130

ڈسٹربڈ پیراڈائم شفٹ اور پاکستان

(گزشتہ سے پیوستہ)

قارئین کرام! یاد رہے کہ ٹرمپ ایڈمنسٹریشن کے دور (2017-21) میں چینی صدر شی پنگ کے وژن CONNECTIVITY (اقوام کی باہمی اقتصادی ترقی بذریعہ سرحدی رابطہ در رابطہ) عملاً پروان چڑھنے لگا۔ پاکستان میں سی پیک کے انفراسٹرکچر کی تعمیر اس کا نکتہ آغاز اور بنیاد ہے۔ اسی تناظر میں ’’آئین نو‘‘ میں زیر بحث اس پیراڈائم شفٹ کی بات ہو رہی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ چونکہ کامیاب سرمایہ کار امریکی صدر تھے، سو انکے انفرادی رویے میں سی پیک پر مجموعی امریکی ناگواری نے تجارتی حسد کی شکل اختیار کرلی، یوں وہ اپنے مہم جوئیانہ مزاج کے مطابق چینی تجارت کے بحری روٹ کی سرگرمیوں (میری ٹائم) کو ڈسٹرب کرنے پر تل گئے۔ حتیٰ کہ امریکی جنگی بحری بیڑے جنوبی چینی سمندر میں چینی اوشن بائونڈری کے قریب تر پہنچا دیئے گئے، چین نے اسے ایک نیم جارحانہ اقدام سمجھتے ہوئے اپنے دعوےکے مین لینڈ سے علیحدہ لیکن مکمل امریکی اثر کے متنازع جزیرے تائیوان کو ہدف بنا کر ٹرمپ کی چھیڑی ’’ٹریڈ وار‘‘ کو دونوں ملکوں میں وار کی شکل دینے کی صورت میں تائیوان کی بازیابی ’’ہمارا ٹارگٹ‘‘ کا پیغام دیا، فقط اشاروں سے نہیں بلکہ تائیوان کی سمندری سرحد کے قریب اپنے جنگی بیڑوں کی سرگرمی اور اس کی فضائوں پر چینی جنگی طیاروں کی پروازوں کو معمول بنا کر دیا۔ ایمی جیٹ بیک گرائونڈ میں امریکی سفارت کاری سے امریکہ ، آسٹریلیا، جاپان اور بھارت پر مشتمل QUAD (کوارڈی لیٹرل سیکورٹی ڈائیلاگ) نامی اتحاد کی تشکیل کا مقصد ’’انڈوپیسفک ریجن استحکام و تحفظ‘‘ بتایا، لیکن دنیا بھر کے تھنک ٹینکس اور تجزیہ کاروں کے مطابق یہ ایک کھلا دفاعی معاہدہ تھا، جس کا مقصد چین کو مسلسل دبائو میں رکھ کر اس کی بین الاقوامی تجارتی سرگرمیوں کو محدود کرنا اور اس کے ردعمل میں کسی امکانی بحری جنگ کے خطرے سے نپٹنے کی پیشگی تیاری تھی، لیکن چین کا اس پر ردعمل(شاید) امریکی اندازے سے بہت زیادہ اورعسکری مزاج کا تھا۔ ٹرمپ ایڈمنسٹریشن تو اپنے ان غیرمعمولی اقدامات کو ’’ٹریڈ وار‘‘ کے طور سمجھانا چاہتی تھی لیکن خود چین اور دنیا نے اسے پرامن چینی میری ٹائم (بحری تجارتی) سرگرمیوں کو محدود کرنے یا اسے مشکل تر بنانے کی اشتعال انگیز منصوبہ بندی کے طور لیا۔ کواڈ کی تشکیل میں ’’انڈوپیسفک‘‘ کی جو اصطلاح گھڑی گئی، یہ اس سے قبل انٹرنیشنل ریلیشنز کے لٹریچر میں کہیں استعمال نہیں ہوئی بلکہ جنوب مشرقی ایشیا اور بحر الکاہل میں واقع ریجن کے نواحی جزائر کو ملا کر ’’ایشیا پیسفک ریجن‘‘ کی اصطلاح استعمال کی جاتی، لیکن اس سارے کھیل میں سائوتھ چائینہ سی میں چین کی بحری ناکہ بندی اور بھارت کو انڈین اوشن کے خطے کے علاوہ نئے گھڑے ریجن ’’انڈو پیسفک‘‘ کا چوکیدار (اور تھانیدار بھی) بنانا مقصود تھا۔ حالانکہ پیسفک (بحرالکاہل) کی بھارت سے کوئی جغرافیائی قربت نہیں۔

قارئین کرام! اس ساری وضاحت سے یہ تاثر نہ لیں کہ ہم موضوع سے ہٹ گئے ہیں بلکہ ذہن نشین کرلیں یہ ہی واضح کی گئی خطے کی صورتحال، نئے پیراڈائم کی تشکیل کا ایمی جیٹ بیک گرائونڈ اور آغاز کا سامان ہے۔ ناچیز کے اس تجزیے میں سی پیک کی شروع ہوگئی تعمیر صدر شی پنگ کے تصور CONNECTIVITY کے نکتہ آغاز کے طور پر شامل ہے، جبکہ پاک، چائینہ مشترکہ ترقیاتی منصوبوں کے بیش بہا فوائد چین و پاکستان تک محدود نہیں بلکہ اس کی تعمیر شروع ہوتے ہی مشرق وسطیٰ کے آئل پروڈیوسنگ ممالک، مشرقی و شمالی افریقہ، افغانستان و ایران اور ترکی و اٹلی تک بحرہ روم کے خطے کے ممالک نے CONNECTIVITYکے عمل میں ڈھلنے کے تناظر میں اس سے جڑ کر اپنے مفادات کا جائزہ لینا شروع کردیا تھا۔ جبکہ بھارت اور امریکہ نے اس پر اپنے بے تکے اور منفی ردعمل کا اظہار کیا تھا۔ دوسری جانب ابتدائی دلچسپی لینے کے اشارے تو یورپی یونین کی طرف سے بھی نمودار ہوئے کہ وہ (یونین) بھی CONNECTIVITYکا اپنے دور رس مفادات کا جائزہ لے رہی ہے۔ کواڈ اتحاد کے قیام پر بیشتر تجزیوں کا حاصل یہ ہی تھا کہ امریکہ، آسٹریلیا، جاپان اور بھارت کے اتحاد کے قیام کا مقصد ٹرمپ ایڈمنسٹریشن کی طرف سے چین کو یہ باور کرانا بھی تھا کہ وہ امریکہ کے مفادات کی حامل نت نئی مشکل شرائط کو پورا کئے بغیر اپنی بین الاقوامی تجارتی سرگرمیوں میں آزاد نہیں رہ سکے گا۔ یہاں امریکی حکومت اپنے سر پر چڑھی اس حقیقت سے نظریں چرا رہی تھی کہ واشنگٹن اب اپنے ہی اوسط، لوئر انکم اور غریب تو مکمل اور اپرمڈل کلاس اور امراء سے اچھے بھلے فیصد کے مفادات کو نظر انداز کرکے آٹھ سمندر پار (چین) سے تجارت کو محدود اور سست کرنے کے ہرگز متحمل نہیں ہو سکتے۔ جبکہ چین کو اس کا مکمل ادراک تھا۔ حتیٰ کہ چینی بڑے ہمسائے بھارت کی بھی یہ ہی کیفیت تھی اور ہے۔ سائوتھ چائینہ سی کو دھواں دھار بنانے اور اس حوالے سے امریکہ، بھارت ایک پیج پر آتےدونوں ہی اپنے عوامی مفادات ’’ان گنت اشیائے ضروریہ کی قابل برداشت نرخوں پر مسلسل سپلائی‘‘ کو جیسے بھول ہی گئے تھے۔ افغانستان سے امریکی قیادت میں نیٹو افواج کے انخلا نے عالمی سیاست منتظروسیع تر تبدیلی کا دروازہ جیسے ہی کھلا بڑے بڑے واقعات اور اَن ہونیوں کے ہونے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اس ماحول میں بیش بہا خطے میں اپنے مفاد کا متلاشی ہر ملک پاکستان سے اپنے تعلقات کی خاموشی لیکن سفارتی انہماک سے پیمائش کر چکا تھا۔ چین جو مودی اقتدار شروع ہونے پر طے شدہ دو طرفہ معاہدے کی خلاف ورزی کرتے چین،بھارت سرحدکے متنازع علاقے لداخ میں سڑکوں کی تعمیر کر رہا تھا، اوپر سے مودی سرکار نے بھارتی آئین کی خلاف ورزی کرتے مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت کو تبدیل نہیں کیا، بلکہ لداخ کی متنازع مانی حیثیت کو بھی ختم کرکے بھارتی علاقہ قرار دینے کی جسارت کرکے چوں چرا کئے بغیر چینی محتاط عسکری ردعمل پر اپنے کنٹرول کا بھی کچھ علاقہ اور ایک وادی بغیر احتجاج کھو بیٹھا۔ اس صورت میں پاکستان کے شمالی علاقے سکردو ایئر پورٹ کی ڈویلپمنٹ اور اسے شاد باد کرنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ اس تمام صورتحال کے فالو اپ میں چین، روس قربت بلند درجے پر چلی گئی، کابل حکومت کو دنیا کے تسلیم نہ کرنے کے باوجود روس، چین، پاکستان اور ایران و سعودی عرب اور خلیجی خطے کے روس، سنٹرل ایشیا اور افغانستان سے ایک درجے پر تعلقات استوار کرنے کا راستہ کھل گیا۔ (جاری ہے)

بشکریہ جنگ نیوزکالم