164

یوم مزدور

سو جاتے ہیں فٹ پاتھ پہ اخبار بچھا کر                                                        مزدور کبھی نیند کی گولی نہیں کھاتے   (منور رانا)                                                                    یکم مئی جسے "یوم مزدور" بھی کہا جاتا ہے اس دن کو منانے کی ایک خاص وجہ یہ ہے کہ 1886ء میں اپنے حقوق حاصل کرنے کے لئیے محنت کشوں نے امریکا کے شہر شکاگو میں احتجاج کیا اور اس دوران بہت سے محنت کش گرفتار ہوۓ اور ہزاروں کی تعداد میں انہیں مار دیا گیا انہی مزدوروں کی یاد میں ہر سال یکم مئی کو "یوم مزدور"  منایا جاتا ہے۔                                                
      پاکستان اور دنیا بھر میں یکم مئی کو عام تعطیل ہوتی ہے۔اس دن پاکستان میں حکومتی سطح پر  سیمینار منتخب کرائے جاتے ہیں مگر بد قسمتی سے یہ سیمینار صرف تقاریر اور لیکچر کی حد تک ہمیں نظر آتا ہے ان سیمیناروں میں ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد موجود ہوتے ہیں ۔مزدور کی مشکلات صرف انہی کو معلوم ہوتی ہیں کہ وہ کس طرح سے اپنی مزدوری کرتے ہیں جب لوگ گھروں میں اور دفتروں میں اے سی کی ہوا کا مزہ لے رہے ہوتے ہیں  مگر اس وقت یہ مزدور سخت گرمی میں بھی آپ کو کام کرتا نظر آۓ گا ۔چاہے گرمی ہو یا سردی مزدور اپنے کام سے کبھی غفلت نہیں کرتا مگر ہمارے ہاں پھر بھی مزدور کو ان کی اجرت وقت پر نہیں ملتی یہ ایک غیر سنجیدہ فعل ہے ۔آپﷺ نے مزدور کی اجرت کے حوالے سے فرمایا" مزدور کو اس کی اجرت اس کے پسینہ ختم ہونے سے پہلے دے دو "۔                             تری زمیں پہ کرتا رہا ہوں مزدوری                                 ہے سوکھنے کو پسینہ معاوضہ ہے کہاں   (عاصم واسطی)                                 
      یوم مزدور ہمارے لیئے ایک پیغام ہے کہ ہم مزدور کو ان کی اوقات کار کے مطابق اور ان کی استطاعت کے مطابق کام کروائیں ۔مزدور ہم سے چاہتا ہی کیا ہے محض اپنی محنت کا مناسب و بروقت معاوضہ ۔ہمارے ملک میں لیبر کے قانون تو موجود ہیں مگر ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم قانون تو بنا دیتے ہیں مگر ان پر عمل درآمد نہیں کرواتے ۔                        
       عہد حاضر میں  دیکھا جائے تو مزدوروں کی صف اول میں ہمیں بچے نظر آتے ہیں جو مختلف جگہوں پر اپنی استطاعت کے مطابق کام کرتے ہمیں  نظر آتے ہیں  ان کے کام کرنے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں مسائل زیادہ اور وسائل کم ہیں ۔۔                                                                  فرشتے آ کر ان کے جسم پر خوشبو لگاتے ہیں                  وہ بچے  ریل کے ڈبوں میں جو جھاڑو لگاتے ہیں   (منور رانا)                                            
      یکم مئی کو ہر جگہ سیمینار و مظاہرے ہوتے ہمیں نظر آتے ہیں مگر ذرہ کبھی اس دن تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھنا جب ایک طرف تو چھٹی منائی جاتی ہے اور دوسری طرف مزدور  اپنے کام میں مشغول ہے اس مزدور کو اپنی مزدوری کا پورا احساس ہے کہ اس مزدوری سے ہی اس کے گھر کا چراغ روشن ہے ۔ہمارے ہاں مزدور پر اس کی استطاعت سے زیادہ کام ڈال دیا جاتا ہے ان کو وقت پر کھانا میسر نہیں ہوتا اور جب مزدور دن بھر محنت کرنے کے بعد اپنا صلہ مانگتا ہے مگر اس وقت بھی اس کے ساتھ بد سلوکی دیکھنے کو ملتی ہے۔     
  ذرہ ہمیں بھی سوچنا چاہیے کہ یہ بھی ہماری ہی طرح ہیں ہمارے بھائی ہیں  ہمیں ان کا خیال رکھنا چاہیے ان کو وقت پر اجرت دینی چاہیے اور ان کو ان کی استطاعت کے مطابق کام کروائیں جہاں مزدور کو مشکل پیش آئے وہاں ہم بھی اس کے ساتھ مدد کریں اس کے ساتھ جس حد تک  ممکن ہو تو کام میں ان کی مدد کریں ۔اگر اس سے کوئی کام کے دوران غلطی ہو جائے تو اس پر غصہ کرنے کی بجاۓ اس کو درگزر کریں نہ کہ اس کی تذلیل کریں کیوں کہ انسان تو خطا کا پتلا ہے۔ 
                 پاکستان اور دنیا بھر میں ہر سال یکم مئی کو " یوم مزدور " منایا جاتا ہے مگر مزدور کے مسائل کسی بھی طور پر کم ہوتے نظر نہیں آتے  ہمارے شعرا نے مزدور کو کس تناظر میں بیان کیا ہے ملاحظہ کریں ...

میں نے انور اس لئے باندھی کلائی پر گھڑی

 وقت پوچھیں گے کئی مزدور بھی رستے کے بیچ

 (انور مسعود)

☆☆☆

کچل کچل کے نہ فٹ پاتھ کو چلو اتنا

یہاں پہ رات کو مزدور خواب دیکھتے ہیں

(احمد سلمان)

☆☆☆

کِس کِس طرح میرا بچہ مجھے آزار دیتا ہے

میرا بچہ مجھے ستر روپے ماہوار دیتا ہے

 ( اقبال راہی) 

☆☆☆

لوگوں نے آرام کیا اور چھٹی پوری کی

یکم مئی کو بھی مزدوروں نے مزدوری کی

(افضل خان)

☆☆☆

نیند آئے گی بھلا کیسے اسے شام کے بعد 

روٹیاں بھی نہ میسر ہوں جسے کام کے بعد 

(اظہر اقبال)

☆☆☆

میں اک مزدور ہوں روٹی کی خاطر بوجھ اٹھاتا ہوں 

مری قسمت ہے بار حکمرانی پشت پر رکھنا 

(احتشام الحق صدیقی)

☆☆☆

سونامی کی ہے اور نہ بھوچال کی ہے 

نہ کشمیر کی ہے نہ بنگال کی ہے

جس آواز پر جاگ اٹھے گی ممتا 

وہ کنگال بچوں کے کنکال کی ہے 

اس آواز کو گنگنانے کا دن ہے

(انوار عباس)

☆☆☆

گو آفت و غم کے مارے ہیں 

ہم خاک نہیں ہیں تارے ہیں 

اس جگ کے راج دلارے ہیں 

مزدور ہیں ہم مزدور ہیں ہم 

(اسرار الحق مجاز)       ( مزدوروں کا گیت)

☆☆☆

سب تھے ہمارے نام کی چھٹی میں جب مگن

اس دن بھی اپنے کام پہ جانا پڑا ہمیں

(اصغر شمیم)

☆☆☆

دن ہے یکم مئی تو بھی فرصت نہیں ملی

تعطیل جس کی، اس کو رعایت نہیں ملی

وہ صبح آ کے چوک میں واپس ہو جاتا تھا

مزدور تھا پر اس کو مشقت نہیں ملی

یہ وقت عصر کا ہے پسینہ ہوا ہے خشک

مزدور جو ہے وہ اسے اجرت نہیں ملی

آباد جس کے دم سے ہے کھلیان کا جمال

کیا ظلم ہے اسی کو ہی قیمت نہیں ملی

(اعجاز کشمیری)

☆☆☆

میں اک مزدور ہوں روٹی کی خاطر بوجھ اٹھاتا ہوں

مری قسمت ہے بار حکمرانی پشت پر رکھنا

(احتشام الحق صدیقی) 

☆☆☆

آہ ! یہ اس شیر دل مزدور کی تصویر ہے

 جس کے ہاتھوں رحمتوں کے باب کی زنجیر ہے

 ابن آدم جس کے باعث صاحب توقیر ہے

 جس کی محنت اہل زر  کے واسطے اکسیر ہے

( الطاف مشہدی)    ( مزدور کی تصویر)
☆☆☆
مزدور رو رہا تھا آنسو تڑپ رہے تھے

 کونے میں ایک طرف تو خالی گھڑے پڑے تھے

 یہ دیکھتے ہوئے جب آگے نظر بڑھائی

 اندر بچی ہوئی تھی ٹوٹی ہوئی چارپائی

 میلی سی ٹاٹ کی اک چادر پڑی ہوئی تھی

 ہر سمت  رقص فرما اس گھر میں مفلسی  تھی  (مزدور کی جھونپڑی ) (ابوالفطرت میر زیدی)
☆☆☆
ہاں تیری جوانی ہے پسینے میں شرابور 
سینہ ترا آلام و مصائب سے معمور
بے بس ہیں تو مجبور ہے لیکن نہیں معذور
 تو قوّت بازو میں  تو  دنیا میں مشہور
 اے ہند  کے مزدور 

(اے ہند کے مزدور)    (اورنگ زیب قتیل شفائی)
☆☆☆
ہوشیار اے دشمن مزدور دنیا ہوشیار 
بیکسوں کے حال سے غافل نہیں پروردگار 
فاقہ مستوں کی دعائیں عرش پر جانے کو ہیں بجلیاں گرنے کو ہیں اور زلزلے آنے کو ہیں 
(احسان دانش)
☆☆☆
مزدور  سے جہاں کا قائم نظام ہے 
 گر یہ نہ ہو امیر کی سطوت تمام ہے 
سرمایہ دار چاہتا ہے  یہ دبا رہے
گرداب بحر جور میں  ہر دم پھنسا رہے 
(مزدور کی تڑپ)    (اختر نارودالی)
☆☆☆
لوگوں نے آرام کیا اور چھٹی پوری کی 

یکم مئی کو بھی مزدوروں نے مزدوری کی 

 ( افضل خاں )        

☆☆☆☆

نَیرَنگِ تاجِ شاہی فَقِیدُالمِثَال ہَے 

جَشنِ طَرَب غَرِیب کا زیرِ مَلَال ہَے 

مَزدُور کَھا رَہے ہیں یَہَاں رَاسَتوں کی دُھول 

مَسنَد نَشِیں سے کَہہ دو کِہ جِینَا مُحَال ہَے

(امجد غزالی)

☆☆☆

سمندر کا کیا بھروسہ خدا خیر کرے

سپیاں چُننے گئے ہیں میرے سارے بچے
 (بیدل حیدر)
☆☆☆

اب تک مرے اعصاب پہ محنت ہے مسلط

اب تک مرے کانوں میں مشینوں کی صدا ہے

(تنویر سپرا)

☆☆☆
کوئی تیرا اوتار نہیں ہے

 تجھ سے کسی کو پیار نہیں ہے

 دنیا سے تو نیارا نیارا 

 تو ہے مرا مزدور پیارا 

(مزدور)      (ثناءاللہ خان شیدا شملہ )

☆☆☆

بھوکے سوئیں محنت کش 

پھر بھی نفرت ملتی ہے

(ثروت دولتپوری)

☆☆☆

بس یکم مئی ہی کو لگتاہے کہ مشہور ہوں میں 

بات کرتا نہیں کوئی مری ایوانوں میں 

سب کے منشور میں یوں '' صاحب ِ منشور '' ہوں میں

اپنے بچوں کو بچا سکتا نہیں فاقوں سے 

ان کو تعلیم دلانے سے بھی معذور ہوں میں 

پیٹ بھردیتا ہے حاکم مرا تقریروں سے

اس کی اس طفل تسلی سے تو رنجور ہوں میں 

یوم مزدور ہے چھٹی ہے مرا فاقہ ہے 

پھر بھی یہ دن تو مناوں گا کہ مزدور ہوں میں

(جبار واصف)

☆☆☆

ہونے دو چراغاں محلوں میں کیا ہم کو اگر دیوالی ہے 

مزدور ہیں ہم مزدور ہیں ہم مزدور کی دنیا کالی ہے 

(جمیلؔ مظہری)

☆☆☆

مال کا وہ درجہ جس میں ریل کے مزدور تھے

 آکے ٹھہرا دوسرے درجے کے بالکل سامنے 

اس طرف نہ پاکیاں  تھیں  خاک کا انبار تھا 

اس طرف ہر ذرہ  گویا مصر کا بازار تھا

 (جوش ملیح آبادی)  ( ایک تقابل) 

☆☆☆

جاوید جب سے دور مشینوں کا آ گیا

محنت کشوں کو بُھوک نے ہلکان کر دیا 

(جاوید احمد خان جاوید )

☆☆☆
سو سو واری اس نے میرا خالی چنتا دیکھیا 
میرو جاتک کھیڈ وسطے کے کے ہاڑا کر گیو 

(جاوید سحر)
☆☆☆

خون مزدور کا ملتا جو نہ تعمیروں میں 

نہ حویلی نہ محل اور نہ کوئی گھر ہوتا 

(حیدر علی جعفری)

☆☆☆

آنے والے جانے والے ہر زمانے کے لیے

آدمی مزدور ہے راہیں بنانے کے لیے

(حفیظ جالندھری ) 

☆☆☆

خون بھی خشک ہوا اور پسینہ بھی جمال
 اب تو اجرت مرے ہاتھوں میں تھما دی جائے
( حسیب جمال )
☆☆☆
میرے ملک کا  ہر مزدور  ہے  سب  سے  امیر 

مزدوری یہ کرتا ہے کھاتا ہے ہر وزیر و مشیر

(حنظلہ تابع )

☆☆☆

کہاں ہیں آئیں دیکھیں میری حالت درد دل والے 

چلا کرتے ہیں سینے پر مرے افکار کے بھالے

مگر  میں ہوں کہ غربت کے سبب خاموش رہتا ہوں

 خموشی سے غم و آلام سب دنیا کے سہتا ہوں

( خلیق )

☆☆☆

زندگی اب اس قدر سفاک ہو جائے گی کیا 

بھوک ہی مزدور کی خوراک ہو جائے گی کیا 

( رضا مورانوی )

☆☆☆
ہم ہیں مزدور ہمیں کون سہارا دے گا 

ہم تو مٹ کر بھی سہارا نہیں مانگا کرتے 

(راہی شہابی )

☆☆☆
اس طرف دلکش لباس فاخرہ ہے زیب تن 

اس طرف ہے زندگی مزدور کی غم سے کھٹن 

  اس طرف دن رات حاصل عیش و آرام ہے 

اس طرف فاقہ ہے عسرت ہے خدا کا نام ہے

 (مزدور کی آہیں)      (رشید فخری جالندھری )

☆☆☆

وہ جس کے نام پہ اک یوم مناتی ہے دنیا

کئی یوم ہوئے اس نے کچھ کھایا نہیں ہے

مدت ہوئی اس دن کو مناتے راشــــــــــد

غربت کو کبھی آج تک مٹایا ہی نہیں ہے

{ راشد ادریس رانا}

☆☆☆

اب سے میرے سب شعروں پر حق ہو گا مزدوروں کا 
اب سے میرے سارے نغمے کھیتوں اور کھلیانوں پر 

لگنے لگیں گی میری غزلیں تم کو روکھی سوکھی شاید

جتنے بھی میں شعر کہوں گا سب ہوں گے انسانوں پر 

(رضا علی عابدی )

☆☆☆

 ماں جن ہاتھوں کو چوما کرتی تھی 
ان میں پڑ گے چھالے مزدوری سے 
( رانا عبدالدیان )
☆☆☆
یومِ مزدور  منایا   سب   نے

اور مزدور کو چھٹی نہ ملی

کام کرنا ہے بلا ناغہ اسے

ہائے مجبور کو چھٹی نہ ملی

( یوم مزدور )   ( ڈاکٹر اشرف کمال )

☆☆☆

وہ خالی ہاتھوں سے شام منظر میں گھر کی جانب پلٹنے والا 

تمہیں خبر ہے کہ اس کی آنکھوں میں کتنے خوابوں کی پیاس ہو گی 

کہ سخت گرمی کی لہرِ شدت میں پورے دن کو بیتانے والے 

میں تجھ کو  دیکھوں تو سوچتی ہوں تمہیں بھی منزل کی آس ہو گی

(ڈاکٹر صبا فردوس ستی )

☆☆☆

دیکھ اے قارون اعظم دیکھ اے سرمایہ دار

 نامرادی کا مرقع  بے کسی کا شاہکار 

گو وہ ہے تیری طرح انسان مگر مقہور ہے

 دیکھ اے دولت کے اندھے سانپ ! مزدور ہے

( سیماب اکبر آبادی )    ( مزدور)

☆☆☆
غم کی تلوار سے

ظلم کی ڈور کو کاٹنے آئے ہیں 

پھر نئے عزم سے 

روٹیوں کے تعاقب میں نکلے ہوئے 

گرتے پڑتے ہوئے 

بیکساں بیکساں

یومِ محنت کشاں

قصرِ شاہی پہ بھاری ہے دن آج کا

"آج بازار میں جشنِ افلاس ہے "

  (یکم مئی )        (  سید شہباز گردیزی )

☆☆☆

چلو کہ آج کہیں پائمال روحوں سے

کہ آئو اپنے ہر اک زخم کو زباں کرلیں

  تمھارا راز تمھارا نہیں ،سبھی کا ہے

 چلو کہ سارے زمانے کو رازداں کرلیں

( ساحر لدھیانوی )

☆☆☆

آج مئی کا پہلا دن ہے آج کا دن مزدور کا دن ہے 

ظلم و ستم کے مد مقابل حوصلۂ جمہور کا دن ہے 

آج کا دن یہ علم و ہنر کا فکر و عمل کی فتح و ظفر کا 

آج شکست ظلمت شب ہے آج فروغ نور کا دن ہے 

صدیوں کے مظلوم انساں نے آج کے دن خود کو پہچانا 

آج کا دن ہے یوم‌ انا الحق آج کا دن منصور کا دن ہے

(سرور بارہ بنکوی )
☆☆☆

مزدوروں کی ، مجبوری کا احساس نہیں ہے
فاقوں سےمریں،جائیں بَھلِے سارے بھَاڑ میں
قانون  یہاں  ، اِن کے لئے  ہے کہاں  رضواں ؟
”اَشرافیہ “ شامِل  جو ہے  ہر  اِک  بگاڑ  میں
 ( سید رضوان حیدر رضواں )
☆☆☆

تیری تابش سے روشن ہیں گل بھی اور ویرانے بھی

کیا تو بھی اس ہنستی گاتی دنیا کا مزدور ہے چاند؟

( شبنم رومانی )

☆☆☆

پیڑ کے نیچے ذرا سی چھاؤں جو اس کو ملی

سو گیا مزدور تن پر بوریا اوڑھے ہوئے

(شارب مورانوی )

☆☆☆

بہتر  حور دے بدلے گزارہ ہک تے کر گھنسوں

اکہتر حور دے بدلے  اساکوں رج کے روٹی دے

(شاکر شجاع آبادی)  

 ☆☆☆

پسینہ خشک ہونے سے قبل اجرت ادا کرنا
یہی مزدور کا حق ہے اسے تم مت قضا کرنا

خوشی اس کی تمھیں بھی شاد کر دے گی خدا شاہد
تم اجرت سے اضافی چار پیسے دے دیا کرنا

(شاہد اقبال راٹھور)
☆☆☆
کہتے ہیؐ کہ مزدور کا آج عالمی دِن ہے

اِک بے کَس و مجبور کا آج عالمی دن ہے

سرمایہ گری پھر سے نئے جال بنے گی

محنت کَشِ رَنجور کا آج عالمی دن ہے

( شبیر دیوانہؔ )

☆☆☆

اسے تو ہر گزرتا سال اک جیسا ہی لگتا ہے 

وہ اک مزدور ہے جس کی 

مسلسل بھوک اور افلاس سے عرصے سے لمبی جنگ جاری ہے 

کہ جس کے سامنے ہر صبح پے در پے مشقت کے تقاضے ہیں 

کڑی محنت ریاضت جہد پیہم اس کا مسلک ہے 

(شہناز پروین شازی )   (مزدور )

☆☆☆

قصر پر پرچم تمہارا ہی سہی 

اس کی اینٹوں پر ہمارا نام ہے 

ہاریوں کی فصل کس نے کا ٹ لی

کھیت میں دیکھو وہ کیا کہرام ہے 

سلطنت کا سنگ ِمرمر سے نہیں 

گائوں کی مٹی سے استحکام ہے

(ضمیر جعفری )

☆☆☆

جو اوروں کے خوابوں کو کبھی تعبیر کرتا تھا

وہی اپنی جواں اولاد کے خوابوں سے ڈرتا ہے

(ظہیر احمد مغل )

☆☆☆

جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی
 اس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دو 
( علامہ محمد  اقبال  )    (فرمان خدا (فرشتوں سے))
☆☆☆

آہ اک میں ہی تو نہیں بھوکا 

ایک عالم پہ چھا رہی ہے بھوک

 قلب  مزدور کو کیا جھلنی

 کشت دہقاں جلا رہی ہے بھوک 

( بھوک اور انقلاب )  (علامہ رنگین مدظلہ)

☆☆☆

میں اپنی ساری غزلوں ساری نظموں کو جلا کر 

کل سے مزدوری پہ نکلوں گا 

سخن کے نور سے میں دور، بے نوری پہ نکلوں گا 

ترے ہر خوابِ فردا کو مجھے تعبیر کرنا ہے 

مٹا کر اپنی ہستی کو تجھے تعمیر کرنا ہے 

مجھے غربت کے اس طوفان سے لڑنا جھگڑنا ہے 

مجھے شاعر نہیں   بننا   مجھے  مزدور  بننا  ہے 

 (مجھے مزدور بننا ہے )   (عطاء راٹھور  عطاؔر )

☆☆☆

تری زمین پہ کرتا رہا ہوں مزدوری 

ہے سوکھنے کو پسینہ ،معاوضہ ہے کہاں

(عاصم واسطی )    

  ☆☆☆

اس لیے سب سے الگ ہے مری خوشبو عامیؔ

مشک مزدور پسینے میں لیے پھرتا ہوں

( عمران عامی )

☆☆☆

تعمیر و ترقی والے ہیں کہیے بھی تو ان کو کیا کہیے

جو شیش محل میں بیٹھے ہوئے مزدور کی باتیں کرتے ہیں

(عبید الرحمان)

☆☆☆

دنیا اپنی شوکت کو لے کر بڑی مجبور ہے 

دُور کُوڑے میں لیٹا ہوا ایک مزدور ہے

(عمار بیگ )

☆☆☆

پھوٹنے والی ہے مزدور کے ماتھے سے کرن
سرخ پرچم افق صبح پہ لہراتے ہیں
(علی سردار جعفری )
☆☆☆
بے دم ہیں مریض ان کو دوا کیوں نہیں دیتے 

تم کیسے مسیحا ہو شفا کیوں نہیں دیتے 

مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے ؟؟

منصف ہو تو اب حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے

(فیض احمد فیض )

☆☆☆

وہ جو مزدور بناتے ہیں محل اوروں کے

ان کا اپنا کوئی گھر بار نہیں دیکھا ہے

(فرہاد احمد فگار )

☆☆☆

مرے وطن کی حسین دھرتی کا ہر وڈیرا

رئیس زادہ ،نواب زادہ ،جو حکمراں ہے

وہ جانتا ہے ، مرا پسینہ ، مری فقیری

کہ میں ہوں مزدور گل وطن کا

(گل بخشالوی )  (مزدور)

☆☆☆
ان کو کیا پروا کہ مزدوروں کی حالت ہے زبوں

  ان کو بیچاروں کے حال زار پر رحم آئے کیوں

 (مزدور اور سرمایہ )   (لطیف فاروقی )

☆☆☆

ایک محنت کش کے گھر میں شام کو

فاقہ دستر خوان میں رکھا گیا

                 ( لیاقت شعلان )

☆☆☆

کھیتوں میں شدت گرمی سے مر جانے کو ہم 

لطف سے خوان نعم پر  بیٹھ کر کھانے کو تم

آہ !  تم کو کونسلوں کی ممبری دلوائیں  ہم

 اور حکومت سے ہماری کھال کھچوانے کو تم 

( مولانا میر ولی  وارثی )    ( مزدور اور سرمایہ دار)

☆☆☆

آہ ! اے مزدور ! اے  غم قسمت اندوہ گیں 

کہہ رہی ہے زندگی تیری کہ تو انساں نہیں

( بندگی و خواجگی )  (مولانا خان صابر خلیلی)

☆☆☆

دہر میں مزدور کی مٹی رہی خوار و ذلیل 

کاوش جاں ہے بچارے کے لیے مزد قلیل 

شام کو آتا ہے گھر میں اشک  برساتا ہوا

 اپنے دل میں یعنی پیچ و تاب سا کھاتا ہوا

  (مزدور اور سرمایہ دار کی زندگی )   (مولانا نعیم صدیقی)

☆☆☆

سو جاتے ہیں فٹ پاتھ پہ اخبار بچھا کر

مزدور کبھی نیند کی گولی نہیں کھاتے

(منور رانا)

☆☆☆

دنیا میری زندگی کے دن کم کرتی جاتی ہے کیوں

خون پسینہ ایک کیا ہے یہ میری مزدوری ہے

(منموہن تلخ )

☆☆☆

میں کہ ایک محنت کش میں کہ تیرگی دشمن

صبح نو عبارت ہے میرے مسکرانے سے

(مجروح سلطانپوری )

☆☆☆

اتنی محنت سے ہر کام کرتا ہے وہ

ہر بڑا کام کرنے میں مشہور ہے

دیکھ لو دیکھ لو وہ جو مزدور ہے

کام ہی کام ہے اور بدن چور ہے

میرے الفاظ اس کے لئے کچھ نہیں

وہ جو مزدور ہے شان ہے نور ہے

(محمد اقبال خان )

☆☆☆

سال  بھر  احوال کوئی پوچھنے والا نہیں

بس یکم مئی یہاں مشہور ہے مزدور ہے

کر نظر اے مالک ارض و سما اس دیس پر

کہ یہاں تعلیم سے معذور ہے مزدور ہے

(منظورنظر )

☆☆☆

ہم آج تو چھٹی منارہے ہیں 

مزدور تو کھیتوں کو جارہے ہیں 

(میم عین لاڈلہ)

☆☆☆

اب ان کی خواب گاہوں میں کوئی آواز مت کرنا

بہت تھک ہار کر فٹ پاتھ پر مزدور سوئے ہیں 

 (نقش انبالوی)

☆☆☆

دولت کا فلک توڑ کے عالم کی جبیں پر

مزدور کی قسمت کے ستارے نکل آئے

(نشور واحدی )

☆☆☆

پسینہ میری محنت کا مرے ماتھے پہ روشن تھا

چمک لعل و جواہر کی مری ٹھوکر پہ رکھی تھی

(ناظر صدیقی )

☆☆☆

منایا جا رہا ہے یومِ مزدور

مگر مزدور کی چھٹی نہیں ہے

(نازمظفرآبادی)

☆☆☆

ہاتھ پہ چھالے دکھاتا ہی نہیں بچوں کو 

باپ کے جیسا کوئی مزدور کہیں دیکھا ہے

( ناظم علی )

☆☆☆

لے کے تیشہ اٹھا ہے پھر مزدور

 ڈھل رہے ہیں جبل مشینوں میں

 (وامق جونپوری )

☆☆☆

محنت کر کے ہم تو آخر بھوکے بھی سو جائیں گے

یا مولا تو برکت رکھنا بچوں کی گڑ دھانی میں

(ولاس پنڈت مسافر )

☆☆☆

دن بھر کی بھرپور لگن کا حاصل یوسف

ہاتھ پہ چنڈیاں پائوں پہ چھالے دیکھ لئے

 (یوسف عالمگیرین )

☆☆☆

شہر میں مزدور جیسا در بدر کوئی نہیں 

جس نے سب کے گھر بنائے اوس کا گھر کوئی نہیں 

(نامعلوم)

بشکریہ اردو کالمز