611

اپنی سیاسی قیادتوں کے غلام ہمارے نام نہاد نمائندے

عمر کے جس حصے میں داخل ہوگیا ہوں وہاں عموماََ آپ کے کئی لمحات ”غم جہاں کے حساب“ میں صرف ہوجاتے ہیں۔”پارلیمان کی بالادستی“ 1985سے میرے دل ودماغ پر حاوی رہی ہے۔اس تصور کو اجاگر کرنے کے لئے اس برس غیر جماعتی بنیادوں پر ہوئے انتخاب کی بدولت ”بحال“ ہوئی قومی اسمبلی کے بارے میں اسلام آباد سے نکالے غیر سرکاری اخبار ”دی مسلم“ کےلئے پریس گیلری لکھنے کا انتہائی لگن سے آغاز کیا تھا۔ بعدازاں ”دی نیشن“ سمیت جس بھی انگریزی اخبار کے لئے کام کیاوہاں اسمبلی کی کارروائی پر تبصرہ میری اولین ذمہ داری رہی۔ 
منگل کی شام سے تاہم شدت سے احساس ہورہا ہے کہ ”پارلیمان کی بالادستی“ کے عشق میں جو 38برس گزارے ہیں وہ وقت کا قطعی زیاں تھا۔ ”ہمارے“ نام نہاد”نمائندے“ اب ہمارے نہیں رہے۔ اپنی سیاسی قیادتوں کے غلام بن چکے ہیں۔ان دنوں قومی اسمبلی میں موجود اراکین کی بے پناہ اکثریت کے قائدین ”مقتدر“افرادکے ساتھ ”سیم پیج“ پر اکٹھے ہوکر کرکٹ کی بدولت کرشمہ سازی سے بالآخر سیاست میں آکر ”دیدہ ور“ ہوئے عمران خان کا ”مکو ٹھپنے“ کے لئے ہر ہتھکنڈہ استعمال کرنے کو مجبور محسوس کررہے ہیں۔ اس ضمن میں ریاستی اداروں کو مزید اختیارات فراہم کرنے کے لئے روزانہ کی بنیاد پر نت نئے قوانین اور پہلے سے موجود جابرانہ قوانین میں مزید ترامیم ہورہی ہیں۔ حکومتی اتحاد میں شامل قومی اسمبلی کے اراکین مجوزہ قوانین کا مسودہ پڑھے بغیر ”منظورہے-منظور ہے“ کی صدائیں بلند کرتے ہوئے ان پر مہر تصدیق ثبت کرتے رہے۔ محض ایک سیاستدان اور اس کے حامیوں پر قابو پانے کے لئے جو لگامیں تیار ہورہی ہیں ان کے دور رس اثرات کے بارے میں سوچنے کو کوئی ایک رکن اسمبلی بھی تیار نہیں۔ یہ سوچا ہی نہیں جارہا کہ جس ”کلہاڑے“ کی دھار کو چمکایا جارہا ہے وہ ایک دن مسلم لیگ (نون) ،پیپلز پارٹی اور جمعیت العلمائے اسلام کے کارکنوں کے خلاف بھی ہر صورت استعمال ہوگا۔ جب یہ واقعہ ہوگا تو مذکورہ جماعتوں کے قائدین اور سرکردہ رہ نما کس منہ سے مجھ ایسے سادہ لوح افراد سے حمایت کے طلب گار ہوں گے۔
اپنی قیادتوں کی خوشنودی کے لئے فدویانہ انگوٹھے لگانے کو ہمہ وقت تیار اراکین اسمبلی کی خاطر خواہ تعداد البتہ ایوان زیریں کی آئینی مدت ختم ہونے سے قبل ”فروغ تعلیم“ کے لئے بہت بے چین نظر آرہی ہے۔ تقریباََ ہر رکن اسمبلی کسی نہ کسی ”یونیورسٹی“ کے قیام کی منظوری کا طلب گار ہے۔ ایک ایسے ملک میں جہاں بچوں کی دل دہلادینے والی تعداد پرائمری سکول بھی مکمل نہیں کرپاتی اب وہاں مزید 30یونیورسٹیوں کے قیام کی منظوری دی جاچکی ہے۔منگل کی شب 14مزید اداروں کو ”کلیئر“ کرنے کا ارادہ تھا۔ حکومتی اتحاد میں لیکن اختلافات رونما ہوگئے۔وطن عزیز اس کی بدولت 14مزید یونیورسٹیوں کے قیام سے ”بچ گیا“۔
مجھ جیسے نام نہاد پڑھے لکھے شخص کی جانب سے مزید یونیورسٹیوں سے محفوظ رہ جانے کے عمل پر خوشی واطمینان کا اظہار اپنی جگہ ایک المیہ ہے۔ بدقسمتی مگر یہ رہی کہ اپنے بچپن میں مشن ہائی سکول رنگ محل لاہور گیا تھا۔وہاں کے استادوں میں تعلیم سے محبت کو طالب علموں کی فطرت کا حصہ بنانے کی جو لگن دیکھی وہ آج بھی دل سے نکال نہیں پایا ہوں۔سکول سے گورنمنٹ کالج لاہور گیا تو وہاں بھی علم سے عشق کے علاوہ زندگی کے کسی اور پہلو کو اہم شمار نہ کرپایا۔ میرا کالج مگر اب کالج نہیں رہا”یونیورسٹی“ بن چکا ہے۔یقین مانیں جب سے اس کی شناخت بدلی ہے میں ایک لمحے کو بھی کالج کے سامنے سے گزرتے ہوئے اس کے اندر داخل ہونے کو تیار نہیں ہوا۔ لاہور جاتا ہوں تو مختلف تقاریب میں ایسے نوجوانوں سے بھی ملاقات ہوجاتی ہے جو بہت فخر سے خود کو ”جی سی یو“ کا طالب علم بتاتے ہیں۔ ان سے گفتگو مگر جی اداس کردیتی ہے۔ایک زمانہ تھا کہ اس کالج سے فارغ التحصیل ہوئے ”راوین“ کی مخصوص چال ڈھال اور اندازِ کلام ہوتا تھا۔”یونیورسٹی“ نے وہ تخصیص چھین لی ہے۔
تعلیم اب دھندا بن چکا ہے۔مقصد اس کا طالب علم کے ذہن کی کشادگی نہیں۔ اس کی صلاحیتوں کو ہنرمندی کی صورت دنیا بھی مقصود نہیں۔بھاری بھر کم فیس بٹورنے کے بعد ”اعلیٰ تعلیمی ادارے“ آپ کو ”ڈگری“ کے نام پر ایک کاغذ ہی دیتے ہیں۔عالمی سطح پر مستند شمار ہوتے تعلیمی اداروں میں لیکن اس کی قدر نہیں ہوتی۔ہمارے تعلیمی اداروں کی اس سے بڑی بے قدری کیا ہوگی کہ برطانیہ یا امریکہ کے کسی اعلیٰ تعلیمی ادارے میں داخلے کے لئے لازمی ہے کہ آپ بین الاقوامی طورپر تسلیم شدہ سسٹم کے تحت انگریزی زبان پر اپنی ”گرفت“ ثابت کرنے والا امتحان پاس کریں۔ صحافت کی بدولت مجھے 1986میں چھ مہینے امریکہ کے فیلچرسکول آف لاءاینڈ ڈپلومیسی میں چھ ماہ کا ایک کورس کرنا پڑا تھا۔میں اکثر اپنے استادوں کی لکھی انگریزی کو ”امریکی“ پکارتے ہوئے اس میں موجود ”غلطیوں“ کی نشاندہی کرتا اور ”دیسی“ ہوتے ہوئے بھی اس زبان پر اپنے ”کمال“ پراترائے ہوئے رہتا۔
مجھے د±کھ ہوا کہ ”ہمارے“ نمائندے محض پیسہ کمانے کی خاطر مضحکہ خیز ناموں سے بنائی نئی ”یونیورسٹیوں“ کے قیام کو باقاعدہ بنانے کےلئے بے چین رہے۔ان کی بے چینی نے یقینا یہ پیغام دیا کہ موجودہ قومی اسمبلی کی آئینی مدت ختم ہونے سے قبل ”دیہاڑی“ لگائی جارہی ہے تانکہ آئندہ انتخاب لڑنے کے لئے کچھ نقدی بھی جمع ہوسکے۔ نہایت خلوص سے فقط یہ دعا ہی مانگ سکتا ہوں کہ ”ہمارے نمائندوں“نے نئی ”یونیورسٹیوں“ کے قیام کے ضمن میں جو بے تابی دکھائی ہے اس کا واحد مقصد فروغ تعلیم ہی تھا۔ ”دیہاڑی“ ہرگزمقصود نہ تھی۔ ”دیہاڑی“ اگر نہیں بھی لگی تب بھی اراکین قومی اسمبلی اور ان کی جماعتوں کی اجتماعی ساکھ کو ریاستی اداروں کو مزید اختیارات دینے والے قوانین کی برق رفتار منظوری نے ناقابل تلافی نقصان پہنچائے ہیں۔ان کی آئندہ کئی برسوں تک تلافی نہیں ہوپائے گی۔

بشکریہ نواےَ وقت