323

 "محبوب علی کرائم کیس (چھٹا / آخری حصہ)"

میجر جنرل (ریٹائرڈ) راشد جاوید صاحب اس وقت لیبیا میں پاکستان کے سفیر ہیں۔ انہوں نے اپنی جتنی بھی مدت ملازمت یہاں گزاری ہے، لیبیا اور بالخصوص طرابلس میں مقیم پاکستانی کمیونٹی کو بہت اچھی طرح معلوم ہے کہ انہوں نے بہت سے پیشہ ور خاندانی چوروں کو گردن سے پکڑ کر نشان عبرت بنایا ہے۔ اس حوالے سے یہ بلاشبہ قابل تعریف و تحسین ہیں۔ یہ بھی سچ ہے کہ ان سے پہلے کسی نے بھی اتنی ہمت سے معاشرے میں موجود ناسوروں کا صفایا نہیں کیا۔ میں جب بھی ان سے ملا ہوں، مجھے ان کی طبیعت میں عاجزی، انکساری اور وضع داری نظر آئی ہے، تاہم اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داری کے معاملے میں یہ ایک انتہائی نڈر، سخت مزاج اور قابل "ایڈمنسٹریٹر" ہیں۔ ہو سکتا ہے ان سے بہت سے لوگ اختلاف بھی رکھتے ہوں، ہر کوئی اپنی رائے دینے کا حق رکھتا ہے، تاہم میں ان کی قابلیت کی دل سے قدر کرتا ہوں۔ میں آج سفیر صاحب سے کچھ اہم سوالات کرنا چاہتا ہوں۔ مجھے امید ہے، یہ ان سوالوں پر ضرور غور کریں گے اور ان کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کریں گے۔ میں ان سوالات کی طرف آتا ہوں لیکن اس سے پہلے قارئین کرام کو بتاتا چلوں کہ اتنی بڑی ٹھوکر کھانے اور اتنا بے عزت ہونے کے باوجود بھی محبوب علی عرف پیشہ ور خاندانی چور اور اس کا چھوٹا چور بھائی مصطفٰی ابھی تک اپنے "کرتوتوں" سے باز نہیں آئے۔ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ محبوب علی لیبیا سے ڈی-پورٹ ہونے کے بعد اللہ رب العزت سے معافی مانگتا، توبہ کرتا، جن لوگوں کے حقوق ہڑپ کیئے ہیں، ان سے رابطہ کرتا، ان سے معافی مانگتا اور ان کی امانتیں لوٹانے کیلئے اخلاص کے ساتھ صدق دل سے کوشش شروع کر دیتا، تاہم اس نے پاکستان جا کر اپنا سارا زور پاسپورٹ حاصل کرنے پر لگایا ہوا ہے، تاکہ پاکستان سے بھاگ سکے اور لوگوں کے حقوق لوٹانے کی ذمہ داری سے جان چھڑا سکے۔ آپ یہ بھی جان لیں کہ پاکستان میں بھی محبوب علی نے لاتعداد لوگوں کے لاکھوں روپے ہڑپ کیئے ہیں اور وہ لوگ محبوب علی سے مسلسل رابطہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، تاہم محبوب علی ان سے چھپ رہا ہے۔ بہت سے لوگوں نے مجھے یہ بھی بتایا کہ محبوب علی نے انہیں کہا ہے کہ "مجھے نوکری سے اسلیئے نکالا گیا کیونکہ میں "پاکستان تحریک انصاف" کا سپورٹر ہوں، جبکہ سفیر صاحب کا تعلق "مسلم لیگ-ن" سے ہے۔ اس وقت پاکستان میں چونکہ "مسلم لیگ-ن" کی حکومت ہے، لہذا مجھے نکال دیا گیا اور "پاکستان تحریک انصاف" کی حکومت دوبارہ آتے ہی میری نوکری بحال ہو جائے گی"۔ محبوب علی کی یہ نئی بکواس سن کر میں نے جواب میں کیا کہا، میں بیان کرنے سے قاصر ہوں، تاہم قارئین کرام بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں۔

دوسری جانب مصطفٰی ترکی بھاگنے کے بعد وہاں میراثی بن گیا ہے اور سڑکوں پر ایسے ناچتا پھر رہا ہے، جیسے کہ اس نے "سلطنت عثمانیہ" فتح کر لی ہو۔ آپ دنیا بھر کے بیغیرت جمع کر لیں، پھر ان سب کو ملا کر ایک بیغیرت بنائیں، تو مصطفٰی بن جائے گا۔ مجھے کسی نے ترکی سے ایک ویڈیو بھیجی، جس میں یہ بیغیرت سوئمنگ پول میں نہا رہا ہے اور مگرمچھ جیسا اپنا بڑا منہ مشرق سے مغرب تک کھول کر ایسے فاتحانہ انداز میں غلیظ دانت نکال رہا ہے، جیسے کہ سکندر اعظم کی اولاد ہو اور پوری دنیا میں جھنڈے گاڑھ کر آیا ہو۔ اس بیغیرت میں اگر رتی برابر بھی شرم اور غیرت ہوتی، تو یہ اسی پانی میں ڈوب کر مر جاتا۔ ویسے اس بیغیرت سے میرا ایک سوال ہے کہ تم ترکی میں یہ عیاشیاں چوری کے کون سے والے مال سے کر رہے ہو ؟ جو میرے "ٹریکٹر ڈیل" کا 25 ہزار ڈالر کمیشن چرایا ہے، ان سے کر رہے ہو ؟ یا جو ریسٹورنٹ والے لیبین اور شامی پارٹنرز کے 1 لاکھ دینار چرائے ہیں، ان سے کر رہے ہو ؟ یا جو "كلية دعوة الإسلامية" میں "کوسوؤو" کا شہری ہے، جس سے تم نے 60 ہزار دینار چرائے ہیں، ان سے کر رہے ہو ؟ یا وہ جو انڈین شہری ہے، اس کے 30 ہزار دینار سے کر رہے ہو ؟ یا پاکستان میں جن لوگوں کو لوٹا ہے، ان کے پیسے سے کر رہے ہو ؟ جواب دو، پوری دنیا جاننا چاہتی ہے۔ یہ تو میں مانتا ہی نہیں کہ کہ تم دونوں بھائیوں نے مل کر 100 لوگوں سے جو لاکھوں دینار چوری کیئے ہیں، ان کا تمہیں حساب معلوم نہ ہو، کیونکہ تم دونوں چوروں کے پاس ایک ڈائری تھی، جس میں باقاعدہ ان تمام لوگوں کے نام درج تھے، جن سے تم نے تعلق رکھا ہوا تھا۔ مجھ سمیت آدھی سے زیادہ پاکستانی کمیونٹی ممبرز کے نام تم نے اس ڈائری میں لکھے تھے اور ہر ایک نام کے سامنے تفصیل لکھی ہوتی تھی کہ فلاں دن، فلاں شخص سے کون سا جھوٹ بولنا ہے اور کس کو کس طرح دھوکہ دینا ہے۔ وہ ڈائری اس وقت تمہارے جس دلال کے گھر طرابلس میں پڑی ہے، میں اسے بھی جانتا ہوں۔ اپنے اس دلال سے کہنا کہ جس طرح پکڑے جانے کے ڈر سے اس نے اپنا موبائل فون توڑ دیا ہے، اسی طرح وہ ڈائری بھی جلا دے۔ ایسا نہ ہو کہ وہ ڈائری میرے ہاتھ لگ جائے اور اگلے دن پوری دنیا اسے پڑھ لے۔

یہ بھی سن لو مصطفٰی میراثی، تم نے جتنا ناچنا ہے ناچ لو، لیکن یاد رکھنا، ترکی بھی اسی زمین اور آسمان کے درمیان ہے۔ تم اللہ رب العزت کی لاٹھی سے بچ نہیں سکتے۔ تمہارا حشر انشاء اللہ تمہارے چور بھائی محبوب علی سے بھی برا اور بدتر ہو گا۔ ذرا سوچو، نہ جانے کتنے بیگناہ اور مظلوم لوگوں کے ہاتھ اللہ رب العزت کے حضور تم دونوں پیشہ ور خاندانی چوروں کو بددعا دینے کیلئے اٹھے ہوں گے ؟ کتنی ماؤں، بہنوں، بیویوں اور بچیوں کی آنسوؤں سے بھری آنکھوں نے آسمان کی طرف دیکھ کر تمہیں بددعائیں دی ہوں گی ؟ تمہیں کیا لگتا ہے، تم اللہ رب العزت کے عذاب سے بچ جاؤ گے ؟ تمہیں اس بیگناہ اور مظلوم لڑکی کی بددعا تو یاد ہو گی، جس سے تم نے نیوزی لینڈ جانے کے لالچ میں شادی کر کے اس کی زندگی برباد کر دی ؟ تم اس کو لیبیا لا کر مارتے، پیٹتے رہے، جیسے کہ تم نے اسے بازار سے خریدا ہو۔ جب تشدد سے تنگ آ کر اس نے تم سے طلاق مانگی تو اس دن بھی تم دونوں بھائیوں نے مل کر اس کو پیٹا تھا۔ تمہیں یاد ہے بیغیرت کے بچے ؟ کیا تم نے طرابلس میں رہنے والی پاکستانی کمیونٹی کو بتایا ہے کہ اس مظلوم بچی نے پاکستان جاتے وقت تم دونوں پیشہ ور خاندانی چوروں کو کیا بددعا دی تھی ؟ میں بتا دیتا ہوں۔ اس نے کہا تھا، "مصطفٰی یاد رکھنا، ایک دن تم دونوں بھائیوں کے منہ پر لوگ پتھر ماریں گے۔ تم دونوں اپنا منہ چھپانا چاہو گے، لیکن تمہیں منہ چھپانے کی جگہ نہیں ملے گی"۔ دیکھ لو، آج وہ دن آ گیا ہے، کیونکہ مظلوم کی بددعا براہ راست اللہ کے عرش تک جاتی ہے، لیکن تمہیں ان باتوں کی کیا پرواہ، تم تو اللہ کو جانتے بھی نہیں کہ وہ عظیم الشان رب کون ہے، نہ ہی اس سے ڈرتے ہو۔ تم تو 100 زندگیاں برباد کرنے کے بعد ترکی میں میراثی بن کر الٹا اس طاقتور رب کو چیلنج کر رہے ہو۔ نَعُوْذُ بِاللهِ مِنْ ذٰلِكَ۔ بہرکیف، انشاء اللہ وہ عظیم الشان مالک تمہیں دیکھ لے گا۔

میں سفیر صاحب کی طرف آتا ہوں۔ محترم سفیر صاحب، آپ نے جن پاکستانی شہریوں کو جیل سے رہا کروایا، ان کی باقاعدہ لسٹ تیار ہوئی تھی۔ اس لسٹ میں ان 27 پاکستانی شہریوں کے نام کیسے آ گئے، جن سے محبوب علی نے 1 لاکھ 10 ہزار دینار کی ڈیل کی تھی ؟ کیا یہ محض اتفاق تھا ؟ اس کا جواب ہے، بالکل بھی نہیں۔ اگر یہ اتفاق نہیں تھا، تو پھر آپ کے کس ملازم نے محبوب علی کے کہنے پر ان 27 پاکستانی شہریوں کے نام اس لسٹ میں شامل کیئے ؟ محبوب علی کے پکڑے جانے کے بعد یہ سوالات یقیناً آپ کے دماغ میں بھی ضرور آئے ہوں گے، تو کیا آپ نے لسٹ تیار کرنے والے ملازم اور باقی ملازمین کو بلا کر ان سے یہ سب پوچھا تھا ؟ آپ نے اپنے جس ملازم سے وہ لسٹ بنوائی تھی، اس کا نام کیا ہے ؟ آپ کو کیا لگتا ہے کہ محبوب علی اکیلا اس سارے معاملے میں ملوث ہے ؟ کیا وہ اکیلا یہ سب کر سکتا تھا ؟ بالکل بھی نہیں محترم سفیر صاحب، میں سو فیصد یقین سے کہتا ہوں، محبوب علی کے ساتھ آپ کی ایمبیسی کے اندر، باہر، سکول کے اور کمیونٹی کے بہت سے لوگ ملے ہوئے ہیں۔ آپ کے پاس طاقت ہے، اختیار ہے، آپ سے التماس ہے، اپنی خاص نگرانی میں اس معاملے کی کڑی چھان بین کروائیں، آپ نتائج جان کر حیران رہ جائیں گے۔ آپ کو بالکل بھی اندازہ نہیں ہے کہ آپ کس قماش کے لوگوں کے بیچ رہ رہے ہیں۔ آپ کو ان کی اصلیت معلوم ہی نہیں ہے، ان کی اصلیت میں جانتا ہوں، کیا مرد اور کیا عورتیں، ان سب کی رگ، رگ سے میں واقف ہوں۔ یہ اپنے مطلب کیلئے اپنی سگی ماں تک کو بیچ ڈالتے ہیں، انسانوں کی سمگلنگ کرنا ان کیلئے کیا حیثیت رکھتا ہے ؟ آپ ایک اچھے اور قابل "ایڈمنسٹریٹر" ہیں، میں آپ سے گزارش کرتا ہوں، اپنی قابلیت کا بھرپور استعمال کریں اور اس غلیظ اور مکروہ دھندے میں جتنے بھی لوگ ملوث ہیں، ان کو گردن سے پکڑ کر طرابلس کی سڑکوں پر ایسا کھینچیں کہ ان کی آنے والی 10 نسلوں کو آپ خواب میں بھی نظر آئیں۔ آپ کی طرح طاقت اور اختیار میرے ہاتھ میں ہوتا تو یہ پورا لیبیا دیکھتا کہ میں ان کے ساتھ کون سا عمل کرتا۔ چونکہ میرے ہاتھ میں آپ جتنی طاقت اور اختیار نہیں ہے، لہذا آپ سے درخواست ہے کہ اس معاملے کو اتنی آسانی سے مت جانے دیں۔ اللہ رب العزت نے آپ کو اپنے مخلوق کی بھلائی کا ایک سنہری موقع دیا ہے، اس کا بھرپور فائدہ اٹھائیں اور انسانیت کے دشمنوں کو نشان عبرت بنا دیں۔ یقین جانیئے سفیر صاحب، ہزاروں مظلوم اور بےبس لوگ جولیاں پھیلا کر آپ کو صدق دل سے دعائیں دیں گے۔ میں امید رکھتا ہوں کہ جو کچھ میں نے کہا ہے، آپ ضرور اس پر اپنی پیشہ ورانہ سنجیدگی دکھائیں گے۔

قارئین کرام، اللہ رب العزت کا حرام کی کمائی کے حوالے سے ایک بڑا واضح اور سیدھا قانون ہے۔ آپ تھوڑی دیر کیلئے محبوب علی عرف پیشہ ور خاندانی چور اور اپنے ارد گرد موجود اس جیسے باقی حرام خور چوروں کی زندگیوں کا مشاہدہ کر لیں، آپ کو رب کریم کا یہ قانون پوری طرح لاگو ہوتا ہوا نظر آئے گا۔ حرام کی کمائی سب سے پہلے انسان کے ایمان پر وار کرتی ہے اور وہ ایمان سے عاری ہو جاتا ہے۔ جب ایمان نہیں رہتا تو حیاء، رحم دلی، انصاف، اور اللہ کے بندوں کا دکھ، درد سمجھنے جیسے اوصاف خو بخود جاتے رہتے ہیں اور پھر وہ انسان ایک خونخوار جانور میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ ظلم کرنا اس کی عادت بن جاتی ہے۔ یہ جائز اور ناجائز، چھوٹے اور بڑے، امیر اور غریب، مرد اور عورت، اپنے اور پرائے، اچھے اور برے کی تمیز کھو دیتا ہے۔ اسے بالکل پرواہ نہیں ہوتی کہ کسی کا گھر اجڑتا ہے، کسی کی زندگی برباد ہوتی ہے یا کسی کے بیوی بچوں کی زندگی خاک میں ملتی ہے۔ حتیٰ کہ کوئی مرتا بھی ہے تو یہ کہتا ہے کہ بیشک آج ہی مر جائے، بس اسے حرام کا مفت پیسہ ملتا رہے۔ چونکہ میرا رب ظلم کو سخت ناپسند کرتا ہے، لہذا اپنے بیگناہ بندوں پر ناروا اور بلاوجہ ظلم ہوتا دیکھ کر وہ عظیم الشان رب اس حرام خور انسان کو دنیا اور آخرت دونوں جگہ سزا دینے کا فیصلہ کر لیتا ہے۔ حرام کھانے والے کو سب سے پہلے اللہ رب العزت اپنی عبادت سے غافل کر دیتے ہیں۔ دعا اور ذکر جیسی نعمتیں اس سے چھن جاتی ہیں۔ اس کے جسم میں بدبو پیدا ہو جاتی ہے۔ اسے اور اس کے اہل خانہ کو مشکلات، حادثات، آفات، بلائیں اور طرح طرح کی بیماریاں آ  گھیرتی ہیں۔ وسوسے اور وہمات اس کے عمر بھر کے ساتھی بن جاتے ہیں اور ہر گزرتے دن کے ساتھ اس کی مشکلات میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ اگرچہ یہ زیادہ مال خرچ کرتا ہے، تاہم حرام کا مال ہونے کے سبب اللہ پاک اس میں سے برکت اٹھا لیتے ہیں اور اس مال کا فائدہ نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ ساری سہولتیں حاصل کرنے کے باوجود نہ اسے دن کو سکون میسر آتا ہے اور نہ رات کو سکون سے سو پاتا ہے۔ مذید برآں، اللہ پاک اسے کسی ایسے کام یا مشغلے میں الجھا دیتے ہیں کہ جو کچھ بھی اس نے حرام کا کمایا ہوتا ہے، وہ پلک جھپکتے ہی اس کے ہاتھ سے چلا جاتا ہے اور اسے سمجھ تک نہیں آتی کہ آخر اس کے ساتھ ہوا کیا ہے ؟ اس کے بعد یہ جب تک زندہ رہتا ہے، در بدر ذلیل و رسوا ہوتا رہتا ہے اور آخر میں اس کا خاتمہ بہت ہی برے طریقے سے ہوتا ہے۔ بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی۔ مرنے کے بعد اس کو برے القابات سے نوازا جاتا ہے، اس کی برائی کی جاتی ہے، اس کو بددعائیں دی جاتی ہیں، قبر میں اسے شدید ترین عذاب ہوتا ہے اور آخرت میں اس کا حشر ظالموں اور جابروں کے ساتھ لکھ دیا جاتا ہے۔ أَسْتَغْفِرُ اللَّہَ الَّذِی لاَ إِلَہَ إِلاَّ ہُوَ الْحَیُّ الْقَیُّومُ وَأَتُوبُ إِلَیْہِ۔

اس کے برعکس حلال کمانے اور کھانے والے پر دنیا و آخرت میں اللہ رب العزت کے احسانات، نوازشات اور رحم و کرم کی بھرمار ہوتی ہے۔ سب سے پہلے اللہ پاک اسے ایمان کی تازگی اور مضبوطی سے نوازتے ہیں۔ اپنی عبادت اور ذکر و اذکار کی توفیق دے کر اسے اپنے قریب کر لیتے ہیں۔ مخلوق سے بے نیاز کر دیتے ہیں۔ اسے دعائیں مانگنے کا سلیقہ اور طریقہ سکھا دیتے ہیں اور اس کی دعا عرش تک جاتی ہے۔ اس کے جسم سے گناہوں کی نحوست ہٹا کر اس میں روحانیت اور پاکیزگی کی مہک بھر دیتے ہیں۔ اس کے چہرے پر چمک پیدا کر دیتے ہیں اور اس کے دل و دماغ کو عجیب سے پرلطف سکون اور طمانیت سے بھر دیتے ہیں۔ اگرچہ اس کے پاس مال بہت تھوڑا ہوتا ہے، تاہم اللہ رب العزت اپنے خاص فضل و کرم سے اس تھوڑے مال میں برکت ڈال کر اسے پہاڑ جتنا کر دیتے ہیں، جس کی بدولت یہ اس مال کا دس گناہ فائدہ حاصل کرتا ہے۔ مشکلات، پریشانیوں، آفات، بلاؤں، مصیبتوں اور بیماریوں سے اللہ پاک اس کو اور اس کے اہل خانہ کو محفوظ رکھتے ہیں اور جہاں کہیں بھی کوئی چھپ کر اس پر وار کرنے کی کوشش کرتا ہے یا اسے کسی قسم کا نقصان پہنچانا چاہتا ہے، اللہ رب العزت اپنے خاص فضل و کرم سے اسے بچا لیتے ہیں اور ہر قسم کے دشمن کے مقابلے میں اس کی غیبی مدد اور نصرت فرماتے ہیں۔ مذید برآں، دنیا میں حلال کمانے کی وجہ سے یہ جتنی بھی تکلیف اور تنگی برداشت کرتا ہے، اللہ پاک اس کے بدلے میں اس کیلئے اجر و ثواب اور نیکیاں لکھتے رہتے ہیں۔ یہ جب تک زندہ رہتا ہے، آسمان، زمین، حتیٰ کہ پانی کے اندر رہنے والی تمام مخلوقات اس کیلئے مغفرت کی دعا کرتی رہتی ہیں۔ مرنے کے بعد لوگ اسے اچھے القابات سے نوازتے ہیں اور اچھے نام سے یاد کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں، قبر میں اللہ پاک اس پر سوال و جواب آسان فرما دیتے ہیں اور آخرت میں اس کو سب سے بڑا انعام یعنی جنت عطاء فرماتے ہیں۔

ایسا نہیں ہے کہ اللہ رب العزت کے یہ انعامات اور اس کی یہ رحمتیں صرف ان لوگوں کیلئے مختص ہیں، جو شروع سے حلال کماتے اور کھاتے ہوں۔ رب کریم کی ذات بہت غفور و رحیم ہے۔ وہ ان انعامات اور رحمتوں سے انہیں بھی نوازتا ہے، جو اپنے گناہوں سے توبہ کر لیتے ہیں اور راہ راست پر آ جاتے ہیں۔ کوئی بھی گنہگار انسان اگر توبہ کر لے، لوگوں کے حقوق واپس لوٹا دے اور جن کے ساتھ ذیادتی کی ہو، ان سے معافی مانگ لے، تو اللہ رب العزت بھی اسے معاف فرما دیتے ہیں اور اس کی دنیا اور آخرت سنور جاتی ہے۔ تاہم اگر یہ توبہ نہیں کرتا اور اپنے "کرتوت" جاری رکھتا ہے، تو پھر اللہ پاک کے ہاں اس کیلئے کوئی معافی نہیں ہے، بلکہ وہ سزا اور عذاب ہے، جو میں بیان کر چکا ہوں۔ یاد رکھیئے، توبہ کرنے کیلئے تین شرائط ہیں۔ اول، توبہ سچے دل سے کی جائے۔ دوم، جس گناہ سے توبہ کی جائے، اس پر ندامت ہو۔ سوم، جس گناہ سے توبہ کی جائے، اسے دوبارہ نہ کرنے کا اللہ سے عہد ہو۔ ان تینوں میں سے کوئی بھی ایک شرط پوری نہ ہو تو توبہ قبول نہیں ہوتی۔ اللہ رب العزت مجھے اور آپ سب کو سچے دل سے توبہ کرنے کی توفیق عطاء فرمائے۔ اپنی ہر حاجت کیلئے ہم ہر پل اس مالک کے محتاج ہیں اور ہمیشہ رہیں گے۔ اگر اس نے اپنے فضل و کرم سے ہمیں بخش دیا تو ہمارا بیڑا پار ہے، ورنہ یقین جانیئے، ہمارے دامن میں ایسا کچھ بھی نہیں، جس سے وہ مالک راضی ہو جائے۔ بقول علامہ محمد شہزاد مجددی،

جرم میرے ہزار، يا غفّار۔
رحم تیرا شعار، يا غفّار۔

میں ہوں ایک عبد بے نوا تیرا۔
تو ہے پروردگار، يا غفّار۔

تیری رحمت سے آبرو میری۔
تیری رحمت سے ہے میرا وقار، يا غفّار۔

عاجزی عبد کا لبادہ ہے۔
کبر تیرا ازار، يا غفّار۔

مطلع جاں سے اب اتار ہی دے۔
خواہشوں کا غبار، یا غفّار۔

میں ہوں بیم و رجا کی کشتی میں۔
پار مجھ کو اتار، یا غفّار۔


وقار احمد خان۔


 

بشکریہ اردو کالمز