257

علامہ اقبال بحیثیت طالب علم اور استاد (آخری قسط)

پچھلے کالم میں علّامہ اقبال کے زمانۂ طالب علمی اور گورنمنٹ کالج لاہور اور کیمبرج یونیورسٹی میں ان کے اساتذہ کا ذکر کیا گیا تھا۔ مگر کئی قارئین نے لکھا کہ شاعرِ مشرق کے اساتذہ کا ذکر ہو اور سیّد میر حسن کا ذکر نہ ہو تو بات نامکمل رہتی ہے۔لہٰذا آج کے کالم کا آغاز ہی سیّد میر حسن کے ذکر سے کررہا ہوں۔

علّامہ اقبالؒ کی ابتدائی طالب علمانہ زندگی پر سیّد میر حسن کی شخصیت نے گہرے نقوش ثبت کیے۔ ڈاکٹر جاوید اقبال کے بقول سیّد میر حسن ایک روشن فکر صاحبِ علم تھے جو وہ علومِ اسلامی کے علاوہ جدید علوم، ادبیات، لسانیات اور ریاضیات کے بھی ماہر تھے، وہ اپنے شاگردوں میں اردو، فارسی اور عربی کا صحیح لسانی ذوق پیدا کردیتے تھے۔

انھوں نے اسکاچ مشن اسکول سیالکوٹ میں اقبال کو عربی، فارسی اور اردو ادبیات اور علم وحکمت کی تعلیم دی۔ علّامہ کی شخصیت کی سادگی، قناعت، استغناء اور ظرافت سیّد میر حسن کے مزاج کا عکس تھیں۔ وہ جب تک زندہ رہے اقبال ان کی خدمت میں حاضر ہوکر علمی مسائل میں ان سے ہدایت وراہبری لیتے رہے۔ میر حسن کی صحبت نے اقبال کے میدانِ شعر گوئی کو بہت بڑھایا تھا۔ 1889 میں سرسیّد احمد خان نے پنجاب کا دورہ کیا اور کئی مقامات پر تقریریں کیں۔ سرسیّد کو پنجاب میں جن افراد پر اعتماد تھا ،ان میں سیّد میر حسن بھی تھے۔

علّامہ اقبال کی معرکتہ الآراء فارسی تصنیف اسرارِ خودی کا انگریزی میں ترجمہ ہوچکا تھا اور یورپی اسکالر بھی علّامہ کی تبحر علمی کے معترف ہوچکے تھے۔ اس پس منظر میں علّامہ اقبال کو 1923 میں ’سر‘ کے خطاب کی پیشکش کی گئی۔ گورنر پنجاب ایڈورڈ میکلیگن نے ڈاکٹر محمد اقبالؒ کو ایک معروف انگریز صحافی سے ملوانے کے لیے گورنر ہاؤس میں مدعو کیا۔ مذکورہ صحافی نے علامہ اقبال کی علمی اور شاعرانہ حیثیت کا شہرہ سن رکھا تھا، اس لیے وہ ان سے ملاقات کا بے حد خواہشمند تھا۔ ملاقات کے بعد گورنر نے علامہ اقبال سے ’سر‘ کا خطاب قبول کرنے کی درخواست کی۔

علّامہ نے گورنر سے کہا کہ جب تک ان کے استاد سیّد میر حسن کی علمی خدمات کا اعتراف نہ کیا جائے وہ خطاب قبول نہ کریں گے۔ گورنر نے پوچھا کہ سیّد میر حسن کی کوئی تصانیف ہیں؟ اس پر علّامہ اقبالؒ نے جواب دیا کہ سیّد میر حسن کی زندہ تصنیف آپ کے سامنے کھڑی ہے۔ میں خود ان کی تصنیف ہوں۔ چنانچہ علّامہ اقبال کے خطاب کے موقع پر سیّد میر حسن کو بھی شمس العلماء کا خطاب ملا۔ عظیم استاد کے قابلِ فخر شاگرد نے یہ کہا کہ سندِ خطاب کے لیے سیّد میر حسن کو یہاں آنے کی زحمت نہ دی جائے کیونکہ وہ ضعیف العمر ہیں۔ چنانچہ شمس العلماء کی سند ان کے بیٹے نے وصول کی جو اُس وقت گورنر ہاؤس میں ہی میڈیکل آفیسر تھے۔

کیمبرج یونیورسٹی کے ٹرینیٹی کالج میں علّامہ اقبال کو ایک پوسٹ گریجویٹ اسکالر کی حیثیت سے ایڈوانس اسٹوڈنٹ  کے لیے خصوصی قواعد کے تحت بی اے کے امتحان کے لیے مقالہ لکھنے کی اجازت دی گئی اور وہ “The Genesis of Meta-Conceptions in persia”  کے موضوع پر ایک تحقیقی مقالہ لکھنے میں مصروف ہوگئے۔ مقالے کے ضمن میں لوازمے کی فراہمی کے لیے علّامہ اقبال نے 8 اکتوبر کو خواجہ حسن نظامی کو خط لکھ کر بعض استفسارات کیے۔

ٹرینیٹی کالج، کیمبرج یونیورسٹی کا سب سے بڑا اور انگلستان کا ایک ممتاز کالج ہے۔ نیوٹن، بائرن، ٹینی سن اور برٹرنڈرسل نے اسی کالج سے تعلیم حاصل کی ہے۔ کالج کے ڈائننگ ہال میں قدیم طلبہ کی تصویریں آویزاں ہیں۔ ڈاکٹر سعید اختر درانی کی مساعی سے یہاں پاکستان کے نامور مصور گُل جی مرحوم کا بنایا ہوا علّامہ اقبال کا پورٹریٹ بھی وہاں لگایا گیا تھا لیکن پھر نہ جانے کیوں اسے اتار کر کسی حفاظت خانے میں رکھ دیا گیا ہے۔

کیمبرج میں اقبال کو یونیورسٹی کے قابل اساتذہ سے استفادہ کرنے کا موقع ملا۔ وہ اساتذہ کے لیکچروں میں بھی شریک ہوتے اور فرصت کے اوقات میں اُن سے‘ خصوصاً پروفیسر میک ٹیگرٹ (Mc Taggart)  سے تبادلۂ خیال اور بحث ومباحثہ کرتے۔ ان علمی نشستوں کا مقصود بلاشبہ علمی استفادہ تھا۔ فلسفے کے اساتذہ کے علاوہ پروفیسر نکلسن (R.A Nicholson)  ڈاکٹر براؤن (E.G Browne)  جیسے نامور مستشرقین سے بھی اقبال کے روابط قائم ہوئے اور اقبال نے اپنی ذہانت سے سب کو متاثر کیا۔

اساتذہ سے راہ نمائی اور علمی استفادے کے ساتھ اقبال بھی دوسرے ریسرچ اسکالروں کی طرح اپنی تحقیق کے لیے ضروری لوازمے کی تلاش میں مختلف کتب خانوں میں جاتے ہوں گے۔ مقالے کے موضوع سے ہٹ کر بھی وہ مختلف علوم کا مطالعہ کرتے رہتے تھے۔ ایک بار انھوں نے جناب ممتاز حسن کو بتایا کہ جب میں کیمبرج میں تھا تو فلسفے کے ساتھ ساتھ معاشیات کا مطالعہ بھی کیا کرتا تھا اور کبھی کبھی معاشیات کے لیکچر میں بھی شریک ہوتا کہ طبیعت کا توازن قائم رہے۔

کیمبرج میں قیام کے دوران ممکن ہے کہ خود اقبال کو پی ایچ ڈی کرنے کا خیال آیا ہو یا پروفیسر آرنلڈ نے انھیں اس طرف متوجہ کیا ہو۔ممکن ہے اس تجویز میں کیمبرج یونیورسٹی کے بعض اساتذہ کا بھی دخل ہو۔ اس زمانے میں انگلستان میں پی ایچ ڈی نہیں ہوتی تھی۔ کیمبرج یونیورسٹی نے پی ایچ ڈی ڈگری کے قواعد، پہلے پہل، مئی 1921 میں مرتب کیے اور اولّین طالب علم نے اُسی سال داخلہ لیا۔ ذاتی طور پر اقبال جرمنوں کے مدّاح تھے اور کہا کرتے تھے ’’اگر علم کو پختہ کرنا ہے تو جرمنی جاؤ‘‘ ان کے انگلستان کے حلقۂ احباب میں کئی جرمن اسکالر شامل تھے۔

چنانچہ اقبال نے جرمن زبان سیکھنا شروع کردی تھی۔ جس کا آغاز کیمبرج میں ہی ہوگیا تھا۔ اقبال لندن سے براہِ راست میونخ پہنچے اور یونیورسٹی میں درخواست جمع کرادی کہ انھیں “The Development of Meta physics in persia”  کے عنوان سے جرمن یا لاطینی کے بجائے انگریزی زبان میں مقالہ پیش کرنے کی اجازت دی جائے۔

یونیورسٹی نے ان کی درخواست قبول کرلی مگر ساتھ یہ شرط عائد کردی کہ انھیں تین ماہ جرمنی میں رہ کر جرمن زبان سیکھنا ہوگی کیونکہ زبانی امتحان جرمن میں ہوگا۔ چنانچہ وہ میونخ سے ہائیڈل برگ چلے گئے جہاں دریائے نیکر کے کنارے واقع شیرر منزل میں اقامت پذیر ہوئے۔ یہاں انھوں نے جرمن سیکھی۔ میونخ یونیورسٹی کے پروفیسر ہومل نے اقبال کے مقالے پر پروفیسر آرنلڈ کی رائے کا حوالہ بھی دیا۔ آرنلڈ نے اپنی تحریری رائے میں اس مقالے کو ’’فکرِ اسلامی کی تاریخ میں ایک بیش بہا اضافے کے مترادف‘‘ قرار دیا تھا۔

یونیورسٹی کے پانچ پروفیسروں نے ان کا زبانی امتحان لیا اور اپنی رپورٹ میں اقبال کی قابلیّت اور علمی حیثیّت کا کھلے بندوں اعتراف کیا۔ یونیورسٹی نے انھیں جو سند جاری کی اس پر لکھا ہوا ہے کہ یہ سندایک Famous and learned man and exalted person  (معروف عالم فاضل اور قابلِ عزت وافتخار شخص) کو with great praise  (بڑی تعریف کے ساتھ) جاری کی جارہی ہے۔

اس کے بعد اقبال لندن لوٹ آئے۔ 5 نومبر انھوں نے لندن یونیورسٹی میں عربی زبان کے طلبہ کو پہلا لیکچر دیا۔ وہ اپنے استاد پروفیسر آرنلڈ کے قائم مقام کی حیثیّت سے چھ ماہ کے لیے عربی کے استاد مقرر ہوئے تھے۔ یہ مصروفیت ہفتے میں فقط دو لیکچروں تک محدود تھی۔ اقبال کی اہم تر مصروفیت بیرسٹری کے امتحان کی تیاری تھی، ان کے لیے اب لندن میں یہی سب سے اہم کام رہ گیا تھا۔ اس کے بعد برطانیہ میں ہی انھوں نے ’’اسلامی مذہب وتمدن‘‘ کے موضوع پر لیکچرز کا ایک سلسلہ شروع کیا۔ عبداللہ انور بیگ کی روایت ہے کہ پہلے لیکچر کا موضوع تھا “Certain Aspects of islam”  (مذہبِ اسلام کے بعض پہلو) اور یہ لیکچر کیکسٹن ہال میں پان اسلامک سوسائٹی کے زیر اہتمام منعقد ہوا تھا۔

عبداللہ بیگ کے بقول اقبال کے فی البدیہہ لیکچر نے سامعین پر سحر طاری کردیا۔ آخر میں سوال جواب ہوئے۔ اس کی رپورٹ لندن کے متعدد اخباروں میں چھپی تھی۔ یکم جولائی 1908 کو انھیں لنکزان سے بارایٹ لاء کی ڈگری مل گئی۔ ان کے صاحبزادے جاوید اقبال جو تعلیم سات سالوں میں مکمل کرسکے، علامہ اقبال نے وہ یعنی پی ایچ ڈی اور بارایٹ لاء کی ڈگریاں صرف تین سالوں میں حاصل کرلیں۔

علامہ اقبال نے یورپی تہذیب کے مرکز میں رہ کر اس کا قریب سے مشاہدہ کیا تو وہ اس کی مادہ پرستی، نسل پرستی، زعمِ برتری اور بے حیائی سے بدظن ہوگئے اور انھوں نے اسلامی تاریخ، قرآن اور سیرتِ رسولؐ اللہ کا گہرا مطالعہ کیا جس نے ان کی زندگی بدل کر رکھ دی۔ لہٰذا اقبال جب وطن واپس لوٹے تو وہ ایک مغرب زدہ نوجوان نہیں بلکہ بلبلِ باغِ حجاز بن چکے تھے۔

بشکریہ ایکسپرس