80

’’الیکشن‘‘ 24 نتائج ہی نتائج

(گزشتہ سے پیوستہ)

اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہوگا کہ پی پی اور ن لیگ جیسی بڑی اور روایتی جماعتیں کوئی انتقام کا نشانہ بنیں یا کارنر کر دی جائیں بلکہ یہ بھی اپنی ناگزیر تشکیل نو کی طرف آئیں اور حکومت پر مسلسل چیک سے عوام میں اپنی پوزیشن بحال کریں۔ناجائز اقتدار کے حصول اور پی ڈی ایم کی بحالی کے چکر میں پڑنے کی بجائے ’’الیکشن‘‘ 24کے دھماکہ خیز نتائج کو پوری قوم اور خود پی ڈی ایم کے خالق مولانا صاحب کی طرف سے مسترد کرنے سے سیکھیں۔یہ کتنی بڑی تبدیلی اورلچک ہے کہ حقیقی معنوں میں اسیر جمہوریت بن گئے عمران خان نے اڈیالہ جیل میں رہتے ہی مولانا صاحب پر جلسوں میں ڈھائے کتنے ہی ستم کا ازالہ کرنے اور اپنی حکومت کو اکھاڑنے میں ان (مولانا ) کے مکمل منفی کردار کو درگزر کرنے میں ذرا دیر نہ لگائی پارٹی رہنمائوں میں اپنے پہلے رابطے مولانا کے پاس پی ٹی آئی کا مفاہمتی وفد بھیجنے کی ہدایت کر دی قطعہ نظر اس کے کہ ہر دو پی ٹی آئی اور مولانا صاحب کے الیکشن نتائج کے مشترکہ استرداد سے ان کے آئندہ اتحاد و اتفاق کی کوئی صورت نکلتی ہے یا نہیں لیکن پی ڈی ایم کے خالق اور مسلسل زیر عتاب پی ٹی ا ٓئی جیسے دو بڑے حریفوں کی طرف سے ’’الیکشن‘‘24کے ملک گیر سطح پر آلودہ ہونے کی باہم تصدیق ملکی تاریخ کے ان متنازعہ ترین الیکشن کا چونکا دینے والاایک اور بڑا نتیجہ ہے اس سے سخت مخالف دو جماعتوں میں مفاہمت کی صورت پیدا ہونا بڑے بحران سے نکلی ارتقائی صورت ہے خیبر پختونخوا میں ہر ہر تجزیے کے امکانات کے مطابق پی ٹی آئی کی لینڈ سلائیڈ وکٹری تو قابل فہم ہے سنیٹر مفتی کفایت اللہ کے اعتراف ناکامی کے فالو اپ میں مولانا صاحب کا ’’الیکشن‘‘ 24کو آلودہ قرار دیکر مسترد کرنے کے فالو اپ میں پی ٹی آئی کے اسیر اور مسلسل معتوب قائد نے بھی جیل سے رسپانس دینے میں تاخیر نہیں کی اور مفاہمتی وفد چند گھنٹے میں ہی مولانا کی خدمت میں پہنچ گیا ۔

واضح رہے ایک ٹی وی ٹاک شو میں مولانا کی جماعت کے امیر سندھ سینیٹر راشد سومرو نے بھی دعویٰ کیا ہے کہ لاڑکانہ سے قومی اسمبلی کی نشست پر بھی ان کے مقابل پی پی کے چیئرمین بلاول ہزارہا ووٹوں سے الیکشن ہار چکے ہیں شفاف تحقیق ہونے پر اگر ان کا دعویٰ غلط ہوا تو وہ ہمیشہ کےلئے سیاست چھوڑ دیں گے ۔اس پر ٹاک شو کے دوسرے مہمان پی پی کے سنیٹر فیصل کنڈی کی یہ سوالیہ دلیل بودی تھی کہ لاڑکانہ سے آج تک پی پی کے علاوہ کبھی کسی اور کو نشست ملی ہے ؟جو مولانا راشد سومرو کا دعویٰ درست ہو؟جب کبھی کہیں برج الٹ الیکشن ہوتا ہے تو کبھی کسی دوسرے کے کامیاب نہ ہونے کی دلیل نہیں مانی جاسکتی 70کے الیکشن میں پی پی نے جو برج الٹے تھے اس پر یہ دلیل کبھی نہیں دی گئی ان ہی الیکشن میں بھٹو صاحب کے مقابل لاڑکانہ سے پاکستان قومی اتحاد کے مشترکہ امیدوار سندھ کے امیر جماعت اسلامی جان محمد عباسی کو اغوا کرا دیا گیا تھا کہ پی پی کے مقابل سب جماعتوں کے اتحادی امیدوار کے بھٹو مقابل جیت جانے کا خطرہ کسی نہ کسی فیصد میں پیدا ہو گیا تھا ۔

سو اس نشست پر بھٹو کی جیت کو یقینی بنانے کے لئے یہ ہتھکنڈہ استعمال ہوا جس نے پی پی کی سیاسی اخلاقی بنیاد کو ہلا کر رکھ دیا تھا اس سے ملک بھر کے کارکن سخت مایوس ہوئے اور ان کا سیاسی مورال گر گیا تھا ایسا کچھ 8فروری کے انتخابات سے پہلے کے پری پول ماحول میں ن لیگ اور پی پی کو جھٹکے پہ جھٹکے لگانے والا نادید بہت کچھ ہوا لیکن ہر دو روایتی جماعتیں اسے لیول پلینگ اپنے حق میں سمجھ کر فسطائیت کا دفاع کرتی رہیں یو ںنگرانی ہتھکنڈوں پر پی ٹی آئی مخالف خصوصاً ن لیگی ایک پیج پر رہے انہیں یہ پڑھنا ہی نہ آیا کہ ووٹ بینک پر اس کے مفاد کے خلاف ان فسطائی حربوں کا کیا اثر پڑ رہا ہے تاہم جب پانی سر سے گزر گیا یاد رہے پی ڈی ایم راج کے وزیر داخلہ ہوتے ہوئے بھی جو بڑی مہلک سیاسی ابلاغ کے ’’سلطان راہی ‘‘ رانا ثنا اللہ پی ٹی آئی کے سرگرم لیکن معصوم و اناڑی برگربرینڈ یوتھ اور پہلی بار عملی سیاسی میدان میں اتری اتنی خواتین کو مین اسٹریم میڈیا سے جس طرح مہینوں ڈراتے رہے دھمکاتے رہے (ایسے ہی وزیر بے محکمہ جاوید لطیف ) تاہم الیکشن 24میں ن لیگی ماتمی فتح سے بھی ارتقا کی صورت نکل رہی گزشتہ روز ناچیز کی نظر سے کسی ٹی وی چینل یا وی لاگ میں رانا صاحب کی اڈیالہ کورٹس یک نہ شد دو شد ہفتہ دس روز میں خان اعظم کو تین کڑی اور طویل سزائوں پر حیران وپریشان ہوتے دیکھا کاش !رانا صاحب عدالت اور قانون کے نام پر مسلسل اور بری طرح معتوب ہوتے مخالف لیڈر کے ساتھ اتنے گندے دھندے پر اتنی حیرانی و پریشانی کا اظہار بروقت کرتے اور پارٹی لیڈر کو بھی اس پر آمادہ کرتے تو یقیناً کچھ نہ کچھ فیصد میں تو کھویا ووٹ بچ جاتا جو الیکشن سے عین ہفتہ دس روز پہلے اس قابل مذمت فسطائیت کے حوالے سے ن لیگی ووٹ بینک کو ڈینٹ پڑنے سے پی ٹی آئی کو ملا خصوصاً گھریلو خواتین تو بشریٰ بی بی کی اڈیالہ میں رسوائی سے ہر صورت اپنے ووٹ کے استعمال میں بہت پرعزم ہوئیں آخر تو رانا صاحب سنیئر وکیل ہیں اور گھاگ سیاست دان بھی لیکن ہوس اقتدار میں ان کی وکالت کام آئی نہ سیاست، کہ شعور پکڑتے بچے بھی سمجھ رہے تھے کہ اس نگرانی فسطائیت سے ڈینٹ ن لیگیوں کو پڑتا جا رہا ہے کبھی سوچا ہی نہ تھا نگراں تو حلوہ کھا کر چلیں جائیں گے دنیا ہمیں کیا سمجھے گی وقت پر یہ نہیں کہ میثاق جمہوریت کی سرخیل ن لیگ کی طرف سے آدھا ادھورا کوئی لپٹا لپیٹا سچ ہی بول دیا جاتا بلکہ اس کے بالکل برعکس جماعتی میڈیا بریگیڈ بمعہ ٹی وی پر آئے پارٹی ترجمانوں کی جانب سے عدالتی تاریخ کے سیاہ ترین ’’اوپن ٹرائل‘‘ کا ناصرف بڑھ چڑھ کر دفاع کیا جا رہا تھا بریگیڈ کا ایک سیکشن اور لیول پلینگ کا شور مچاتا رہا لیکن اس سب کے باوجود اطمینان بخش اور ارتقائی صورت یہ ہے کہ ہر دو پی ڈی ایم اور ناجائز نگرانی حکومت سے کہیں زیادہ بہتر اور غنیمت ساڑھے تین سالہ عمران حکومت اکھاڑنے سے لیکر 8فروری کے الیکشن تک جو بھی کچھ غیر آئینی دوقانونی سخت غیر ذمے دارانہ ظلم و جبر قانون شکن ہوا اس میں بھی مکمل اندھیرا نہیں ہوا دونوں بالآخر سخت مہلک بن گئی اسٹیٹس کو کی جماعتوں پی پی اور ن لیگ میں بھی اختلاف،تنقید ری بیک اور خاموش اور احتیاط سے احتجاج کے چراغ جلنے لگے جس سے اسلامی جمہوریہ پر مسلط فیملی برینڈ اولیگارکی (مافیا راج) نتیجہ خیز انداز میں چیلنج ہونے سے مدد ملی ۔ (جاری ہے)

بشکریہ جنگ نیوزکالم