250

ڈاکٹر تنویر عباسی، سندھ کا ولیم ورڈز ورتھ

میں اپنے اس کالم میں جس شاعر، ادیب اور محقق کے بارے میں اپنے قارئین کو آگاہ کررہا ہوں،انھیں سندھ کا ولیم ورڈز ورتھ بھی کہا جاتا  ہے، ان کی شاعری اور نثری تحریریں سچائی پر مبنی تھیں، انھوں نے سندھ میں بسنے والے غریب اور پسے ہوئے طبقات کے مسائل کو اپنی شاعری اور نثر کے ذریعے پیش کیا اوریوں وہ مظلوموں کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے کا توانا وسیلہ بنے۔

تنویرعباسی سندھی،اردو، انگریزی اور سرائیکی زبانوں میں مہارت رکھتے تھے، انھوں نے غزلیں اور نظمیں بھی بڑے خوبصورت انداز میں تخلیق کی ہیں۔ ان کی ایک اور نمایاںخوبی یہ تھی کہ وہ فارسی، ہندی اور فرنچ زبانوں کے بارے میں بھی اچھی جانکاری رکھتے تھے اور ان زبانوں کا ادب بھی پڑھ رکھا تھا۔

انھوں نے اپنی شاعری کی ابتدا 1953 سے کی تھی جب وہ کالج میں پڑھتے تھے اور شاعری میں انھوں نے شیخ محمد ابراہیم خلیل سے بڑی مدد لی تھی۔ ان کی لکھی ہوئی وائی، دوہا، نظم میں بڑی مٹھاس ہوتی تھی ، ان اصناف سخن میں انھوں نے بڑی وسعت پیدا کی تھی ،جب کہ غزل کہنے میں انھیں درجہ کمال حاصل تھا، اور سامعین جب ان سے فرمائش کرتے  تو وہ ہر بار نئے انداز سے نئی غزل سناتے تھے۔

ان کی شاعری انتہائی منفرد اور ممتاز تھی ،جس میں انھوںنے جدت پیدا کرتے ہوئے ایسے رنگ بھر دیے تھے کہ ہر شخص ان کی شاعری کو پسند کرتا تھا۔ ان کی شاعری، سندھ کے کئی مشہور گلوگار ریڈیو اور ٹی وی پر گا چکے ہیں ، ان کی گائی ہوئی شاعری کی متعدد  آڈیو کیسٹ ،مارکیٹ میں اچھا بزنس کرچکی ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی شاعری سندھ کے مشہور اخبارات اور میگزین میں بھی شایع ہوتی تھی۔

ان کی شاعری کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ اسے اردو، پنجابی، سرائیکی اور انگریزی زبانوں میں ترجمہ کرکے شایع کیا گیا ہے۔ ان کے پانچ شعری مجموعے بھی شایع ہوچکے ہیں۔تنویر عباسی کو فطرت سے بڑا پیار تھا جسے انھوں نے اپنی شاعری میں بڑے خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے ، اسی وجہ سے انھیں سندھ کا ولیم ورڈز ورتھ کہا جاتا تھا۔

شاعری کے علاوہ تنویر عباسی نے نثر میں بھی بہت کچھ لکھا ہے جس میں تاریخ شاہ عبداللطیف بھٹائی، سچل سرمست اور سیاست کا حسین پہلو سوچ بھی شامل ہیں جنھیں کتابی شکل دے کر شایع کیا گیا ہے، جب کہ انھوں نے نارائن شام، سچل سرمست اور بھٹائی پر مفصل ترین مقالے بھی لکھے ہیں۔ نئے اور پرانے شاعر تنویر عباسی سے بہت متاثر تھے اور اپنی شاعری میں ان سے اصلاح حاصل کرتے تھے اور اسی وجہ سے انھوں نے کئی شاعروں کی کتابیں ایڈٹ بھی کی ہیں۔

تنویر عباسی نے سچل سرمست کی زندگی کے حوالے سے سوانح حیات اور ان کی شاعری کی شرح بھی لکھی ہے جس کی وجہ سے سچل کا پیغام ہر جگہ پھیلا ۔ جب وہ سچل چیئر کے ڈائریکٹر تھے تو انھوں نے سچل سرمست پر کئی کانفرنسیں منعقد کروائیں،وہ سچل سرمست یادگار کمیٹی کے سیکریٹری بھی رہے۔

تنویر عباسی جب بھی عرس کے موقع پر سچل کانفرنس منعقد کرواتے تھے تو اس میں محققین، ادیب اور دانشور مقالے پڑھتے تھے، وہ ان مقالہ جات کو کتابی صورت میں بھی شایع کرواتے تھے۔ اس کے علاوہ انھوں نے ایک میگزین اشکار کے نام سے سچل چیئر کی طرف سے شایع کروانا شروع کیا جس میں سچل سرمست پر مضامین اور شاعری شایع ہوتی  تھی۔ تنویر کی عملی کاوشوں کے نتیجے میں کئی نامور ادیبوں نے فکر سچل کے حوالے سے مضامین لکھنے شروع کیے ۔ اس کے بعد انھوں نے سچل یادگار کمیٹی کی طرف سے سچل کی زندگی، شاعری، سوچ و فکر اور سچل کے پیغام کو عام کرنے والے ادیبوں کے لیے ایوارڈ کا سلسلہ ہر سال جاری رکھا۔ جب سچل کانفرنس ہوتی تو پاکستان بھر سے اہل علم وادب شرکت کرتے تھے ،جن کے طعام وقیام اور سفری ٹکٹ کا بندوبست یادگار کمیٹی کی طرف سے کیا جاتا تھا۔

انھوں نے ساری عمر ادیبوں اور تعلیم یافتہ لوگوں کے درمیان وقت گزارا اور ایسے انسٹیٹیوٹ اور آرگنائزیشن کے ساتھ مل کر کام کیا جنھوں نے ادبی اور تعلیمی سرگرمیوں کے لیے خودکو وقف کر رکھا تھا، وہ سندھی ادبی سنگت کے جنرل سیکریٹری کے طور پر 1966تک کام کرتے رہے پھر رائٹرز گلڈ کے سیکریٹری، لندن کی پوئٹری سوسائٹی کے ممبر، ایڈوائزری بورڈ آف سندھیالوجی کے ممبر، بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکریٹری بورڈ سکھر کے ممبر، اکیڈمی آف لیٹرز میں سندھ کی گورننگ باڈی کے ممبر بھی رہے تھے۔

انھیں سیاحت کا بہت شوق تھا ، اسی شوق کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے انھوں نے انگلینڈ، فرانس، اٹلی، ہالینڈ، انڈیا، امریکا، یو اے ای، ویسٹ جرمنی کے علاوہ اور کئی ممالک دیکھے ۔ ان ملکوں کو دیکھنے کے بعد وہ سفرنامے لکھتے تھے جسے پڑھ کر قارئین کو ایسا محسوس تھا جیساکہ وہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہوں کیونکہ ان کے لکھنے کا انداز بہت پیارا ہوتا تھا اور پڑھنے والا ان کی تحریروں میں گم ہو جاتے تھے۔ تنویر عباسی کو پاکستان رائٹرز گلڈ کی طرف سے ایوارڈ دیا گیا، سندھیالوجی انسٹیٹیوٹ کی طرف سے بھی ایوارڈ حاصل کیا، ہندوستان کی ایک ادبی تنظیم کی طرف سے نارائن شام ایوارڈ بھی مل چکا ہے اور حکومت پاکستان کی طرف سے سول ایوارڈ سے بھی انھیںنوازا گیا تھا۔

ان کی پہلی شاعری کی کتاب 1958 میں شایع ہوئی،جب کہ دوسری کتاب 1970 میں اور تیسری کتاب 1977 میں اور چوتھی کتاب 1985 میں، پانچویں1989جب کہ دیگر کئی کتابیں 1982، 1983 اور 1984 میں شایع ہوئیں۔

ڈاکٹر تنویر عباسی خیرپور میرس کے ایک گاؤں سوبھو دیرو میں 7 دسمبر 1934 میں پیدا ہوئے، ان کے والد کلکٹر تھے۔ تنویر عباسی نے اپنی ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں سے حاصل کی اور اس کے بعد ہیرانند اکیڈمی اور این جے وی ہائی اسکول کراچی سے، مزید تعلیم ڈی جے سائنس کالج کراچی سے حاصل کرنے کے بعد وہ ایم بی بی ایس کرنے کے لیے لیاقت میڈیکل کالج حیدرآباد گئے اور 1960 میں ڈاکٹرکی ڈگری حاصل کی۔انھوں نے شادی بھی ایک لیڈی ڈاکٹر قمر عباسی سے کی۔ دونوں نے مل کر سندھ کے نام سے ایک اسپتال خیرپور میرس میں قائم کیا اور اپنے علاقے کے لوگوں کو علاج و معالجے کی سہولتیں فراہم کرنے لگے۔

زندگی کے آخری ایام میں وہ اپنے بیٹے سرمد کے پاس اسلام آباد چلے گئے اور وہاں پر ہی 25 نومبر 1999 میں اللہ کو پیارے ہوگئے۔ انھوں نے مرنے سے 15 برس قبل اپنے گھر والوں سے کہا تھا کہ  میری ڈیڈ باڈی لیاقت میڈیکل کالج جامشورو کے حوالے کی جائے تاکہ میڈیکل اسٹوڈنٹس اس پر اپنی پیشہ ورانہ تربیت حاصل کرسکیں۔ نجانے کیوں ایسا نہیں ہو سکا اور ان کی لاش کو 6 دن کے بعد mortuary سے نکال کر ورثا کے حوالے کردیا گیا اور اسلام آباد کے ایک قبرستان میں ان کی تدفین کردی گئی۔ اسے آپ ایک المیہ بھی کہہ سکتے ہیں کیونکہ ان کے چاہنے والے اور رشتے دار ان کی قبر پر فاتحہ پڑھنے کے لیے اسلام آباد نہیں جاسکتے، جس کی وجہ سے ان کی یادوں کو بھلا دیا گیا ہے۔ ان کے بعد ایسا کوئی نہیں ہے جو ان کے کام اور یادوں کو سمیٹ لے۔

بشکریہ جنگ نیوزکالم