جلدکی حساسیت

ڈاکٹر رحمان میرے نہ صرف سینئر ہیں بلکہ میرے استاد بھی رہے ہیں۔ اپنی فیلڈ میں نہاےت ماہر اور دنیا بھر کی ساری ڈگریاں رکھتے ہیں۔ چند ماہ پیشتر میرے پاس ایک صبح تشریف لائے‘بڑے پریشان لگ رہے تھے‘ میں نے خیریت پوچھی تو پاﺅں سامنے رکھ دیا۔ پانچا اونچا کیا تو ایک بڑا زخم میرا منہ چڑا رہا تھا۔ کہنے لگے گزشتہ چھ ماہ سے کراچی سے لے کر اسلام آباد تک تمام سرجنوں کو دکھا چکا ہوں(خود بھی سرجری سے تعلق رکھتے ہیں)۔ آخری درجے کے اینٹی بیاٹک کے انجکشن لگا لگا کر تنگ آگیا ہوں۔ پرسوں امتحان کے سلسلے میں کراچی جانا ہے اور اس زخم کےساتھ بڑی دشواری ہے کہ درد بھی بہت ہے۔ میں نے ان کی ہمت بندھائی اور کہا کہ یہ کوئی انفیکشن نہیں بلکہ ایک ایمیون ڈس آرڈر ہے جسے پایو ڈرما گینگرینوسم کہا جاتا ہے۔ میں نے ایک انجکشن تجویز کیا اور ان کی مرضی سے اسی وقت لگادیا ۔ دوسرے انجکشن کیلئے چھ ہفتے کا وقت دےدیا‘ چھ دن بعد کراچی سے واپسی پر سیدھے میرے کلینک میں شکریہ ادا کرنے آئے‘ چھ ماہ کا زخم ٹھیک ہوچکا تھا۔ میں مسکرایا اور کہا کہ ہم ڈاکٹروں کی اپنی بیماریاں عموماً علاج سے رہ جاتی ہیں بالکل ایسے ہی جیسے چمار کے جوتے ہمیشہ پھٹے ہی ہوتے ہیں۔جلد ہمارے جسم کا سب سے بڑا عضو ہے۔ جتنا بڑا عضو ہے‘ اتنی ہی زیادہ اسکی بیماریاں ہیں‘ اس کے میڈیکل سائیڈ پر امراض جلد کی مہارت بہت ہی مشکل میدان ہے اور اسی طرح سرجیکل فیلڈ یعنی پلاسٹک سرجری بھی سیکھتے سیکھتے عمر گزر جاتی ہے۔ تاہم جتنے اہم جلدی امراض ہوت ہیں۔

 ہمارے لوگ اتنا ہی ان کو معمولی سمجھ کر نظر انداز کردیتے ہیں‘ نظرانداز کرنے سے بھی زیادہ خطرناک بات گھریلو ٹوٹکے استعمال کرنے والی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ وہ لوگ جو اپنے کپڑے تک اچھے درزی کے علاوہ کسی چمار یا ہمسائے سے نہیں سلواتے‘ اپنے جلدی امراض کیلئے گھر میں کام کرنےوالی عورت کے ٹوٹکے استعمال کرنے میں عار محسوس نہیں کرتے‘ میرے ایک جاننے والے شوگر کے مریض تھے ۔ ان کے پاﺅں میں انفیکشن ہوا تو کئی ہفتے تک کام کرنےوالی عورت زخموں پر پیاز کے پتے گرم کرکے رکھتی رہی۔ نوجوان لڑکیاں خصوصاً اور لڑکے بھی اپنے چہرے اور ہاتھوں پیروں کی جلد کے بارے مےںحساس ہوتے ہیں۔ تاہم کسی ڈاکٹر سے مشورے کے بغیر مختلف قسم کے گھریلو ٹوٹکے استعمال کرنے میں کوئی تکلف نہیں اُٹھاتے حتیٰ کہ جلنے کی صورت میں گھر میں کسی نے ٹوتھ پیسٹ بتادیا تو وہ لگادیا، محلے میں کسی نے کسی گھر یا دکان کا سپرے بتادیا تو وہ لگالےا۔ سرسری جھلسنے کی صورت میں جلد بہر حال ٹھیک ہوجاتی ہے خواہ آپ پانی سے دھوئیں‘ ٹوتھ پیسٹ لگائیں یا ٹماٹر کا کیچپ۔ یہی لوگ جب دوسرے کو جھلستا دیکھتے ہیں تو بغیر زخم کی نوعیت جانے وہی ٹوٹکا استعمال کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ خواہ بعد میں وہ ایک کی بجائے چار آپریشنوں پر وقت لگائےں پیسہ خرچ کرےںاور تکلیف اٹھائےں۔ ایک عام سی بیماری وائرل انفیکشن کی وجہ سے پیر کے تلوﺅں پر یا ہاتھ کی انگلیوں پر چھوٹی چھوٹی سخت گٹھلیاں نکلتی ہےں جن کو بعض لوگ ’موکے‘ کہتے ہیں‘پرسوں بھی ایک نوجوان خاتون درد کے مارے چلاتی ہوئی میرے کلینک میں آئی۔ اسی طرح کی ایک گلٹی کسی حکیم کی تیزاب سے پہلے جلائی تھی اور بعد میں خود ہی بلیڈ سے کاٹ لی تھی۔

 کیا آپ اپنے کپڑے بھی کبھی اس طرح سے کاٹ چھانٹ لیں گے بھلا؟ اب اگر اسے کوئی نقصان پہنچتا ہے یا انگلی ضائع ہوتی ہے تو جس ڈاکٹر نے آخر میں علاج کیا ہوتا ہے وہی قصوروار ٹھہرتا ہے۔ جلد کی کئی بیماریاں ایسی ہیں جو مستقل ہوتی ہیں۔ بعض اوقات ڈاکٹر رش کی وجہ سے بتانے سے قاصر رہتے ہیں لیکن اکثر مریض ڈاکٹر کی پوری بات نہ سنتے ہیں اور نہ یاد رکھتے ہیں۔ اس لئے دوا مستقل طور پر استعمال کرنے کی بجائے‘مستقل علاج کی امید پر ڈاکٹر پر ڈاکٹر تبدیل کرتے رہتے ہیں‘ ڈاکٹروں سے پھر حکیموں اور ہومیوپیتھوں پر آجاتے ہیں اور آخر میں زبیدہ آپا (مرحومہ) یا اسی قبیل کی ہمسائیوں کے رحم و کرم پر رہ جاتے ہیں۔ یہی حال عام تِل کا ہوتا ہے۔ ہماری آبادی میں اسکا خطرناک کینسر جسے میلانوما کہتے ہیں‘ بہت کم ہے لیکن دوسرے سرطان عام ہیں۔ اسے تیزاب سے جلانے سے اور پھیلنے کا خطرہ ہوتا ہے۔ کوئی تِل جو نیا نکلا ہو یا اچانک بڑا ہونا شروع کردے‘ زخمی ہوجائے یا جلد کا کوئی بھی دوسرا زخم جو دو تین ہفتوں میں خود ہی ٹھیک نہ ہو‘ اسے ضرور کسی ماہر امراض جلد یا پلاسٹک سرجن کو دکھانا چاہئے۔ اگر شروع کے سٹیج میں اسکا علاج کیا جائے تو مکمل طور پر مندمل ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں تاہم میرے پاس بعض مریض اسوقت آتے ہیں جب انکا آدھا چہرہ سرطان کھا چکا ہوتا ہے یا ناک کو بچانا مشکل ہوجاتا ہے۔ مجھے نئی نسل سے بڑی امیدیں ہیں کہ وہ انٹر نیٹ کا استعمال کرنا جانتی ہے ‘نوجوان اپنی بیماری کے بارے مےںاچھا خاصا علم حاصل کرکے ہی آتے ہیں لیکن انٹرنیٹ بھی غلط معلومات سے بھر ا پڑا ہے۔ اسلئے یہ استعمال کرتے ہوئے بڑے احتیاط کی ضرورت ہے۔ عام لوگوں کیلئے امریکی حکومت کی ویب سائٹ ہے نیشنل انسٹی ٹےوٹ آف ہیلتھ سائنسز ( (www.nih.g برطانوی حکومت کا (www.nhsdirect.nhs.uk) ہے۔ اسکے علاوہ(www.webmd.com / ، (health.yahoo.net) اور (www.netdoctor.co.uk) ہیں جن پر تعلیم یافتہ لوگ خود ہی اچھی معلومات لے سکتے ہیں۔فیس بک اور دوسرے سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والے علاج کو کبھی بھی سنجیدہ نہیں لینا چاہئے اور نہ ہی عام ویب سائٹ پر اعتبار کرنا چاہئے۔

 

بشکریہ روزنامہ آج