دو ناموں والی جماعت (سنّی اتحاد کونسل، پی ٹی آئی) کے رہنما عمر ایوب نے کہا ہے کہ 21 اپریل کے ضمنی انتخابات میں بہت زیادہ دھاندلی کی گئی۔ ثبوت کے طور پر انہوں نے بعض جونیئر افسروں کا یہ بیان (بقول ان کے) پیش کیا کہ پولیس کی وردیوں میں حساس ایجنسیوں کے ملازم پولیس ڈیوٹی دے رہے تھے۔
زبردست ثبوت ہے۔ پولیس کی وردیاں پہن کر دوسرے اداروں کے لوگ پولیس کی ڈیوٹی کر رہے تھے، یہ دھاندلی نہیں تو کیا ہے لیکن پولیس ڈیوٹی کے دوران انہوں نے اندر جا کر کیا جعلی ووٹ بھی ڈالے تھے۔؟۔ بظاہر یہ دھاندلی ’’وردی کے ساتھ چھیڑ چھاڑ والی دھاندلی تھی، اس کا انتخابی دھاندلی سے تعلق جوڑنا اسی قسم کی کوشش ہو گی جیسے کوئی فیلڈ مارشل ایوب خاں کو تحریکِ پاکستان کا ’’قائد‘‘ ثابت کرنے کی کوشش کرے۔
_____
پی ٹی آئی سنّی کونسل کے رہنما 21 اپریل کے ضمنی الیکشن کو دھاندلی قرار دینے کی مہم چلا تو رہے ہیں لیکن مہم چلتی نظر نہیں آ رہی، پھیکی پھیکی سی لگ رہی ہے۔ وجوہات دو بتائی جا رہی ہیں۔ ایک یہ کہ دھاندلی کا کوئی ثبوت انہوں نے ابھی تک میڈیا کے سامنے نہیں رکھا ہے، شاید سستی کی وجہ سے اور دوسری یہ کہ میڈیا پرسنز کی 70 فیصد اکثریت گو ابھی تک پی ٹی آئی کا ساتھ دے رہی ہے لیکن اس بار لگتا ہے کہ ان پر بھی ’’بے دلی‘ کی کیفیت طاری ہے۔ پتہ نہیں مطالبات زر والے معاملات میں کوئی فنّی خرابی آ گئی ہے یا دبئی میں مقیم، ملک کے مایہ ناز پراپرٹی ڈان نے ہاتھ روک لیا ہے، چاہے عارضی طور پر ہی سہی۔
یاد آیا، الیکشن کی صبح تک مین سٹریم الیکٹرانک میڈیا کے 70 فیصد اینکر پرسنز اور تجزیہ نگار یہ ماحول بنانے میں جتے رہے کہ گریٹ خاں جس کھمبے کو ٹکٹ دے گا، وہ جیت جائے گا۔
ہوا یہ کہ پنجاب اور سندھ میں تو جتنے بھی کھمبے کھڑے کئے تھے، سب کے سب منہ کے بل آ گرے لیکن اس سے بھی بڑھ کر یہ ماجرا ہوا کہ پی ٹی آئی کی ’’ماتر بھومی‘‘ کے پی" میں باجوڑ کی سیٹ پر جو ارب پتی کھمبا گریٹ خاں نے کھڑا کیا تھا، وہ بھی کوئی 40 ہزار کی لیڈ سے ہار گیا اور ایک ناہنجار غریب غربا جیت گیا۔ یہ ناہنجار تمام سرکاری کوششوں کے باوجود دستبردار ہونے کیلئے تیار نہ ہوا حالانکہ بلیک لیبل اسلامی شہد فیکٹری نے اسے سنگین نتائج کی دھمکیاں بھی دی تھیں۔
کھمبوں نے 70 فیصد اینکرز کے ’’دعوے‘‘ کی لاج نہ رکھی، 70 فیصد اینکرز پر چھائی بے دلی کی یہ تیسری وجہ ہو سکتی ہے (دو ممکنہ وجوہات کا ذکر اوپر آ چکا۔
_____
مسلم لیگ کے رہنما رانا ثناء اللہ نے ایک ٹی وی پروگرام میں اپنی ہی جماعت کے رہنما جاوید لطیف کو چیلنج کر ڈالا کہ اگر ان کے پاس اپنے دعوئوں کا کوئی ثبوت ہے تو پیش کریں۔
جاوید لطیف کے دعوئوں کا خلاصہ کچھ یوں ہے کہ لیگ کے بہت سے مضبوط امیدوار ہارے نہیں، انہیں ’’بائی ڈیزائن‘‘ ہرایا گیا اور اس ’’بائی ڈیزائن‘‘ میں بھاری مالیت کے مطالبات زر کا بھی عمل دخل تھا۔
رانا ثنا صاحب کے چیلنج کے حوالے سے ایک باخبر لیگی نے راقم کو بتایا کہ جاوید لطیف کے پاس ثبوت موجود نہیں ہیں اور وجہ یہ ہے کہ ثبوت انہیں صرف دکھائے گئے، ان کے پاس رکھوائے نہیں گئے۔ انہیں ثبوت کس نے دکھائے؟ یہ معلوم کرنے کیلئے رانا ثنا کو ’’جاتی عمرہ‘‘ جانا ہو گا۔ ویسے ذرائع کا کہنا ہے کہ جن حضرات کو ثبوت دکھائے گئے، ان میں خود رانا صاحب بھی شامل ہیں۔
جہاں تک ’’بائی ڈیزائن‘‘ والی بات کا تعلق ہے تو ایک صاحب کی فون کال یاد آ گئی جو انہوں نے الیکشن سے قبل راقم کو کی تھی۔ انہوں نے فون پر پوچھا کہ آپ بلاول بھٹو کے خطابات پر غور کر رہے ہیں؟ وہ اپنے ہر جلسے میں چاہے وہ تھرپارکر میں ہو یا سکھر میں، مسلسل ایک ہی بات دہرا رہے ہیں کہ کچھ بھی ہو، نواز شریف کو کسی صورت وزیر اعظم نہیں بننے دوں گا۔ البتہ شہباز بن جائیں تو اعتراض نہیں۔ اس کا کیا مطلب ہے۔ عرض کیا، وہ نواز کو ناپسند کرتے ہیں اور شہباز کو مطلوب گردانتے ہیں، اس لئے ایسے خطابات کر رہے ہیں۔ فون کال کرنے والے نے کہا کہ نہیں، نہ تو وہ اپنے پسند ناپسند کے جذبات اظہار کر رہے ہیں نہ کسی سے کوئی مطالبہ کر رہے ہیں، وہ اپنے خطابات کے ذریعے عوام کو ایک خبر دے رہے ہیں۔
کون سی خبر؟ پوچھا تو کہنے لگے کہ یہ خبر کہ کہیں نہ کہیں فیصلہ بھی ہو چکا ہے اور انتظام بھی کہ مسلم لیگ کو سادہ اکثریت نہیں لینے دی جائے گی۔ اس کال کے اختتام پر انہوں نے پنجاب کی نگران حکومت کی خفیہ کارکردگی کو قابلِ تحسین بھی قرار دیا۔
_____
پیپلز پارٹی کے پاکپتن شریف گروپ کے غیر اعلانیہ سربراہ بیرسٹر اعتزاز احسن نے مطالبہ کیا ہے کہ نواز شریف اپنی لاہور والی سیٹ سنّی کونسل کی ڈاکٹر راشد کو سونپ دیں۔ یعنی یہ سیٹ چھوڑ دیں۔
ان کا مطالبہ قابل تعریف ہے لیکن اس پر تبصرہ مقصود نہیں۔ دراصل کافی دنوں کے بعد آپ غزل سرا ہوئے ہیں چنانچہ سینٹ الیکشن سے قبل کا ایک ٹی وی پروگرام یاد آ گیا جس میں لطیف کھوسہ کوئی خبر د ے رہے تھے تھے اور اس خبر پر ٹی وی کی خاتون اینکر حیرانی ظاہر کر رہی تھیں۔
خبر کے مطابق ، کھوسہ صاحب نے بتایا کہ اعتزاز نے سینٹ کا ٹکٹ لینے کیلئے بلاول بھٹو سے رجوع کیا تو بلاول نے کہا، ٹکٹ انہی سے لو جن کے کنٹینر پر تم کھڑے رہتے تھے یعنی انکار کر دیا۔
کھوسہ کے اس انکشاف پر خاتون اینکر نے تقریباً چیختے ہوئے اپنی حیرت ان الفاظ میں ظاہر کی کہ ’’یعنی بلاول نے اعتزاز احسن کو دھتکار دیا…‘‘۔ جواب میں کھوسہ نے فلک شگاف قہقہ لگایا۔
کچھ ہی ہفتے پہلے تک اعتزاز احسن صاحب کھوسہ صاحب کا ضمیمہ سمجھے جاتے تھے، اب شاید وہ ضمیمہ نہیں۔ حیرت اس بات پر ہے کہ کھوسہ صاحب کو اپنے سابق یا سبکدوش ضمیمے کی حالت زار پر اتنا اونچا قہقہہ لگانے کی کیا ضرورت تھی، وہ درمیانی آواز سے بھی تو ہنس سکتے تھے…
225