اسپیڈ اور ایکشن میں مقابلہ

ہالی وڈ نے 1994 میں فلم دی اسپیڈ بنائی تو وہ سپر ہٹ ہوئی۔ اس کے بعد اگر کوئی اسپیڈ مشہور ہوئی تو وہ شہباز اسپیڈ تھی۔ اس اسپیڈ نے ایک مدت تک پنجاب پر راج کیا۔اس اسپیڈ کو پہلی بریک شہباز شریف کے پی ڈی ایم کے وزیراعظم بننے پر لگی۔

پی ڈی ایم حکومت ختم ہونے کے بعد نگران حکومتیں بنانے کا وقت آیا تو وزیراعظم شہباز شریف اور ان کے ’’دبنگ‘‘ اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض کی مشاورت سے سید محسن نقوی کو پنجاب کا نگران وزیراعلیٰ بنا دیا گیا۔

انھوں نے پنجاب کے طویل ترین دورانیہ تک وزیراعلیٰ رہنے کا ریکارڈ بنا دیا۔ نقوی صاحب نے اس دور میں فلائی اوور‘ انڈرپاسز اور سڑکوں کی تعمیر‘ مرمت اور تزئین وآرائش کا بیڑہ اٹھایا تو اس تیزی سے کام کرنا شروع کیا کہ لوگ شہباز اسپیڈ کو بھول گئے اور انھوںنے نگران وزیراعلیٰ کو نیا نام محسن اسپیڈ دے دیا۔

یہ نام برانڈ تب بنا جب شہباز اسپیڈ نے محسن اسپیڈ کو سپیریئر قرار دے دیا۔ اس کے بعد وہی ہوا جو ہونا چاہیے تھا۔ لوگ شہباز اسپیڈ بھول گئے اور انھیں محسن اسپیڈ یاد رہ گئی۔ محسن اسپیڈ کا یہ عالم تھا کہ ان کے دور میں تعمیر شدہ انڈر پاسز کی اچھی بھلی ٹائلیں اکھاڑ کر نئی لگا دی گئیں۔ اس اسپیڈ کو روکنا کسی کے بس میں نہیں تھا۔

شہباز شریف سوچتے تو ہونگے کہ انھوں نے اپنا برانڈ محسن نقوی کے حوالے کیوں کر دیا۔ ایک بار کسی برانڈ نے دوسرے کی جگہ لے لی تو پھر پہلے والے برانڈ کی واپسی ممکن نہیں ہوتی۔ اسپیڈ کے برانڈ کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ اس کے مالکانہ حقوق اب محسن نقوی کے پاس ہیں۔ وہ پنجاب سے مرکز میں جا چکے ہیں ۔ لیکن یہ برانڈ انھی کے قبضہ قدرت میں ہے۔

محسن اسپیڈ اب وزارت داخلہ اور پاکستان کرکٹ بورڈ میں اپنے رنگ دکھا رہی ہے۔ نقوی صاحب کے مخالفین انھیں طاقت کا سرچشمہ اور سپر وزیراعظم تک قرار دے رہے ہیں۔ اسپیڈ کا یہ برانڈ اپنے پورے جوبن پر ہے اور حاسدوں کی تنقید اس کی رفتار کم نہیں کر سکتی۔ یہی کہا جا سکتا ہے کہ محسن تیری رفتار سے جلتا ہے زمانہ۔ حالانکہ مخالفین یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ ’’توں لنگ جا ساڈی خیر اے‘‘۔

نون لیگ کے چھوٹے قائد اور وزیراعظم شہباز شریف نے چونکہ خوش دلی سے اپنا برانڈ محسن نقوی کے ساتھ جوڑ دیا تھا اس لیے سعودی وزراء نے انھیں نیا برانڈ دے دیا ہے۔ عالمی اقتصادی فورم کے خصوصی اجلاس میں شرکت کے لیے وزیراعظم سعودی عرب میں موجود تھے۔ میزبان وزیروں نے ان سے ملاقات کے دوران انھیں پرائم منسٹر آف ایکشن قرار دے دیا۔ گزشتہ صدی کا ایک واقعہ یاد آ گیا جب وہ پہلی بار پنجاب کے وزیراعلیٰ بنے تھے۔

شہباز شریف دورہ چین پر گئے تو وہاں انھیں جرنیل کا خطاب دیا گیاتھا۔ ان کے چینی میزبانوں نے کہا تھا کہ وہ جرنیلوں کی طرح مضبوط اور محنتی ہیں۔ یہ غالباً 1997یا 1998 کی بات ہے۔ شعیب بن عزیز کو درست تاریخ یاد ہو گی۔ جیسے محسن نقوی کے پاس پنجاب کے طول ترین نگران وزیراعلیٰ کا اعزاز ہے اسی طرح شہباز شریف کے پاس صوبے کے طویل ترین منتخب وزیراعلیٰ رہنے کا اعزاز حاصل ہے۔

وہ گیارہ سال تک پنجاب کے حکمران رہے ہیں۔ شہباز شریف صاحب کو پرائم منسٹر آف ایکشن کا نیا برانڈ مبارک ۔ ان سے درخواست ہے کہ وہ یہ نیا برانڈ اب کسی کے حوالے نہ کریں۔ بھائی جان کی بات اور ہے کؤنکہ وہ تو حکم دے کر بھی ان سے یہ برانڈ لے سکتے ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے وہ پارٹی کی صدارت دوبارہ لے رہے ہیں۔ اور ان کے قریبی ساتھؤںنے یہ کہنا بھی شروع کر دیا ہے کہ ن لیگ کے قائد جب چاہیں وزیراعظم کا منصب سنبھال سکتے ہیں۔

شہباز شریف صاحب کا مسئلہ یہ ہے کہ انھیں اسٹیبلشمنٹ کی خواہشات کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ بھائی جان کا کوئی حکم وہ ٹال نہیں سکتے۔ اپنے اتحادؤں خاص طور پر پیپلزپارٹی کو ناراض کرنے کا خطرہ بھی مول نہیں لے سکتے۔ ان کے وزیر‘ مشیر بھی کوئی نہ کوئی فرمائش ڈال دیتے ہوں گے۔ اسے بھی پورا کرنا پڑتا ہے۔

یہ ماننا پڑے گا کہ شہباز اسپیڈ کے دن سہانے تھے۔ ان کے حالات بالکل اس نوجوان جیسے تھے جس سے کسی نے پوچھا تھا شادی سے پہلے تم کیا کرتے تھے‘ اس کا جواب تھا جو دل چاہتا تھا کرتا تھا۔ محسن اسپیڈ کے حالات بھی اس نوجوان جیسے تھے بلکہ اب بھی ہیں۔

نیا برانڈ پرائم منسٹر آف ایکشن دوسری بار وزارت عظمیٰ لینے میں ضرور کامیاب ہوئے ہیں لیکن ان کے لیے حالات انتہائی مشکل ہیں۔ وہ پی ڈی ایم کی 16ماہ کی حکومت میں وزیراعظم کے منصب پر فائز ہوئے تو اتحادؤں کے مطالبات پورے کرنے اور ’’ریاست بچانے‘‘ میں مصروف رہے۔ اب یہ عہدہ سنبھالا ہے تو اسٹیبلشمنٹ ‘ اتحادؤں خاص طور پر پیپلز پارٹی کی توقعات پر پورا اترنے کا چیلنج درپیش ہے۔

ساتھ ساتھ بڑے بھائی اور قائد کی فرمائشیں پوری کرنے کا ٹاسک الگ سے مشکلات پیدا کر رہا ہے۔ قائد کے سمدھی اسحاق ڈار جنھیں وزیر خزانہ نہیں بننے دیا گیا تھا پہلے وزیر خارجہ بن گئے اور پھر انھیں ڈپٹی پرائم منسٹر بنانا پڑ گیا۔

تازہ ترین انٹری رانا ثناء اللہ کی بطور سیاسی مشیر ہوئی ہے۔ قائد جلد ن لیگ کے صدر بھی بن جائیں گے۔ پنجاب پہلے ہی ان کی بیٹی کے پاس ہے۔ قائد اپنی اور پارٹی کی غیر مقبولیت کو قبولیت کے بجائے مقبولیت میں تبدیل کرنے کی کوششوں کا آغاز کر چکے ہیں۔ جیسے جیسے ان کی گرفت مضبوط ہوتی جائے گی شہباز  شریف کے لیے مسائل بڑھتے جائیں گے ۔ ان کی حکومت ویسے بھی بیساکھؤں پر کھڑی ہے۔ ان کے لیے حالات کچھ ؤں ہونے جا رہے ہیں کہ

درد بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی

چھوٹے قائد بھی سوچتے ہونگے ’’اسپیڈ‘‘ کا دور بہترین تھا۔ وہ پورے اختیارات کے ساتھ آزادی سے کام کر سکتے تھے۔ یہ اختیارات اور آزادی اب محسن اسپیڈ کے نصیب میں ہے۔ کہا جا سکتا ہے تو بس اتنا کہ ’’اسپیڈ‘‘ اپنے کنٹرول میں تھی اور ’’ایکشن‘‘ دوسروں کے رحم و کرم پر ہے۔ اور کہیں ایسا نہ ہو کہ اسپیڈ ایکشن کوکھا جائے؟ وطن عزیز میں کچھ بھی ممکن ہے۔

بظاہر اسپیڈ کا دور گزر چکا‘ یہ دور ایکشن کا ہے لیکن اصل فرق ڈائریکٹر کا ہوتا ہے۔ یہ اختیار صرف ڈائریکٹر کے پاس ہوتا ہے کہ وہ جس کا چاہے کردار بڑھا دے اور جس کا چاہے رول کم کر دے۔ دیکھتے ہیں اسپیڈ اور ایکشن کے بظاہر یک طرفہ مقابلے میں جیت کس کی ہوتی ہے؟

بشکریہ روزنامہ آج