147

حقوق نسواں: حمرا خلیق کا نقطہ نظر

کچھ دنوں بعد عورتوں کا عالمی دن منایا جائے گا اور اس دن کے حوالے سے مختلف حلقوں کی جانب سے تنقید کا ایک سلسلہ شروع ہوجائے گا۔ میری استاد محترمہ حمرا خلیق نے خواتین کے حقوق کے حوالے سے ایک منفرد مضمون تحریر کیا تھا اور اس حوالے سے اپنا نقطہ نظر بڑے دلچسپ پیرائے میں پیش کیا تھا۔ وہ اپنے مضمون میں لکھتی ہیں:

جی ہاں! میری مرضی کا استعمال ٹی وی کی ایک گفتگو میں ہوا تھا، وہ جس انداز میں ہوا تھا اس کا ذکر میں بعد میں کروں گی، کیونکہ بظاہر یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں تھی، لیکن یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ اچانک یہ ترکیب اس قدر موقع بے موقع زباں زدِ عام ہوگئی کہ لگتا ہے کہ اس کے کہے بغیر بات مکمل ہی نہیں ہوتی۔ بڑوں کو تو چھوڑیں بچے بچے کی زبان پر بھی یہی جملہ ہے کہ ’’میری مرضی۔‘‘

کبھی میں سوچتی ہوں کہ خدا نے جب حضرت آدم علیہ السلام اور اماں حوا کی تخلیق کی تھی تو کیا ان کو لفظ ’’میری مرضی‘‘ سے ناآشنا رکھا تھا، حالانکہ ہوا پھر بھی یہی تھا کہ ایک وقت ایساآیا جب انھوں نے بھی اپنی مرضی استعمال کر لی اور اس کی سزا پائی۔ اور میرا خیال ہے کہ جب ہی سے ’’مرضی‘‘ کا لفظ وجود میں آگیا ہوگا اور پھر اس کے بعد سے آج تک کی آنے والی تمام نسلوں نے اس لفظ کا استعمال ضروری سمجھ لیا تھا۔

یہ تو حقیقت ہے کہ ہر انسان بچپن سے لے کر بڑھاپے تک جو بھی قدم اٹھاتا ہے کہیں نہ کہیں اس کی مرضی ضرور شامل ہوتی ہے خواہ وہ ارادتاً ہو یا غیر ارادی طور پر۔ لیکن حیرت یہ ہے کہ کچھ عرصہ پہلے تک اس ترکیب یعنی ’’میری مرضی‘‘ کو استعمال کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی تھی۔ اب تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ’’ میری مرضی‘‘ بھی میری مرضی، کے تحت ہی استعمال ہوتاہے۔

ظاہر ہے کہ ہر شخص کی مرضی مختلف ہوتی ہے وہ جو کچھ کرتا ہے اپنی پسند، اپنی سوچ اور اپنے حالات کو مدنظر رکھ کرکرتا ہے۔ دنیا اربوں انسانوں سے بھری پڑی ہے اور سب ایک دوسرے سے مختلف مزاج لے کر پیدا ہوئے ہیں۔ حتیٰ کہ ایک گھر میں پیدا ہونے والے بچے بھی ایک جیسا مزاج، شوق، دل چسپی اور خواہشات لے کر نہیں پیداہوتے، جب کہ وہ ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہوتے ہیں۔

لیکن یہ بے چاری ’’ مرضی‘‘ اب تک کہاں غائب تھی۔ سب اپنی مرضی کے مطابق چلتے تھے، لیکن اس کاذکر زبان پر لانے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی تھی۔ پھر اچانک ایک دھماکا ہوا۔ اللہ بھلاکرے ٹی وی چینلز پر ہونے والے ٹاک شوزکا کہ سارے پردے پھاڑکر یہ ترکیب سارے ماحول پر باقاعدہ مسلط ہوگئی۔

چلو یہاں تک بھی برداشت کیا، لیکن پھر ایک لمحہ ایسا آیا کہ ’’مرضی‘‘ بھی دو جنسوں میں تبدیل ہوگئی۔ مردوں اور عورتوں کی مرضیوں میں ایک حد فاصل کھنچ گئی اور یہ وہ لمحہ تھا جب ٹی وی کے ایک پروگرام میں ایک مرد اور خاتون اپنے اپنے خیالات کا اظہار کر رہے تھے ۔ گفتگو نہایت مہذب طریقے سے شروع ہوئی اور اچانک تلخ ہوگئی۔ نہ صرف تلخ بلکہ ایک دوسرے پر الفاظ کے تیر و نشتر برسنے لگے۔

موضوع گفتگو تو اس الفاظ کی جنگ سے کہیں روپوش ہوگیا بلکہ ایک ایسی بحث شروع ہوئی جس کے بارے میں سوچ کر اب بھی مجھے جھرجھری آجاتی ہے۔ ایک عورت کے یہ الفاظ ’’ میرا جسم میری مرضی‘‘ اور مجھے یوں محسوس ہوا کہ میں بے لباس کے کسی غیر مرد کے سامنے کھڑی ہوں، لیکن یہ تو میں نے محسوس کیا تھا۔ سیکڑوں بلکہ ہزاروں خواتین ان کی ہم آواز تھیں اور ان کی بہادری، ہمت اور جرات پر فخر کررہی تھیں اوران کے ساتھ آواز اٹھا رہی تھیں۔ واہ فیمینسٹ ہونے کی کیا لاجواب دلیل تھی۔

میں نے اخلاق کے ترازوکے ایک پلڑے میں اپنی ہم خیال عورتوں اور دوسرے میں ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ کہنے پر فخرکرنے والی خواتین کو رکھا اور یہ دیکھ کر کہ ان کا پلڑا بھاری تھا، جیسے میری روح قفس عنصری سے پروازکر گئی۔ لفظ میری کے ساتھ صرف جسم کی ترکیب میرے دل و دماغ کو سن کر گئی۔

کیا عورت میں اﷲ نے ذہن، سوچنے سمجھنے کی صلاحیت، تربیت، خود داری اور عزت نفس جیسی نام کی کوئی شناخت نہیں رکھی۔ کیا عورت کا نام لیتے وقت صرف نظروں کے سامنے اس کا جسم آتا ہے۔ میں مانتی ہوں کہ بیشتر مردوں کا دھیان یقیناً عورت کے جسم کی طرف ہی جاتا ہوگا لیکن کچھ ایسے مرد بھی ضرور ہوں گے جو عورت کو صرف لفظ جسم سے منسوب نہیںکرتے ہوں گے۔

وہ عورت کو بھی خدا کی ایسی تخلیق سمجھتے ہوں گے جس کا تعلق صرف اس کی جسمانی شکل سے نہیں ہوتا، لیکن ماشااللہ ہم نے خود اپنے آپ کو رسوا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ہم نے لفظ جسم کا استعمال کرکے ان مردوں کو شہ دی جو حرص و ہوس کے شکنجے میں جکڑے ہوئے تھے۔ یعنی ایک عورت خود یہ اعتراف کررہی ہے کہ اس کی ضرورت، اس کا وجود صرف اس کے جسم کی وجہ سے ہے جسے مردوں کی نفسانی خواہش کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔

کیا وہ بھول گئی ہے کہ خدا نے اسے بے شمار درجات سے نوازا ہے۔ وہ صرف ایک عورت کا ڈھانچہ نہیں ہے جس میں عقل ہے، نہ سمجھ بوجھ ہے، نہ اچھے برے کی تمیز ہے۔ وہ اپنی حقیقت بھول گئی ہے۔ وہ ماں ہے، وہ بیوی ہے، وہ بہن ہے اور پھر ایک  مرد ہی کی بیٹی ہے۔

وہ چکلے میں بیٹھی ایک عورت نہیں ہے جہاں وہ ان تمام قابل تعظیم رشتوں سے نکل کر صرف ایک جسم رہ گئی ہے، جس کی بولی لگتی ہے۔ جو خریداروں کے ہاتھوں بے جان اشیا کی طرح فروخت کی جاتی ہے اور جب اس کی بولی لگائی جاتی ہے تو صرف ایک مورتی ہوتی ہے جو اندھی ہوتی ہے، گونگی ہوتی ہے، بہری ہوتی ہے، محض ایک جسم ہوتی ہے۔ یہ تو مردوں کا بازار ہے۔

لیکن خدارا عورتیں تو لفظ جسم استعمال کر کے اپنی عزت، اپنی غیرت و حرمت اور اپنے مقدس رشتوں کو پامال نہ کریں۔ ’’ کیا میری مرضی‘‘ کا لفظ صرف اس کے جسم سے ہی جوڑا جاسکتا ہے۔ کیا اس ترکیب کو اس طرح استعمال نہیں کیا جاسکتا ’’ میری مرضی، میری زندگی‘‘ عورت کا تصور خود عورت کی نظر میں بھی صرف لفظ جسم تک محدود ہے۔ جہاں تک میری ناقص رائے ہے لفظ زندگی میں بھی وہ نظریہ واضح ہوجاتا ہے جو ایک عورت میں ہے۔

میں جانتی ہوں کہ عام طورپر عورتیں میری بات نہیں سمجھ پائیں گی اور نہ اس سے ان کے خیال میں لفظ ’’جسم‘‘ کا استعمال کوئی نازیبا یاغلط بات ہوگی۔ ان کے نزدیک میں بات کو دوسری طرف لے جا رہی ہوں، مگر میرا دل، میرا ذہن اور حتیٰ کہ میرا عورت ہونا بھی لفظ ’’جسم‘‘ کے استعمال کو قبول نہیں کر رہا ہے۔

ہاں ممکن ہے دنیا کی نظروں میں، میں دقیانوسی ہوں۔ موجودہ زمانے کی آزادی اور ماحول کو نہ سمجھ سکتی ہوں۔ میرے لیے شاید یہ کہنا ٹھیک ہو ’’ اگلے وقتوں کے ہیں یہ لوگ انھیں کچھ نہ کہو‘‘کیونکہ میں اس نئی دنیا کے حالات، خیالات، آزادی اور خاص طور پر آزادی نسواں کو سمجھنے سے قاصر ہوں، لیکن بہرحال اس سب کے باوجود مرضی تو میرے پاس بھی تھی جس نے مجھے قلم اٹھانے پر مجبورکردیا۔

بشکریہ ایکسپرس