210

لیاری میں کچھی برادری کی داستان

یہ کہنا بجا ہے کہ کراچی منی پاکستان ہے جہاں ملک کے چاروں صوبوں سے تعلق رکھنے والے مختلف طبقات طویل عرصے سے بود و باش اختیار کیے ہوئے ہیں ان طبقوں کے مختلف رنگوں کی ایک جھلک کراچی کے قدیمی علاقے لیاری میں بھی واضح ہے جہاں مختلف قومیتوں کے افراد امن و آشتی سے کئی برسوں سے رہائش پذیر ہیں ۔

ان ہی میں کچھی برادری بھی شامل ہے جو بہت ہی جفا کش ،محنتی اور پرامن لوگ ہیں ۔کچھی برادری کے افراد تقسیم ہند سے بہت پہلے بھارت کے صوبہ گجرات سے ہجرت کرکے کراچی پہنچے جو لیاری کے علاوہ کراچی کے دیگر علاقوں جن میں اولڈ حاجی کیمپ ،بلدیہ ٹاؤن ، نیو کراچی ،ملیر ،کھوکھرا پار ،ابراہیم حیدری ،صالح آباد ،منوڑہ ،شمس پیر ،جزیرہ بابا بھٹ، ڈالمیا، مواچھ گوٹھ اور حسین آباد میں آباد ہیں ۔

کچھی برادری مختلف ذات برادریوں پر مشتمل ہے جن میں کمبھار ، سومرو ،اوکھائی،مایا نی ،مہندرہ ، ہنگورہ، لوہار ،گھا نچی ،پنجارہ ، کچھی میمن ،واڈھا ، سنگھار، ترک اور جت شامل ہیں یہ سب برادریاں اگر براہ راست نہیں تو بالواسطہ طور پر ایک دوسرے کے رشتہ دار ہیں ۔کچھی برادری کی سو سے زیادہ جماعتیں ہیں جو اپنی مدد آپ کے تحت پر خدمت خلق میں مصروف عمل ہیں۔ اس برادری سے تعلق رکھنے والے مخیر حضرات ان جماعتوں کے ذریعے غریب طبقے کی مدد کرتے ہیں خصوصا شادی بیاہ اور موت کی صورت میں ان غریبوں کو مالی طور پر کافی سہارا مل جاتا ہے ۔

لیاری کے علاقے چاکیواڑہ نمبر 2میں واقع کچھی میمن جماعت ، ولی محمد حسن علی روڈ پر واقع گھا نچی جماعت اور نیو کمبھار واڑہ میں واقع کمبھار جماعت ایسے سماجی ادارے ہیں ،جن کی خدمت صرف اپنی برادری تک محدود نہیں ہیں بلکہ تمام علاقے کے لوگوں تک وہ رعایتی ریٹ پر ڈسپنسری ، کلینک ،تعلیمی مراکز اور شادی ہالوں کی سہولتیں پہنچاتے ہیں ۔کچھی میمن جماعت سے وابستہ ہاشم میمن (مرحوم ) کا نام لیاری کے سماجی حلقوں میں بڑے عزت و احترام سے لیا جاتا ہے۔

ان کا شمار لیاری کے اولین سماجی رہنماؤں میں ہوتا تھا جنھوں نے ملکی اور غیر ملکی سطح پر لیاری کی نمایندگی کی ، جنھیں ایوارڈ زسے بھی نوازا گیا، انھوں نے لیاری کمیونٹی ڈیولپمنٹ پروجیکٹ کے قیام میں بنیادی کردار ادا کیا تھا۔

اسی طرح گھانچی جماعت سے وابستہ عباس گھانچی ایڈوکیٹ جو نوجوانی ہی میں حرکت قلب بند ہونے کی وجہ سے رحلت کر گئے، لیاری کے ایک بہت سرگرم سماجی رہنما تھے، قبل ازیں انھوں نے لیاری اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے صدر کی حیثیت سے کافی عرصے تک طلباء تحریک کو منظم کیا ۔کمبھار جماعت کے حسین بھائی بھی ایک بہت ہی سینئر سماجی رہنما تھے جو اپنی برادری کے ساتھ ساتھ اجتماعی طور پر لیاری میں فلاحی کاموں میں بھی پیش پیش رہے ۔ لیاری کلری میں واقع آل کچھی قومی سہارافاؤنڈیشن ایک ایسا سماجی ادارہ ہے جو غریبوں کی بھلائی کے کام میں ہمیشہ پیش پیش رہا ہے ۔

کچھی برادری کے آباؤ اجداد جب کراچی آئے تو انھوں نے سمندر کے کنارے میں آباد ہونے کو تر جیح دی تھی کیوںکہ معاشی لحاظ سے سمندری علاقہ پر کشش تھا اس دور میں مزدوری کرنے کے زیادہ تر مواقع سی پورٹ پر ہی میسر تھے ۔

بنیادی طور پر کچھی برادری کے لوگ کچھی گجراتی زبان بولتے تھے لیکن بعد میں انھوں نے نہ صرف سندھی زبان کو اپنایا بلکہ بعض مقامات میں سندھی ثقافت ہی کو اپنی شناخت بنائی ۔ کراچی شہر کی ترقی میں بھی کچھی برادری نے بڑا اہم کردار ادا کیا ہے۔ کراچی پورٹ ٹرسٹ کے بانیوں میں ان کا شمار ہوتا ہے ۔کراچی سی مین (سمندری جہازوں میں خدمات انجام دینے والے ) کی ابتدائی کھیپ بھی کچھی برادری کے افراد پرمشتمل تھی ۔

مٹی سے برتن بنانے کا پیشہ بہت پرانا ہے۔ قدیم مصر میں 2500قبل مسیح میں بنائی گئیں ایسی تصاویر سامنے آئی ہیں جن میں کمبھار وں کو مٹی گوندھتے، چاک پر برتن بناتے، بھٹی میں آگ دکھاتے ،پھر برتن بھٹی سے نکالتے اور انھیں ترتیب سے رکھنے کے لیے لے جاتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ دنیا بھر کی طرح پاکستان میںبھی مٹی سے طرح طرح کے برتن اور آرائشی اشیاء بنانے والے کاری گر موجود ہیں جنھیں کمبھار کہا جاتا ہے ۔

لیاری کے علاقہ بکرا پیڑی کے نزدیک واقع کمبھاروں کی بستی کافی پرانی ہے کمبھاروں کے کام اور رہائش کی جگہ عموما کمبھار واڑہ کہلاتی ہے اسی مناسبت سے اسے نیاکمبھار واڑہ کہا جاتا ہے جب کہ اس سے قبل لیاری ہی کے علاقے چاکیواڑہ نمبر ایک میں پرانا کمبھار واڑہ ہے جہاں اب کمبھار کا کام نہیں کیا جاتا جب کہ نیا کمبھار واڑہ میں آج بھی کسی حد تک کمبھار کا کام کیا جاتا ہے ۔یہ کمبھار واڑہ قیام پاکستان کے وقت بھی موجود تھا وقت گزر نے کے ساتھ کمبھار واڑہ وسیع ہوتا گیا 46سال قبل تک کمبھار وں کو لیاری ندی اور آس پاس کے علاقے سے مٹی باآسانی سے مل جاتی تھی۔

پانی کے لیے ندی میں کنویں موجود تھے جن سے آسانی کے ساتھ پانی مل جاتا تھا۔ اس زمانے میں بھٹی کے لیے لکڑیاں سستے داموں پر دستیاب تھیں اور شہر میں جھاڑ یاں ،خود رو پودے اور گھاس بھی کافی مقدار میں موجود تھی ،جنھیں بھٹی میں جلانے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا ،لکڑی کے نرخ بڑھنے اور جھاڑیاں وغیرہ کم ہوئیں تو بھٹی میں کچرا استعمال ہونے لگا ۔دوسری طرف مٹی اور پانی کی دستیابی مشکل اور مہنگا عمل ہوگیا۔ پہلے پرانے کمبھار واڑے کے اردگرد زیادہ آبادی نہیں تھی لیکن رفتہ رفتہ اس کے چاروں طرف گنجان آبادی ہوگئی۔

بھٹیوں پر اعتراضات ہونے لگے ان حالات کی وجہ سے رفتہ رفتہ یہاں کمبھاروں کے لیے کام کرنا مشکل ہوگیا ،مہنگائی کی وجہ سے یہ پیشہ لوگوں کا پیٹ بھرنے کے لیے سود مند نہیں رہا اور کمبھار واڑہ اور اس کے اردگرد کا اراضی کے نرخ بڑھنے اور یہاں طرح طرح کے کاروبار شروع ہونے کی وجہ سے بہت سے کمبھار وں نے یا تو یہ کام چھوڑ دیا یا اپنے زیر قبضہ اراضی فروخت کرکے کوئی دوسرا کام شروع کردیا۔

یوں پرانا کمبھار واڑہ سکڑتا چلا گیا اور اب یہ بس نام کا کمبھار واڑہ رہ گیا ہے ۔ تاہم نیا کمبھار واڑہ میں بعض افراد اب بھی یہاں یہ کام کرنے میں مصروف ہیں، یہاں کمبھار کے بہت سے کارخانے فروخت ہوچکے ہیں اور ان کی جگہ عمارتیں تعمیر ہوچکی ہیں اور ان عمارتوں کے نیچے دکانیں تعمیرکی گئی ہیں اور اب یہ علاقہ کمبھارواڑہ مارکیٹ بن چکا ہے۔ یہاں سے بہت سے کمبھار نئی کراچی اور بلدیہ ٹاؤن منتقل ہوگئے ہیں ۔ان دنوں کراچی میں خمیسہ گوٹھ کی حدود میں واقع کمبھار واڑہ ہے۔

بشکریہ ایکسپرس