کیا نرسنگ تعلیم کا مستقبل تاریکی میں ہے؟

تحریر: ڈاکٹر ثانیہ کھیڑہ،صدرپرائیویٹ نرسنگ کالجز فیڈریشن پاکستان 
پاکستان میں نرسنگ کا شعبہ، نظامِ صحت کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ جب بات انسانی جان بچانے کی ہو، تو ایک تربیت یافتہ نرس ہی وہ اوّلین مددگار ہوتی ہے جو مریض کے بستر کے پاس موجود ہوتی ہے۔ دنیا بھر میں پاکستان کی نرسز کی مانگ بڑھتی جا رہی ہے، اور عالمی اداروں کی رپورٹس کے مطابق ہمیں صرف بیرونِ ملک 25 لاکھ تربیت یافتہ نرسز کی ضرورت کا سامنا ہے۔ اندرونِ ملک بھی ہسپتال نرسنگ کی شدید قلت سے دوچار ہیں۔ایسے وقت میں جب پاکستان کی معیشت کو مستحکم کرنے اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے کی ضرورت ہے، نجی نرسنگ کالجز اپنا سرمایہ لگا کر نہ صرف تربیت یافتہ نرسز تیار کر رہے ہیں بلکہ ملک کی معیشت میں بھی مثبت کردار ادا کر رہے ہیں۔ لیکن افسوس کہ فیڈرل منسٹری آف نیشنل ہیلتھ سروسز اور پاکستان نرسنگ اینڈ مڈوائفیری کونسل (PNMC) کے درمیان جاری مسلسل اختیارات کی جنگ اور بیجا رسہ کشی نے اس مقدس شعبے کو بدحالی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔پرائیویٹ نرسنگ کالجز مالکان گزشتہ کئی برسوں سے بے چینی اور بے یقینی کا شکار ہیں۔ بعض کالجز کے دو سال سے وزٹ ہی نہیں ہوئے اور جن کے وزٹ مکمل ہو چکے، انہیں رجسٹریشن یا انرولمنٹ لیٹر تک جاری نہیں کیے جا رہے۔ کونسل اور منسٹری دونوں ایک دوسرے پر ذمہ داری ڈال کر بری الذمہ ہو جاتی ہیں۔ جب کالجز مالکان وزارتِ صحت سے رجوع کرتے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ ''ہم قانون سازی کر رہے ہیں''، اور جب کونسل سے رابطہ کریں تو وہ کہتی ہے ''ہم خود مختار اتھارٹی ہیں، ہمیں وزارت سے ہدایات لینے کی ضرورت نہیں''۔سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ پاکستان نرسنگ کونسل کا ماحول اس قدر غیردوستانہ ہو چکا ہے کہ نجی کالجز کے مالکان وہاں قدم رکھنے سے بھی کتراتے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کونسل کے دروازے ان پر بند کر دیے گئے ہیں۔ نہ سنوائی ہے، نہ شفافیت۔ حالات اس حد تک بگڑ چکے ہیں کہ وہاں پر ایک مخصوص مافیا نے قبضہ کر لیا ہے، جو معاملات کو دانستہ طور پر الجھا کر اپنے مفادات حاصل کر رہا ہے۔آج کونسل کی صدارت سٹے آرڈر پر براجمان ہے۔ سیکریٹری جنرل کی پوسٹ پر عارضی طور پر تعینات افراد براجمان ہیں، جو کبھی کمپیوٹر آپریٹر تھے اور آج پالیسی سازوں کی نشست پر بیٹھے ہیں۔ دو ماہ بعد وہی فرد کبھی ڈائریکٹر بن جاتا ہے، تو کبھی ایڈمن۔ تنظیم سازی اور ادارہ جاتی نظم و نسق مکمل طور پر درہم برہم ہو چکا ہے۔یہ تمام صورتحال نہ صرف کالجز کی ساکھ کو نقصان پہنچا رہی ہے بلکہ نرسنگ کی تعلیم کو بھی زوال کی طرف دھکیل رہی ہے۔ ملک بھر میں درجنوں کالجز بند ہونے کے قریب ہیں، ہزاروں طلبہ و طالبات کا مستقبل غیر یقینی کی گرفت میں ہے، اور نرسنگ کے شعبے کی عالمی ساکھ کو بھی ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ رہا ہے۔ہم وزیرِاعظم پاکستان جناب میاں محمد شہباز شریف سے بھرپور اپیل کرتے ہیں کہ نجی نرسنگ کالجز کو درپیش سنگین مسائل کا فوری نوٹس لیا جائے۔ ایک اعلیٰ سطحی شفاف انکوائری کمیشن قائم کیا جائے، جو نہ صرف پاکستان نرسنگ کونسل میں جاری بدانتظامی کی تحقیقات کرے بلکہ اختیارات کی کھینچا تانی کا خاتمہ کر کے نظام کو ایک واضح اور قابلِ عمل فریم ورک کے تحت استوار کرے۔نجی نرسنگ کالجز کی بقاء صرف مالکان کا مسئلہ نہیں بلکہ پاکستان کے شعبہ صحت، برآمدات، روزگار اور قوم کی صحت کا مسئلہ ہے۔ اگر آج یہ ادارے بند ہوئے تو کل ہمارے ہسپتال تربیت یافتہ نرسز سے خالی ہوں گے، اور ہم بیرون ملک کی ڈیمانڈ کو کبھی پورا نہ کر سکیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

بشکریہ روزنامہ آج