674

حضرت علیؓ کا قول

فجر کا وقت تھا۔تمام مساجد میں نماز ہو چکی تھی۔محلے اور گلی میں ہرطرف خاموشی کا سماں تھا۔ مسجد سے واپسی پر کچرے کے ڈھیر سے ایک چھوٹا بچہ چیزیں ڈھونڈ کر پاس پڑی ہوئی بوری میں ڈال رہا تھا۔میں نے قریب جا کر آواز دی "اے ماشومہ"بچے اس وقت یہاں کیا کر رہے ہو؟۔ یہ وقت دیکھو نزدیک آ کر ہاتھ میں تھامے بیٹری کو گھماتے ہوئے کہنے لگا کہ پلاسٹک کی چیزیں ڈھونڈ رہا ہوں۔میں نے مزید پوچھا کہاں سے آئے ہو؟۔بیٹری کی روشنی اپنے چہرے پر لہراتے ہوئے کہنے لگا کہ فلاں جگہ سے آیا ہوں۔(جو سٹی سے کافی دور ہے)والد محنت مزدوری کرتے تھے لیکن سب کچھ بند ہونے (لاک ڈاؤن) کی وجہ سے بے روزگار ہوگئے۔اب میں دوپہر بارہ بجے تک پلاسٹک اور باقی چیزیں تلاش کرکے روزانہ چار سے پانچ سو روپے کما کر ان پیسوں سے گھریلو اخراجات پورا کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ ایک ہی سانس میں اس بچے نے اپنی دکھ بھری داستان سنا دی۔اس ساری گفتگو کے بعد میں نے اسے اجازت دی اور اندھیرےمیں اپنی بیٹری سے کھیلتے ہوئے وہ 8 سے 9 سال کا بچہ میری نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ لیکن وہ معصوم بچہ کئی ایسے بےشمار سوالات چھوڑ کر چلا گیا جو میرے لئے اور پورے معاشرے کے لیے شرمناک ہے اور اس سے بڑھ کر ہماری ریاست کے لیے قابل غور ہے۔

گھر واپس آ کر اس بچے کی باتوں نے مجھے کافی زیادہ بےچین کیا۔ بحیثیت انسان  اگرکوئی بھی ایسا منظر دیکھتا ہے تو اسے بہت دکھ ہوتا ہے۔کیونکہ یہ انسانی فطرت کا خاصہ ہے کہ جب وہ کسی انسان کو تکلیف میں دیکھتا ہے تو اسے رنج و غم، اور فکر لاحق ہو جاتی ہےکہ باقی بچے اعلی قسم کی اسکولوں میں پڑھ رہے ہیں اور زندگی کی تمام تر سہولیات ان کو میسر ہیں۔لیکن  یہ بچہ یا ان جیسے ہزاروں بچے اس تکلیف میں کیوں مبتلا ہیں؟۔ اس اثناء مجھے حضرت علیؓ کا قول یاد آیا جب ایک شخص ان کے سامنے ایک مسئلہ رکھ دیتے ہیں اور آپؓ انتہائی باریک بینی سے ان کو جواب دیتے ہیں بلکہ مطمئن کر لیتے ہیں، ایک شخص حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس آکر آپ رضی اللہ تعالی کے سامنےحدیث قدسی پیش کرتے ہیں "اللہ تعالی تب تک صبح نہیں کرتے جب تک وہ اپنی مخلوق کے لئے رزق کا اہتمام نا فرمائے"۔ اے علیؓ، پھر یہ معاشرے میں بھوک و افلاس کیوں۔؟۔(یاد رہے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دور میں اسلام عجم تک پھیل چکا تھا اور یہ شخص کسی دوسری جگہ سے آیا تھا کیونکہ خلافت راشدہ کے دور میں ایسے مسائل کا نام و نشان تک نہیں تھا بلکہ سارا معاشرہ سکون سے زندگی بسر کررہا تھا) حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ یہ حدیث بالکل صحیح اور برحق ہے آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے مزید فرمایا کہ"آسمان یعنی اللہ تعالی کی طرف سے رزق اتارا جاچکا ہے بلکہ معاشرے میں موجود کسی نے تمہارے رزق پر قبضہ جمایا ہوا ہے"۔اب بظاہر دیکھا جائے تو ہر فرد کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کا اشارہ  کسی فرد کی جانب تھا۔لیکن ایسا بالکل بھی نہیں،آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اشارہ اس نظام کی طرف تھا جو اس شخص کے علاقے،قضبے،ملک میں قائم تھا جس نے جان بوجھ کر وہاں غربت پھیلا رکھی تھی اور لوگوں کو بھوک میں مبتلا کیا ہوا تھا۔ کیونکہ ریاست ہی کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو بنیادی ضروریات فراہم کرے جیسے روٹی،کپڑا،مکان،صحت،تعلیم، روزگار وغیرہ۔ بلکہ حضرت علیؓ کا اشارہ اس عادلانہ نظام کی طرف تھا جو آپؐ اور صحابہ کرامؓ نے" ریاستِ مدینہ" کے نام سے عرب میں قائم کیا ہوا تھا جو اس وقت عرب سے لیکر عجم تک پھیل چکا تھا ۔کیونکہ اس عادلانہ سسٹم کی وجہ سے پورا عرب معاشرہ ترقی کی راہ پر گامزن ہوا۔ہمیں ایک بات ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ ہم ایک ایسے معاشرے میں زندگی بسر کر رہے ہیں جسمیں تمام لوگ مسلمان ہیں۔ اور اس سے بڑھ کر ایک مسلمان ہونے کے ناطے ہمارا یہ ایمان ہے کہ بحیثیت مسلمان ہمارے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت آئیڈیل ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت یافتہ جماعت یعنی صحابہ کرامؓ کی زندگی ہمارے لئے مشعل راہ کی مانند ہے۔

اب آتے ہیں اس بچے کی طرف ہمارے ملک پاکستان میں ایسے لاکھوں بچے ہیں۔ جو زندگی کے تمام سہولتوں سے محروم ہوکر زندگی بسر کر رہے ہیں۔ جبکہ ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ ایسے تمام بچوں کو "چائلڈ لیبر"جیسے مرض سے بچائے۔ لیکن آج دنیا کی تمام ریاستیں اس مسئلے سے غافل نظر آرہی ہیں۔ آج ہمارے ملک پاکستان میں اس معاشرتی مسئلے کا گراف اوپر کی جانب بڑھ رہا ہے.ادارہ شماریات  کے مطابق دس سے بارہ لاکھ بچے غربت کی وجہ سے کم عمری میں سخت مشقت پر مجبور ہیں۔ اگر ایسے تمام بچوں سے ان کے مسائل کے بارے میں پوچھا جائے کہ تم اتنی سخت محنت کیوں کر رہے ہو؟۔ سب کا جواب ایک ہی ہوگا "بھوک" ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود بھی ہمارے پھول جیسے بچے بھوک سے مر رہے ہیں، چاہے وہ سندھ کے شہر"تھر"میں مرنے والے بچے ہو یا بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں کھلے آسمان تلے زندگی بسر کرنے والے ڈیرہ بگٹی کے معصوم پھول ہو۔ ہمیشہ ہم سب معاشرے میں موجود مخیر حضرات کی طرف دیکھتے ہیں کہ یہ لوگ امداد دے کر لوگوں کو بھوک سے بچا پائیں گے جو یقینا ہماری خام خیالی کے سوا کچھ نہیں۔ اس کے علاوہ ہم بشمول ریاست این جی اوز  کی طرف نظر دوڑاتے ہیں کہ یہ لوگ اس مسئلے سے ہمیں نکال پائیں گے لیکن ان کے تمام تر پروگرامات کو بھی خاطر خواہ کامیابی نہیں ملتی جبکہ اگر یہاں دیکھا جائے تو ریاست اور ریاست کی پالیسیوں کا نام و نشان تک نظر نہیں آتا۔ دوسری طرف اگر جائزہ لیا جائے تو اس معاشرتی مسئلے سے نمٹنے کیلئے بنائے گئے اداروں کی کارگردگی صرف غربت میں مبتلا بچوں کے اعداد و شمار بتانے تک محدود ہے۔اس مرض سے نبرو آزما ہونے کے لیے بنایا گیا دنیا کا سب سے بڑا ادارہ "ورلڈ بینک" کی کارگردگی بھی پوری دنیا کے سامنےعیاں ہے۔ اس ادارے کا بنیادی مقصد ہی بھوک و افلاس کا مکمل خاتمہ تھا لیکن یہ ادارہ بھی اپنا فرض نبھانے میں مکمل ناکام نظر آ رہا ہے۔ ایسے حالات میں ہزاروں سوالات جنم لیتے ہیں کہ کیا ہم ادارے صرف اس لیے بناتے ہیں کہ وہ انسانیت کو بھوک و افلاس میں مبتلا کرے؟۔ کیا دنیا اور ریاست کو بھوک سے مرتے ہوئے بچے نظر نہیں آتے یقیناً نظر آتے ہیں لیکن ہم نے آنکھوں پر بےشرمی کی وہ پٹی باندھ رکھی ہے، جس کا کوئی ثانی نہیں۔جب ہم کچرے کے ڈھیر پر پھول جیسے بچے دیکھتے ہیں یا ورکشاپ میں"چھوٹو" نام سے پکارے جانے سینکڑوں بچوں کو دیکھتے ہیں تو اس وقت حکمرانوں کو دو چار گالیوں سے نواز دیتے ہیں، لیکن تمام تر ایسے محرکات کا جائزہ لینا گوارہ نہیں کرتے کہ تمام تر وسائل کے باوجود بھی ہمارے معاشرے میں ایسی بدحالی کیوں ہے؟۔ امیر المومنین حضرت علی رضی فرماتے ہیں کہ "خدا کی قسم اگر غربت مجھے مجسم حالت میں مل جاتی تو میں اسے قتل کر دیتا"آج 21 رمضان المبارک حضرت علیؓ کا یومِ شہادت کا دن ہے۔ میری دعاہے کہ اللہ تعالی ہمیں حضرت علی رضی اور صحابہ کرامؓ کے سچے پیروکار بننے کی توفیق عطا فرمائے۔.

بشکریہ اردو کالمز