122

ارکان اسمبلی آسمانی مخلوق نہیں

وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز نے مسلم لیگ (ن) کے دو ارکان اسمبلی عظمیٰ کاردار اور ملک وحید کو شوکاز نوٹس جاری کرایا ہے اور دونوں ارکان پنجاب اسمبلی پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے جواب طلب کر لیا ہے۔ رکن اسمبلی ملک وحید نے پولیس چیکنگ کے دوران اپنی گاڑی روکے جانے پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے پولیس اہلکاروں سے اچھی خاصی بحث کی تھی اور سب انسپکٹر پولیس سے معافی منگوائی تھی۔

دو پارٹیاں بدل کر مسلم لیگ (ن) میں حال ہی میں آنے والی خاتون رکن اسمبلی عظمیٰ کاردار نے شادی کی ایک تقریب میں اپنے زیورات کی مبینہ چوری پر وہاں کام کرنے والی خواتین ملازمین پر چوری کا شبہ ظاہر کرکے پولیس کے حوالے کرایا تھا۔ زیور چوری کے شبے میں انھوں نے جن خواتین ملازمین کو گرفتار کرایا،ان سے کچھ برآمد بھی نہیں ہوا۔وزیر اعلیٰ پنجاب نے اپنی پارٹی کے دونوں ارکان سے جواب طلب کیا ہے کہ دونوں ایک ہفتے میں پارٹی کو اپنی صفائی میں جواب دیں ورنہ دونوں کے خلاف سخت کارروائی کی جاسکتی ہے۔

منتخب ارکان اسمبلی کی طرف سے پولیس اہلکاروں اور عام لوگوں کے ساتھ ایسا ناروا سلوک اور سرعام تذلیل کوئی نئی بات نہیں ہے یہ سب کچھ پورے ملک میں نظر آتا ہے۔ ایک نہیں بے شمار ایسے واقعات میں چند ایک ارکان اسمبلی کے خلاف مقدمات بھی درج ہیں۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ سستی شہرت حاصل کرنے اور عوام سے ہمدردی ظاہر کرنے کے لیے کچھ سیاستدانوں اور ارکان اسمبلی نے قانون سے بالا رویہ اختیار کر رکھا ہے ۔

پولیس چیکنگ کے دوران لوگوں سے زیادتی عام لوگوں کی توہین اور اس آڑ میں رشوت وصولی کوئی نئی بات نہیں۔ پولیس اس موقع پر بحث کرنے والوں پر تشدد بھی کرتی رہی ہے اور جب وہاں سے کوئی بااثر شخص اپنی مہنگی گاڑی میں گزرتا ہے تو پولیس میں اسے چیک کرنے کی ہمت نہیں ہوتی بلکہ پولیس اہلکار اسے سلام اور خوشامد کرتے ہیں اور غریبوں کو تلاشی کے نام پر تنگ کرتے ہیں۔ارکان اسمبلی و ارکان پارلیمنٹ کی مہنگی گاڑیوں پر ایم این اے، ایم پی اے یا سینیٹر کی پلیٹ لگی ہوتی ہے جب کہ سرکاری افسران کی گاڑیوں کی بھی پہچان گاڑی پر لگی نمبر پلیٹوں سے ہو جاتی ہے۔

وکیلوں نے بھی اپنی گاڑیوں پر ایڈووکیٹ کی نمبر پلیٹیں لگوانا اصول بنا رکھا ہے۔ ارکان اسمبلی تو چیکنگ کے دوران اپنی گاڑی روکے جانے کو ہی اپنی توہین سمجھ لیتے ہیں کہ انھیں روک کر پولیس نے ان کا استحقاق مجروح کیا ہے اور وہ اجلاسوں کے دوران اپنا استحقاق مجروح کیے جانے کی تحریکیں بھی جمع کراتے ہیں حالانکہ قانون میں کہیں نہیں لکھا کہ ارکان اسمبلی، بااثرافراد اور اعلیٰ سرکاری افسران و خواتین کو چیک نہ کیا جائے۔

موٹرویز اور بڑی سڑکوں پر ان کی ہنگامہ آرائی کے متعدد مناظر میڈیا میں رپورٹ ہو چکے ہیں اور یہ معمول بن چکا ہے اور نتیجے میں سزا پولیس اہلکاروں کو ہی ملتی رہی ہے۔یہ بھی معمول ہے کہ ارکان اسمبلی کی نمبر پلیٹوں لگی گاڑیوں اور سرکاری گاڑیوں میں مذکورہ صاحب موجود نہ ہوں مگر گاڑیوں پر لگی نمبر پلیٹوں کو ڈھانپا نہیں جاتا۔اعلیٰ سرکاری افسران اگر سرکاری گاڑی میں موجود نہ ہو تو لگی نمبر پلیٹوں کو مخصوص کور سے ڈھانپ دیا جاتا ہے مگر ڈرائیور حضرات اگر صاحب کے ساتھ نہ ہوں تو نمبر پلیٹوں کو ڈھانپنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے کیونکہ اس طرح ان کا رعب پڑتا ہے۔

سرکاری کے علاوہ نجی گاڑیوں پر بھی مخصوص نمبر پلیٹیں لگانا عام ہو چکا ہے اور سرکاری عہدہ یا اسمبلی رکنیت مل جانے پر منتخب افراد بھی خود کو وی آئی پی سمجھ لیتے ہیں اور اس سرکاری زعم میں قانون شکنی کرتے ہیں اور پولیس بھی ان کی بات ماننے پر مجبور ہو جاتی ہے۔ اہم عہدے ملنے پر منتخب لوگ یا سرکاری افسران آسمانی مخلوق نہیں بن جاتے مگر لوگوں کو دکھانے اور اپنا رعب جمانے کے لیے ایسے واقعات معمول بن گئے ہیں مگر ہوتا کچھ نہیں۔

بشکریہ ایکسپرس