216

ظالم عشق، پاک عشق

عشق ایک ایسا موضوع ہے جس پر ’’پیٹ‘‘ سے بھی زیادہ کہا ‘ سنا‘ لکھا اور پڑھا گیا ہے لیکن اگر حقیقت ڈھونڈی جائے تو عشق بندگوبھی سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہے، صرف پتے ہی پتے ‘ پتوں کو ہٹایا جائے تو اندر کچھ بھی نہیں ملے گا اور یہ پتے اس کے گرد شاعروں،صورت گروں اور افسانہ نویسوں نے لپیٹے ہوئے ہیں۔

لفاظی کی بھی ایک دنیا ہے بلکہ سمندر ہے جس میں یہ عشق نام کی چیز تیر رہی ہے،کوئی اسے کیا کہتا ہے اور کوئی کیا،اگر اس عشق کے بارے میں صرف ’’شاعری‘‘ ہی جمع کی جائے اور اس سے ایک کتاب مرتب کی جائے اور پھر کوئی شخص اسے پڑھنے بیٹھ جائے اور روزانہ ایک ہزار صحفے پڑھے تو ہزار سال تک پڑھنے کے بعد بھی کتاب ختم نہ ہو بلکہ اس عشق کے آس پاس جو دوسری کونپلیں نکلتی رہتی ہیں جیسے ہجر وفراق، رقیب روسیاہ، قاصد و نامہ بر،شب فراق شب وصل،وعدے انتظار اور نہ جانے کیا کیا وہ اپنی ایک الگ دنیا ہے۔ایک مرتبہ ایک نوجوان نے ہم سے پوچھا،یہ رقیب کیا ہوتا ہے۔

ہم نے عرض کیا، کامیاب عاشق۔جب کہ ناکام عاشق کا تو ہم سب کو پتہ ہے کہ شاعر بن جاتا ہے اور ساری دنیا کو اپنے دکھڑے سناکر بور کرتا ہے۔یاد نہیں یہ بات ہم نے آپ کو بتائی ہے یا نہیں کہ ہم مشاعروں میں حتی الوسع نہیں جاتے،کیونکہ ہمیں یہ بات کچھ عجیب سی لگتی ہے کہ ایک صاحب آکر اسٹیج پر کھڑا ہوجاتا ہے۔اور بھوں بھوں روتے ہوئے کہتا ہے کہ ظالم محبوب نے اسے نظروں کے تیروں سے چھلنی کردیا، میرے دل کے ہزار ٹکڑے کردیے، کوئی یہاں گرا کوئی وہاں گرا، رقیب روسیاہ نے مار مار کر مجھے دنبہ بنادیا ہے ہجر نے مجھے تھپڑ مارے، فراق نے لاتیں لگائیں، جدائی نے ٹھڈے مار مار کر میرا ملیدہ بنادیا۔ان حالات میں تو اسے تھانے جاکر مذکورہ ’’ملزمان‘‘کے خلاف ایف آئی آر درج کرنا چاہیے وہ آکر ان سے فریاد کررہا ہے جو اس سے بھی زیادہ فریادی اور خدامارے ہوتے ہیں۔

دراصل انسان جو ہمیشہ سے نرگسیت کا شکار رہا ہے اور خاص طور پر ’’ملاوٹ‘‘ کا تو عالمی اور کائناتی چمپئین ہے۔اس نے نفسیانی خواہشات کو ’’عشق‘‘ کا نام بلکہ غلط العام نام دیا ہوا ہے۔ حالانکہ سارا کھیل نیگٹو اور پازیٹو کا ہے۔اور اس کے ملاپ کی خواہش کا عشق کا نام دے دیا۔ اس میں کوئی فلسفہ اور کوئی راز نہیں ہوتا۔

کائنات میں تخلیق و تکوین کا سلسلہ رواں دواں رکھنے کے لیے ہی نیگٹو اور پازیٹو کے درمیان ’’کشش‘‘ کا عنصر ہوتا ہے جس کی کسی حد تک وضاحت توآئزک نیوٹن کے نظریہ گریوٹی سے ہوجاتی ہے اور پھر تصوف کے نظریہ’’فصل و وصل‘‘کی بنیاد ہے اور اس کی وضاحت مولانا روم کی مثنوی کے پہلے شعر میں کی گئی ہے یعنی

بشنواز’’نے‘‘ چو حکایت مے کن

وزجدا ئہیا شکایت مے کن

ترجمہ۔بانسری کو سنو۔جو اپنی’’جدائی‘‘ کی شکایت کرتی ہے کہ

کزنیستاں را مرا پبریدہ اند

کہ مجھے جنگل یا اپنی اصل سے کاٹا گیا ہے پھر آگے کے اشعار میں کہا گیا ہے ہر چیز اپنے ’’اصل‘‘ سے کٹنے کے بعد اس کے فراق میں بے قرار رہتی ہے اسے ’’جدائی‘‘ یا ’’فصل‘‘ کہتے ہیں اور اس سے دوبارہ ’’جڑنے‘‘ اور واصل ہونے کی کوشش میں لگا رہتا ہے۔سکندریہ کے مشہور فلسفی’’فلاطینوس‘‘ کا نظریہ ’’نو فلاطونیت‘‘ اور محی الدین ابن عربی کا نظریہ وحدت الوجود اسی فصل اور وصل پر مبنی ہے جو مختصر طور پر یوں ہے کہ اس کائنات میں اور کوئی ’’وجود‘‘ نہیں صرف ایک ہی وجود ہے اور یہ باقی سب کچھ اسی ’’ایک وجود‘‘ کی کثرت ہے،جو دوبارہ وحدت کے لیے بے قرار ہے۔

فلاطینوس کہتا ہے کہ ہر چیز اس ’’روح اعلیٰ‘‘ سے نکلی ہے اور ہر چیز اس روح اعلیٰ سے دوبارہ ملن اور وصل کے لیے بے قرار اور کوشاں بلکہ محو پرواز ہے۔ جتنی دنیاوی علائق سے دور ہوگی اتنی ہی اس کی’’پرواز‘‘ روح اعلیٰ کی طرف تیز ہوگی۔اتنی ہی جلدی وصل سے بہروز ہوگی۔

ہندی فلسفہ بھی اسی نظریہ پر مبنی ہے کہ آتما (روح) پر ماتما سے نکلی ہے اور اس سے دوبارہ ملنا اور اس میں شامل ہونا ہی اس کا مقصد ہے۔ شنکراچاریہ نے اسے ’’ادوتیاواد‘‘ کہا ہے میں نے اپنی کتاب ’’وحدت الوجود اور بگ بینک‘‘ میں اس پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے کہ نظریہ بگ بینک بھی یہی ہے، کہ ایک ذرے سے کائنات نکلی ہے پھیل رہی ہے یعنی انتشار اور’’فصل‘‘ کی حالت میں ہے اور ایک دن پھر یہ کائنات سمٹنا اور ارتکاز ہونا شروع ہوجائے گی اور اسی ’’ذرے‘‘ میں مرتکز ہوجائے گی۔

ذرہ پھر پھٹے گا اور ایک نئی کائنات اسی طرح پھیلنا شروع ہوجائے گی یہاں تک تو طبعیات والے بتاتے ہیں لیکن آگے یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ یہ ذرہ پھٹنے پھیلنے اور پھر سمٹنے کا سلسلہ کب سے ہے اور کب تک چلے گا۔یا اب تک کتنی کائناتیں اسی طرح بنی اور پھٹتی رہی ہیں اور آیندہ کتنی کائناتیں وجود میں آ آکر فنا ہوتی رہیں گی۔اور اس کی بنیاد کشش ہے۔ کائنات کا ذرہ ذرہ ایک کشش کا اسیر ہے اور دوبارہ جڑنے یا اسی ایک وجود میں مرتکز ہونے میں مصروف ہے۔

صوفیا نے وصل یا فصل کے اس سلسلے کو ’’کشش‘‘ یا عشق کا نام دیا ہوا ہے۔ لیکن انسانوں نے اس کشش یا عشق کو ’’جنسی عمل‘‘ کے ساتھ گڈمڈ کردیا ہے اور نر ومادہ یا مرد و عورت کے خالص جسمانی’’ملاپ‘‘ کو خواہ مخواہ اتنا اچھالا ہے۔یہاں تک کہ آج کی بزعم خویش ماڈرن دنیا میں سب کچھ اسی جنسی تلذذ اور ملاپ کو’’عشق‘‘ کا قطعی غلط نام دیا ہے جو میں نے ابتدا ہی میں کہا ہے کہ نر ومادہ یا عورت و مرد کا جسمانی ملن اصل مقصد نہیں بلکہ راستہ اور ذریعہ ہے تخلیق و تکوین اور ارتقاء کا عمل آگے بڑھانے کے لیے بنادیا گیا ہے۔

عورت کو ’’ایک جسم‘‘ سمجھ کراس کی معاشرتی درجہ بندی کی جا رہی ہے۔آبادی کم کرنے کے لیے ضبط تولید کے ہزار طریقے ایجاد کیے گئے ہیں بلکہ جب سے انسان کو یہ جانکاری ملی ہے کہ ماں کے پیٹ میں ’’نرومادہ‘‘ کا پتہ لگ جاتا ہے تب سے تو ایک وسیع پیمانے پربچیوں کا ’’قتل عام‘‘ شروع ہوا ہے۔

کہتے ہیں کہ قدیم عرب میں بیٹیوں کو زندہ درگور کیا جاتا تھا لیکن آج کا انسان تو ماں کے پیٹ ہی میں مار دیتا ہے یا اسے وجود میں آنے نہیں دیتا اور صرف ’’جنسی‘‘عمل ہی کو مقصد بنالیا گیا ہے۔اور اس پر ستم یہ کہ اپنے اس ظالم ترین عمل کو’’عشق‘‘کا پاک نام بھی دیے ہوئے ہے۔مانا کہ’’کثرت اولاد‘‘ ایک مسئلہ ہے لیکن کثرت اولاد کا مطلب حیوانیت تو نہیں ہے۔

بشکریہ ایکسپرس