387

انصاف کے تقاضے ادھوے کیوں؟

آج سے ایک سال قبل 21اپریل2019ءایک مجذوب شخص جس کا نام شوکت(مرحوم)تھا اپنے آبائی شہر تراڑکھل سے اچانک گم ہو جاتا تاہے۔ جب شوکت اپنے گھر نہےں لوٹتا تو اس کے ورثاءبہت پریشان ہو جاتے ہےں اور شوکت کی تلاش مےں نکل جاتے ہےں۔شوکت کی کوئی خبر نہ ملنے پر اُس کے ورثاءتھانے میں درخواست دائر کرواتے ہےں اور ضلعی انتظامیہ سے اپیل کرتے ہےں کہ شوکت گم ہو چکا ہے اُس کو ڈھونڈا جائے۔ شوکت کی اچانک گمشدگی پر اس کے آبائی شہر مےں طرح طرح کی افواہیں گردش کرتی ہےںکہ شوکت کو ایجنسی(خفیہ ادارے)والوں نے پکڑ لیا ہے اور وہ شوکت کو ضروری تفتیش کے بعد دو تین دن مےں واپس چھوڑ دیں گے۔شوکت کے ورثاءکو یہ یقین دہانی کروائی جاتی ہے کہ آپ بے فکر ہو جائےں انشاءاللہ شوکت دو تین دن مےں واپس آ جائے گا۔ آٹھ سے دس دن بیت جاتے ہےں مگر شوکت کا کوئی پتہ نہےں چلتا کہ شوکت کہاںچلا گےا ہے۔اچانک 30اپریل 2019ءکو شوکت کی لاش ڈھڈیال کے مقال سے پانی مےں تیرتی ہوئی ملتی ہے اور اُس کے ورثاءکو یہ اطلاع دی جاتی ہے کہ آپ کا جگرگوشہ شوکت اس دنیائے فانی کو الوداع کہتے ہوئے داعی اجل کو لبیک کہہ گےا۔
یہاں مےں آپ کو تھوڑا سا شوکت کے بارے مےں بتاتا چلوں کہ شوکت خورشید ایک مجذوب شخص جو نیم معذور بھی تھااگر چاہتا تو اپنی معذوری کو کیش کروانے کے لےے ساری عمرکسی شہر کے چوک مےں بیٹھ کر بھیک مانگ کر اپنی زندگی اچھے طریقے سے گزر بسر کر سکتا تھا۔لیکن شاید اس کے غریب اور غیور والدین کی تربیت کا نتیجہ تھا کہ شوکت اپنے نیم معذور جسم کے ساتھ لوگوں کے سامان کا وزن اپنے کندھوں پر اُٹھا اُٹھا کر اپنا خون پسینہ بیچ کر کھاتا تھا۔کبھی پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے ہوٹل پر سبزیاں کاٹتااور کبھی برتن دھو کرخوش ہوجاتا۔ شوکت کوئی بھکاری نہےں تھا۔ایک ایمان دار محنت کش تھا جو اپنے پیٹ کو حلال سے بھرتا تھا۔مخلص ایسا کے شہر کے تاجروں کو اپنی محنت کی کمائی سے بلاسود قرضے دے دیتا تھا۔
یکم مئی ےوم مزدور کے طور پر منایا جاتاہے اور اُسی دن ایک خوددار مزدور کو ہمیشہ کے لیے اُس کی لحد مےں اُتار دیا جاتاہے۔عوام نے محنت کش مزدور کے قاتلوں کو پکڑنے کے لیے احتجاج کیا تو انتظامیہ کی جانب سے گھنٹوں کی مہلت لے کر لاش کی تدفین کروالی گئی۔یوں انتظامیہ نے نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کر کے شوکت نام کے اس باب کو ہمیشہ کے لےے بند کرنے کی کوشش کی ۔
شوکت کا یہ پہلا کیس نہےں ہے ایسے ہزاروں کیس آپ کو اس معاشرے کے اندر ملیں گے جن کے ورثاءآج بھی اپنے جگر گوشوں کے انصاف کے لیے عدلیہ کے چکر کاٹ کاٹ کر تھک ہار گئے ہےں ۔مگر انصاف نام کی کوئی چیز نہےں ملی۔اور ستم ظریفی اس قدر کہ اگر کسی امیر کا بیٹا ہوتا تو انتظامیہ اورریاست کے ذمہ داران ہلچل مےں آ جاتے اور دو دن مےں کیس کا معاملہ حل ہو جاتا۔مگر ہائے غریب کی بدقسمتی غریب کو انصاف کس نے دینا ہے،غریب بیچارہ تو پہلے ہی غربت کی چکی میں پِس رہا ہے۔ 
شوکت تراڑکھل شہر کی رونق تھا جسے تراڑکھل شہر کی سبھی لوگ جانتے تھے،ایسے مخذوب اور نیم معذور شخص کو بھلا ایجنسی (خفیہ ادارے) والے کس لیے اُٹھا کر لے جائیں گے۔ایجنسی والوں کو اگر کسی پر شک ہوتا ہے تو وہ پہلے باقاعدہ اُس کی جانچ پڑتال کرتے ہےں اور پھر اُس کو اُٹھا کر لے جاتے ہےں۔ ضروری تفتیش کے بعد وہ بندے کو واپس چھوڑ دیتے ہےں نا کہ اُس کو قتل کر دیتے ہےں۔ وہ بھی ریاست کا ایک ادارہ ہے۔ اور اس ادارے نے بھی حکام بالا کے آگے جوابدے ہونا ہوتا ہے۔ ایسا ہرگز نہےں ہو سکتا ہے کہ کوئی اُن سے پوچھنے والا نہیں ہے۔ ایک عام آدمی کی عقل وفہم بھی اس چیز کو تسلیم نہےں کرتا۔ بہرکیف اداروں کو بھی اس کیس مےں اپنی کلیئرنس دینی چاہیے۔تاکہ اداروں پر کوئی سوالیہ نشان باقی نہ رہے۔
ضلعی انتظامیہ نے اس کیس مےں انتہائی لاپروی اور بے حسی کا مظاہرہ کیا ہے۔مقتول کی لاش کو تدفین کرنے کے بعد گھنٹے دنوںمیں دن ہفتوں مےں اور ہفتے مہینوں مےں اور پھر مہینے سالوں مےںتبدیل ہو چکے ہےں۔ قاتل تو دور کی بات ہے ایک سال بیت چکا ہے ابھی تک پورسٹ مارٹم رپورٹ اور انکوائری رپورٹ کو بھی منظر عام پر نہےں لایا جا سکا۔۔آہ۔۔۔ آہ۔۔۔ صد افسوس۔۔اُو خدا کے بندوں جس رپورٹ کو پندرہ دنوں مےں پبلک ہونا تھا، وہ ابھی تک پبلک کیوں نہےں ہوئی؟میں پوچھتا ہوں ظالمو! اُن غریب والدین سے اسی(۰۸)ہزار روپے بٹورنے کے باوجود بھی اُن کو رپورٹ کیوں نہےں دی گئی۔ظالمو! کیا تم نے اللہ کے حضور جوابدے نہےں ہونا ہے، اُن بوڑھے والدین کی آہو پکار اور سسکیاں کیا تمہیں نظر نہےں آتی؟ اس والد کی سفید موتیوںوالی داڑھی کا تو خیال کیا ہوتا۔ ظالمو ! کب تک ظلم کرتے رہو گے اور غریب سہتے رہیں گے۔کیا روز محشر اللہ کی عدالت مےں پیش نہےں ہونا ہے؟وہاں کیا جواب دو گے جہاں ہزاروں شوکت تمہارے گریبان پکڑے انصاف کے لیے اللہ کی عدالت مےں پیش ہوں گے۔ یہاں تو انصاف نہےں ملتا مگر اُس عدالت سے کون بچائے گا ، جہاں صرف اور صرف انصاف ہوتا ہے۔
ضلعی انتظامیہ نے ڈیڈباڈی کی سمپل فرانزک کے لیے لاہور لیبارٹری بھیجے۔ جس کی رپورٹ پندرہ دن مےں آنا تھی مگر تاحال رپورٹ کا کوئی پتہ نہےں۔ مقتول مرحوم کے والد صاحب دو بار اپنی جیب سے روپے خرچ کر کے لاہور کے چکر کاٹ چکے ہےں ۔ مگر سوائے ذلت و رسوائی کہ کچھ حاصل نہ ہو سکااور رپورٹ تاحال نہےں مل سکی۔ جس ریاست کے قانون کا یہ حال ہے کہ ایک سال بیت گیا رپورٹ نہےں آئی تومےں پوچھتا ہوںوہاں شوکت کے والدین کو انصاف کہاں سے ملے گےا۔وہ بوڑھے والدین جن کا جگر گوشہ قتل کر دیا گےا اُن غریبوں کو کون انصاف دلائے گا۔
میرا آپ سب سے ایک سوال ہے کہ کیا ریاست اپنے شہریوں کے حقوق کی ضامن نہےں ہوتی ؟یہ کیسی ریاست ہے جہاں ایک رپورٹ کو آتے آتے سال گزر گےا، ایسے توانصاف ہوتے ہوتے صدیاں بیت جائیں گی۔عوام کو کیوں نہےں بتایا جا رہا کہ آخر کیا وجوہات ہیں کہ مقتول کی رپورٹ ابھی تک منظر عام پر نہےں آ سکی۔؟ آخر کون سی ایسی طاقتیں ہےں جو شوکت کی پوسٹ مارٹم رپورٹ مےں حائل ہےں۔ شوکت کے ورثاءسے پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مبلغ اسی(80)ہزار روپے بٹور نے کے باوجود ایک سال گزر گیا مگر رپورٹ کیوں نہےں منظر عام پر آ سکی؟ آخر شوکت کے قتل کی ایف آئی آر درج کرنے مےں کون رکاوٹ بنے؟کون ہیں وہ جنہوں نے قتل والے دن اس کے ورثاءکو فون کال کر کے بلایا؟ شوکت کے بھائی نے جب لاش کو پہچاننے سے انکار کر دیا تو وہ کون تھا جس نے بڑے وثوق سے کہا کہ مقتول آپ کا بھائی ہی ہے؟ سڑک پر پہنچتے ہی کفن اور لکڑی کا باکس دینے والی خلائی مخلوق کون تھی اور میت کے لیے ایمبولینس دینے والے کون تھے؟ پوسٹ مارٹم رپورٹ کے چکر مےں نہ پڑنے کا مشورہ دینے والے وہ کون تھے؟ضلعی انتظامیہ اور پولیس اس وقت تک اس کیس مےں دو فیصد بھی کارکردگی دکھانے سے قاصر ہے آخر کیا وجہ ہے؟
ریاست کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے شہریوں کے حقوق ان کی دہلیز پر پہنچائے،مگر یہاں تو اُلٹی گنگا بہہ رہی ہے۔ قانون بس امیروں کے لیے ہے غریب کا کیا ہے وہ جائےں بھاڑ مےں ۔
 24 لاکھ مربع میل پر حکومت کرنے والے خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہےں،دریائے فرات کے ساحل پر اگر ایک کُتابھی بھوکا پیاسا مر گیا تو بروز قیامت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اس کے بارے مےں سوال کیا جائے گا؟یہاں تو ایک مجذوب کا قتل کر دیا جاتا ہے اور ریاستی اداروں اور ضلعی انتظامیہ کے کانوں مےں جوں تک نہےں رینگتی۔ کیا ریاست کے ذمہ داران سے اس بارے میں بروز محشر سوال نہےں ہو گا؟ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے۔مرنے والا ایک غریب ،بے بس اور لاچار تھا ، مےں پوچھتا ہوںاللہ کے حضور کس منہ سے جاﺅ گے ، ایک مظلوم کی آہو پکار سے کیسے بچو گے۔اللہ رب العزت کی لاٹھی تو بے آواز ہے۔
قبل اس کے کہ مظلوم کی ماں کی آنکھےں اپنے جگر گوشے کی یاد میں رو رو کر بے نور ہو جائےں، اس کے جگر گوشے کے ساتھ انصاف کیا جائے۔اور اس ادھوے انصاف کے تقاضوں کو پورا کیا جائے۔میں ریاست کے حکام بالا اور ضلعی انتظامیہ سے پُرزور مطالبہ کرتا ہوں کہ شوکت قتل کیس کی ایف آئی آر درج کر کے انکوائری کی جائے ۔ شوکت کی پوسٹ مارٹم رپورٹ کو عوام کے سامنے لایا جائے اور اُس کے قاتلوں کو کیف کردار تک پہنچایا جائے۔مےں اُن تمام دوستوں کا بھی شکرگزار ہوں جنہوں نے اس کیس کو ایک سال کے بعد پھر سے ایک نئی جان بخشی۔میں تراڑکھل کمیونٹی، بدلتا نوجوان موﺅمنٹ، تراڑکھل آفیشل سوشل نیٹ ورک اور بلخصوص جموں کشمیر ٹی وی( بے آوازوں کی آواز) کی پوری ٹیم اور خواجہ کبیر صاحب کا انتہائی مشکور ہوں جنہوں نے اپنے پروگرام(سچ زندہ ہے) مےں اس کیس کو اُجاگر کیا۔
یہ نوجوان ہمارے معاشرے کا قیمتی سرمایہ ہیں اور لائق تحسین ہےں جو ظلم کے خلاف اس وقت برسرپیکار ہےں۔اللہ پاک ان نوجوانوں کو فتح سے ہمکنار فرمائے۔ اور ان کی جدوجہد کو سلامت ہمیشہ سلامت رہے۔ 
اللہ پاک ہم سب کو صراط مستقیم پر چلتے ہوئے حق اور سچ کا ساتھ دینے کی توفیق و ہمت عطا کرئے۔(آمین)
والسلام
خیراندیش (محمد زبیر خان، متحدہ عرب امارات)

 

بشکریہ اردو کالمز