی منزل قرار دیاانہوں نے قوم کو غربت کی تاریک سے نکالنے کے حوالے سے متعدد بار چین کی مثال دی جس کا تجربہ نیا سال چڑھتے ہی عوام کو پٹرول ۔گیس بجلی ۔اشیائے خوردونوش کی اشیاء پر ٹیکسوں کی صورت میں  ہوا ۔اور ایک کروڑ نوکریوں کا دعویٰ بھی گزشتہ سال کے اختتام تک دھرے کا دھرا رہ گیا ۔

اگر اداروں کی نا گفتہ بہ حالت کو دیکھیں تو وہ بھی مکمل انحطاط کا شکار ہیں ۔تعلیم کا شعبہ ہو یا صحت کا یا سپورٹس کا شعبہ مکمل زوال کا شکار ہے کیونکہ معاشرے میں زوال کبھی تنہا نہی ہوتا وہ تمام شعبوں کو متاثر کرتا ہے ۔تعلیم کا شعبہ کا حال یہ ہے کہ ایک اندازے کے مطابق ملک میں 67 لاکھ سے زائد بچوں کی تعداد جو سکول نہی جاتے ۔۔آئے روز اساتذہ کی ہڑتالیں ان کے تحفظات دور نا کرنا ۔گوکہ تعلیم کے میدان میں کوئی قابل ذکر اقدامات دیکھنے کو نہی ملتے ۔ترقی یافتہ ممالک چین ۔امریکہ جاپان جیسے ممالک نے تعلیمی شعبے کو سب سے زیادہ اہمیت دی ۔دنیا کے وہ ممالک جن کی معیشت تباہ ہو چکی ہو ان کا دفاعی بجٹ تو اربوں کھربوں میں مگر تعلیم کے بجٹ نا ہونے کے برابر ہے اور یہی ان کی تباہی کا باعث ہے ۔صحت کے شعبے کا حال اس سے بھی دگرگوں ہے آئے روز ڈاکٹروں کی ہڑتالیں دوائیوں کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ حکومتی نا اہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔کسی بھی ادارے کا ذکر کریں تو ہر ادارہ کرپشن کا شکار ہے ۔

اور ہماری سیاسی اخلاقی پستی اس قدر زوال کا شکار ہے کہ  جب تک ہم ایک دوسرے پر پوری قوم کے سامنے کیچڑ نا اچھال دیں ہماری سیاست میں چمک نہی آتی۔الزام تراشی ۔کرپشن ۔لوٹ کھسوٹ ۔منافقت یہ وہ صفات ہیں جو حکومت چلانے کے لئے ہمارے حکمرانوں کا وطیرہ رہا ہے ۔ کچھ دن پہلے ایک   وزیر نے  راہ چلتے ہوئے کو تھپڑ مار دیاکہ اس موٹر سائیکل والے کی ہمت کیسے ہوئی کہ ایک وزیر کی گاڑی کو ٹیک اوور کر سکے ۔یہ ہماری اخلاقی قدریں ہیں جس مدینہ کی ریاست میں نبی ص نے سب سے پہلے اخلاقیات کا درس دیا تھا اخوت و بھائی چارے کی مثال قائم کی تھی آج ہم اسی مدینہ کی ریاست کے دعوے دار اخلاقی انحطاط کا شکار ہیں ۔

 یہ سب تو قصہ تھا پچھلے سال کا اب یہ دیکھنا ہے کہ اس سال کے دعوے پورے ہوتے ہیں یا وہ بھی گزشتہ سال کی طرح عوام کو لوری دلانے کے لئے ہے۔

زندہ قومیں اپنے کل سے سبق لیتے ہوئے آئندہ کی پلاننگ کرتی ہیں ۔اور انہیں عملی شکل میں ڈھالنے کے لئے تمام تر ممکنہ ذرائع استعمال کرتی ہیں۔

بشکریہ اردو کالمز