257

گینڈا، بندر اور مگر مچھ

ایک بہت بڑا جنگل تھا۔ اس میں چشمے ‘ جھیلیں اور ندیاں بہتی تھیں۔پانی کی فراوانی نے سارا جنگل ہرا بھرا کر رکھا تھا۔ چاروں اطراف اونچے ،گھنے پیڑ‘ سبز گھاس کے میدان اور پہاڑیاں‘ شاداب جھاڑیاں ، پھولدار اور پھل دار درخت تھے۔ ہر طرح کے چوپائے‘ پرندے ‘ کیڑے مکوڑے پر سکون زندگی گزار رہے تھے۔

ندیوں میں رنگ برنگی مچھلیاں اور دیگر آبی جانور موجود تھے۔ قدرت کا ایک توازن تھا‘ جس نے جنگل کو شہکار بنا ڈالا تھا۔ دور دور سے پرندے اور جانور‘ خوراک اور بہتر زندگی کے لیے وہاں منتقل ہوتے رہتے تھے۔

جنگل کا بادشاہ ایک حد درجہ سمجھدار بندر تھا۔ اس نے اپنی بے مثال ذہانت کے بل بوتے پر جنگل میں کڑا نظام نافذ کررکھا تھا۔ کبوتروں اور فاختاؤں پر مشتمل جھنڈ پورے جنگل پر محو پرواز رہتے اور پل پل کی خبر سے حاکم بندر کو آگاہ رکھتے تھے۔ بندر دیگر ذرایع سے خبر کی ہمیشہ تصدیق کراتا تھا۔ نظام انصاف ایسا سخت کہ شیر اور بکری ایک گھاٹ پر پانی پیتے تھے۔

شیروں کے گروہوں کی ہمت نہیں ہوتی تھی کہ وہ کسی جانور کا  بلا ضرورت اور بغیر اطلاع شکار کریں۔ انھیں صرف اتنا ہی شکار کرنے کی اجازت تھی جو ان کی ضرورت کے مطابق ہو۔ ایک دن ‘ چیتے نے اپنی طاقت کے زعم میں ہرن کے ایک بچے کو مار ڈالا اور کھانے کے بجائے اسے وہیں چھوڑ دیا۔ دراصل یہ شکار نہیں تھا بلکہ چیتے کا ظلم، تکبر اور قانون شکنی تھی۔ ایک فاختہ نے اس ظلم کی اطلاع بادشاہ کو دی ۔ بندر بادشاہ نے ہرن کو طلب کرکے معلومات حاصل کیں۔ ثبوت و شواہد جمع کرائے گئے۔ پوری تحقیقات کے بعد بادشاہ  نے عدالت لگائی ۔

گینڈے کو حکم دیا کہ چیتے کو فوراً پیش کرو۔ گینڈے نے حکم کی تعمیل کی اور چیتے کو عدالت کے روبرو پیش کر دیا۔ بادشاہ بندر نے کیس کی سماعت مکمل کی۔ ہرنی کی شکایت اورفاختہ کی اطلاع درست نکلی۔ بندر رول آف لا کا ماڈل تھا۔ اس کی عدالت نے حکم دیا کہ مجرم چیتے کو اندھا کر دیا جائے اور اس کی ایک ٹانگ کاٹ دی جائے۔

عدالت کے حکم پر عقاب نے چیتے کی آنکھیں نکال دی اور ایک گرانڈیل گوریلے نے چیتے کی ٹانگ چبا کر کاٹ ڈالی۔ ہرن کو انصاف مل گیا، اس کا معصوم بچہ تو واپس نہ مل سکا۔ مگر چیتے جیسے طاقتور جانور کو اس کے ظلم کی سزا فی الفور مل گئی۔ یوں فوری‘ بروقت اور راست انصاف سے جنگل میں ہر طرف امن ہی امن تھا۔

بندر نے جنگل میں تمام حفاظتی تدابیر بھی کر رکھی تھیں۔ گینڈوں کا ایک گروہ بنایا ہوا تھا۔ جو ہر دم چوکس رہتا تھا۔ کسی بھی خطرے کی خبر ملتے ہی وہ گروہ ‘موقع پر جا کر تمام حفاظتی معاملات خود درست کرتا تھا۔ اگر کسی دوسرے جنگل سے آنے والے جانور نے کوئی شرارت کرنے کی کوشش کی ہوتی‘ تو اسے عدالت میں پیش کر کے نشان عبرت بنا دیا جاتا تھا۔ گینڈوں کے حفاظتی دستوں کے علاوہ ‘ مگر مچھوں کا ایک گروپ جھیلوں اور ندیوں میں ہر دم موجود رہتا تھا تاکہ آبی نظام رواں رہے ۔ گینڈوں‘ مگر مچھوں‘ عقابوں کے حفاظتی گروہوں کی مستعدی اور فرض شناسی کے باعث جنگل میں امن قائم تھا۔

اقتدار کی طوالت کے ساتھ بادشاہ بھی بوڑھا ہوتا چلا گیا ،اب اسے فکر تھی کہ اس کے بعد جنگل کو اتنے بہتر طریقے سے کون چلائے گا۔ اس کا ایک بیٹا حد درجہ سمجھ دار اور دانا تھا۔ بوڑھے بندر کا خیال تھا کہ اسے اپنا جانشین مقرر کردے ۔ مگر ایک مسئلہ پیدا ہو گیا تھا۔ بادشاہ کی متعدد بیویاں تھیں اور کثیر اولاد کا مالک تھا۔ اس کی ایک ملکہ ساتھ والے جنگل سے آئی تھی۔ اس کا رنگ بھورے کے بجائے سفید تھا۔ اس کا ایک ہی بیٹا تھا۔سفید ملکہ چاہتی تھی کہ اس کا نالائق بیٹا بادشاہ بنے۔ بوڑھے بادشاہ کو اپنا نالائق بیٹا ایک آنکھ نہ بھاتا تھا۔ اب سفید ملکہ نے سازش شروع کی۔

اس نے رات کی تاریکی میں گینڈوں کے سردار کو بلایا اور بادشاہ کی علالت ، حکمرانی کی خامیاں اور اپنے سوتیلے بیٹوں کی کمزوریاں بتائیں۔ گوری بندریا نے گینڈے کو کہاکہ آدھا جنگل تمہیں دے دوںگی جس پر تمہاری حکومت ہو گی۔ بس شرط صرف یہ ہے کہ تم بادشاہ اور اس کے ذہین ولی عہد کو راستے سے ہٹا دو اور میرے نالائق بیٹے کو تخت نشین کرادو۔ جیسے ہی میرا بیٹا بادشاہ بنے گا۔ وہ پہلا حکم ہی یہ کرے گا کہ جنگل کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا جائے۔ ایک حصے کا حاکم وہ ہو گا اور دوسرے حصے پر تمہاری حکومت ہوگی۔ گینڈا یہ سب کچھ مان گیا۔ اس نے بادشاہ اور ولی عہد کوکچلنے کی منصوبہ بندی شروع کر دی۔

مگر یہاں‘ ایک اور کھیل شروع کیا گیا۔ مکار ملکہ نے خاموشی سے مگر مچھ کو بلایا اور اسے کہا کہ میں تمہیں تمام جھیلوں اور آبی ذخائر کا حکمران بنانا چاہتی ہوں اور جنگل کا ایک حصہ بھی بطو ر جاگیر عطا کروںگی۔ بس تم نے میرے حکم اور میرے بتائے ہوئے وقت پر گینڈوں کے سردار پر حملہ کرنا ہے، اسے پانی میں لے جا کر ڈبو دینا ہے۔ مگر مچھ نے بھی ملکہ کو ہاں کر دی۔ اب سازش مکمل طور پر برپا ہو چکی تھی۔

ایک شام کو موقع پا کر ‘ ملکہ نے گینڈے کو بلایا اور سوئے ہوئے بادشاہ اور ولی عہد کو پاؤں تلے کچلوا دیا۔ ملکہ نے چالیس دن سوگ منایا۔ پھر اپنے نالائق بیٹے کو باشاہ بنا دیا۔ اب منصوبے کا دوسرا مرحلہ شروع ہوا۔ وعدے کے مطابق ‘ گینڈے نے آدھے جنگل کا مطالبہ کیا۔ ملکہ نے جواب دیا کہ ضرور‘ یہ تو ہمارے درمیان طے ہے۔ آپ ایسے کریں کہ کل صبح‘ جھیل کے کنارے آجائیں۔ وہاں اعلان کروںگی کہ آدھا ملک آپ کا ہے۔

گینڈا وقت مقررہ پر وہاں پہنچ گیا۔ ملکہ نے مگر مچھوں کو اطلاع کر رکھی تھی، گینڈا پہنچا تو مگر مچھوں کے غول نے اس پر حملہ کر دیا۔اسے زبردستی پانی میں لے جا کر مار ڈالا۔  ملکہ اور اس کے بادشاہ بیٹے نے مگر مچھ کو پورے آبی ذخائر اور جنگل کا ایک حصہ بخش دیا۔ مگر ملکہ اور اس کا بادشاہ بیٹا، یہ ادراک نہ کرسکے کہ مگر مچھ کے دل میں اب پورے جنگل پر بادشاہت کا سودا سمایا ہوا ہے۔

ایک دن‘ مگر مچھ نے ملکہ اور ولی عہد کو گہری جھیل کے دورے کی دعوت دی۔ ملکہ اور اس کا بادشاہ بیٹا‘ مگر مچھوں کے درمیان جھیل میں چلے گئے۔ اور مگرمچھوں کے تیار کردہ خوبصورت اوروسیع تخت پر براجمان ہو گئے۔ پھر اچانک خونخوار مگرمچھوں نے ملکہ اور بادشاہ حملہ کرکے ان کی تکہ بوٹی کر ڈالی۔ اب مگر مچھ ظلم کی بنیاد پر جنگل کے حکمران بن گئے۔ ان کے ظلم کی وجہ سے ہرا بھرا جنگل تھوڑے عرصے میں برباد ہو گیا۔ جب سب کچھ ختم ہوگیا تو مگر مچھ بھی بھوک کی وجہ سے مر گئے۔

نوٹ: اس فرضی کہانی کا پاکستان کی سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

بشکریہ ایکسپرس