جناب ذاکر نائیک کے بارے میں ہمارا مجموعی سماجی رد عمل بتا رہا ہے کہ اس معاشرے کا نفسیاتی عدم توازن کتنا شدید ہو چکا ہے۔
ضروری نہیں کہ ذاکر نائیک جو کہیں وہ ٹھیک ہو، ہر آدمی کی طرح ان کی رائے میں بھی، صحت اور غلطی، ہر دو کا امکان ہو سکتا ہے لیکن اختلاف رائے کے کیا یہ آداب ہوتے ہیں جن کا مظاہرہ ہمارے ہاں کیا جا رہا ہے؟ کیا کبھی وہ وقت آئے گا کہ ہم اختلاف رائے کے آداب سیکھ جائیں؟
ایک طوفان سا برپا ہے، دائیں اور بائیں بازو کی تقسیم ختم ہو چکی ہے، گویا ایک اعلان عام ہے کہ ذاکر نائیک ہاتھ آیا ہے بچ کر جانے نہ پائے ۔ جیسے کسی شفاخانے میں علاج کے طالب مریضوں کے ہاتھ کھلونا آ جائے، جسے زومبوں کے ہاتھ کوئی انسان لگ جائے۔
اس معاملے نے معاشرے کے چند پہلو نمایاں کر دیے ہیں:
پہلا یہ کہ ہم اذیت پسند ہوتے جا رہے ہیں۔ ہمارے ہاں اب تجزیہ نہیں ہوتا، لوگ پتھر لے کر گلی کی نکڑ پر کھڑے ہوتے ہیں۔ جس کی چال میں معمولی سی لغزش دکھائی دیتی ہے اس پر سنگ باری شروع کر دی جاتی ہے۔ معاشرہ منفی ذہنیت کے آسیب کا شکار ہو چکا ہے۔
دوسرا یہ کہ ہم افراط و تفریط کا شکار ہو چکے ہیں۔ ہم یہ ماننے کو تیار ہی نہیں کہ بیک وقت کسی شخص میں بہت سی خوبیاں بھی ہو سکتی ہیں اور کچھ خامیاں بھی۔ ہم توازن کھو چکے ہیں۔ ہم یا تو کسی کا ہانکا کر رہے ہوتے ہیں یا کسی کے جانثار بنے پھرتے ہیں۔ کوئے یار یا سوئے دار، بیچ کا کوئی مقام ہمیں راس نہیں آتا۔
تیسرا یہ کہ ہم مجموعی طور پر انتہا پسند ہیں۔ یہ ہمارا قومی عارضہ بن چکا ہے۔ اس میں مذہبی اور سیکولر کی کوئی تقسیم نہیں۔ جو بھی موقف دیتا ہے انتہا پر کھڑے ہو کر دیتا ہے۔ دوسرے کے لیے گنجائش کسی کے پاس بھی نہیں، ہر ایک کا دعویٰ ہے کہ وہ تاریخ انسانی کا آخری عقل مند ہے اور اس سے اختلاف کرنے والا دنیا کا احمق ترین انسان ہے اور اس دھرتی پر بوجھ ہے۔
چوتھا یہ کہ ہم خلط مبحث کا شکار ہو چکے ہیں اور اس خلط مبحث کے تازیانے کو لہراتے ہوئے ہم رجز پڑھتے کہ سوال کی حرمت کا سوال ہے۔
ذاکر نائیک صاحب سے جو سوال پوچھا گیا وہ بتاتا ہے کہ سماجی شعور کی عمومی سطح کیا ہے۔
سماجیات کے باب میں یہ بڑی بنیادی چیز ہے کہ معاشرہ اگر صحیح معنوں میں مذہبی ہو جائے جرائم تب بھی ہوتے رہتے ہیں۔ ایسا نہ ہوتا تو اسلامی تاریخ کے ابتدائی زمانے میں قانون اور سزا اور جزا کا محکمہ نہ ہوتا۔ یہ کج فہمی اور خلط مبحث تھا، سوال تھا ہی نہیں۔
ذاکر نائیک صاحب کی چند باتیں نامناسب بھی تھیں اور غیر ضروری بھی۔ ان کی نشاندہی بھی ہونی چاہیے تھی۔ ان سے اختلاف بھی کیا جاسکتا تھا۔ لیکن اس کو ایک نفرت انگیز مہم میں بدل دینا بنیادی انسانی اخلاقیات سے فروتر چیز ہے۔
ایسے ایسے لوگ اس مہم میں شامل ہیں جن کی ساری عمریں لوگوں کو روشن خیالی، برداشت، تحمل، رواداری اور احترام انسانیت کا درس دیتے گزریں۔ معمولی سا چیلنج آیا اور سارے آدرش مٹی میں مل گئے۔ اب نفرت سے ابلتے میسجز بھیجے جا رہے ہوتے ہیں۔
میں ان کو پڑھتا ہوں اور سوچتا ہوں پاکستان میں کیا صرف مذہبی انتہا پسندی کا چیلنج ہے یا سیکولر انتہاپسندی کی شکل میں بھی ایک چیلنج جنم لے چکا ہے۔
پاکستان ایک متنوع معاشرہ ہے۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ یہاں کوئی مہمان آئے اور وہ سب کے لیے بیک وقت قابل قبول ہو۔ فکری اختلافات بھی ہو سکتے ہیں اور ان میں شدت بھی ہو سکتی ہے۔ لیکن کم از کم اتنی مروت قائم رہنی چاہیے کہ مہمان کے ساتھ اختلاف میں شائستگی برقرار رہے۔
ڈاکٹر ذاکر نائیک کو جب حکومت پاکستان نے دعوت دی تھی تو ایسی کوئی شرط نہیں رکھی تھی کہ آپ نے سب کے لیے قابل قبول بن کر رہنا ہے۔ ان کی رائے کو قبول کرنا ضروری بھی نہیں۔ ہاں اسے برداشت کرنا ضروری ہے۔ کم از کم اس حد تک کہ اختلاف میں شائستگی برقرار رہے۔
جن باتوں کو مسکرا کر نظرانداز کیا جا سکتا ہے یا دوسرے کی ذاتی رائے سمجھ کر ان سے صرف نظر کیا جا سکتا ہے، ہم نظریاتی اختلاف کی بنیاد پر ان چیزوں کو زندگی اور موت کا مسئلہ بنا لیتے ہیں۔ نفرت کی فالٹ لائنز بھر جائیں تو ہمارے کاروبار بند ہو جائیں۔
یہ تفنن طبع کی چیز نہیں ہے، یہ سماجی المیہ ہے۔ یہ بتا رہا ہے کہ معاشرے کی مجموعی ذہنی صحت متاثر ہو چکی ہے اور اسے کسی طبیب کی ضرورت ہے۔
نوٹ: تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔