کرکٹر یا کمانڈو؟

جب نیٹ پریکٹس کی ضرورت تھی، اپنی خامیوں پر قابو پا کر صلاحیتوں میں نکھار پیدا کرنے کا وقت تھا، ان دنوں قومی کرکٹرز کاکول اکیڈمی میں انتہائی سخت ٹریننگ سے گزر رہے تھے۔ اس دوران کچھ تصویریں اور وڈیوز سامنے آئیں جن سے یہ سمجھ میں آیا کہ کھلاڑیوں کے لیے وہ مشقت ضرورت سے زیادہ سخت تھی۔

اعظم خان نیوزی لینڈ کے خلاف ٹی ٹوئنٹی سیریز شروع ہونے سے پہلے اَن فٹ ہوئے اور محمد رضوان دو میچ کھیلنے کے بعد فٹنس سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ کرکٹ پہلے ہی بہت زیاہ ہو چکی ہے۔ کوئی سیریز ختم ہوتی ہے تو کسی لیگ کا آغاز ہو جاتا ہے، ایک لیگ ختم ہوتی ہے تو دوسری لیگ شروع ہو جاتی ہے۔ یوں یہ سلسلہ سارا سال چلتا رہتا ہے۔ بڑے اور نامور کرکٹرز کو کسی اشتہار کی آفر آ جائے تو اس کی شوٹنگ میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ ان کی فیملی اور سوشل لائف اس سے الگ ہے۔

کسی ادارے کا نیا سربراہ اختیار سنبھالتا ہے تو وہ کچھ نیا کرنا چاہتا ہے کہ سب واہ واہ کریں۔ وہ دنیا کو دکھانا چاہتا ہے کہ اس سے پہلے جتنے لوگ اس ادارے کے سربراہ رہے انھیں تو کام کرنا ہی نہیں آتا تھا۔ کرکٹر رمیز راجہ کے بعد جرنلسٹ نجم سیٹھی آئے مگر اس سے پہلے کہ وہ کوئی بڑا کارنامہ کر پاتے، انڈسٹریلسٹ ذکاء اشرف نے ان کی جگہ لے لی۔ ذکاء اشرف نے بطور چیئرمین پی سی بی اپنے مختصر دور میں سب سے بڑا کارنامہ بابراعظم کو کپتانی سے ہٹا کر انجام دیا۔ ان کا دورانیہ بھی کم مدت کا رہا ورنہ کچھ اور کارنامے بھی ان کے نام کے ساتھ لکھے ہوئے مل سکتے تھے۔

ان کی رخصتی کے ساتھ بی سی بی میں انٹری ہوتی ہے میڈیا ہاؤس کے مالک، سابق نگران وزیراعلیٰ اور وفاقی وزیر داخلہ سید محسن نقوی کی۔ ان کا ایک کارنامہ بابراعظم کو کپتانی پر بحال کرنا ہے جب کہ دوسرا کارنامہ کرکٹرز کی فوجی ٹریننگ قرار پایا ہے۔ نقوی صاحب چونکہ چیئرمین پی سی بی کے ساتھ ساتھ وزیر داخلہ بھی ہیں اس لیے انھوں نے سوچا ہو گا کہ کیوں نہ کرکٹرز کو بھی فوجی تربیت دلوائی جائے تاکہ وہ کسی مشکل وقت میں کسی کمانڈو کی طرح پرفارم کر سکیں۔ وہ صرف ایک بات کو نظرانداز کر گئے کہ ان کھلاڑیوں نے محاذجنگ پر جانا ہے نہ کسی دہشت گرد کا مقابلہ کرنا ہے۔

ان کا مقابلہ کرکٹ کے میدان میں ہونا ہے اور انھوں نے اپنے جیسے کھلاڑیوں سے ہی زورآزمائی کرنی ہے۔ انھیں کھیل کے لیے فٹ نہیں بلکہ سپر فٹ ہونا چاہیے لیکن کمانڈو بنانے کی ضرورت نہیں۔ قسمت کی دیوی اس وقت محسن نقوی پر مہربان ہے۔ پی ڈی ایم کی حکومت ختم ہوئی تو انھوں نے پنجاب کی تاریخ کے طویل ترین نگران وزیراعلیٰ کا منصب سنبھالا۔ ابھی وہ وزارت اعلیٰ کی نگرانی کر رہے تھے کہ چیئرمین پی سی بی کی نگہبانی بھی جھولی میں آ گری۔ وفاق اور پنجاب میں الیکشن کے بعد نگرانوں کی جگہ نگہبانوں نے لی تو ملکی نظام چلانے والوں نے پنجاب اسپیڈ کو وفاق میں بھی آزمانا ضروری خیال کیا۔

محسن نقوی کو یہ اعزاز بھی حاصل ہوا کہ وہ وفاقی وزیر داخلہ پہلے بنے اور آزاد حیثیت میں سینیٹر بعد میں منتخب ہوئے۔ اس وقت وہ ملک بھر میں امن وامان کے قیام، بجلی چوروں کی ایف آئی اے کے ذریعے پکڑدھکڑ سمیت بے تحاشا ذمے داریاں ادا کر رہے ہیں۔ اپنی تمام تر مصروفیات کے باوجود وہ قومی کرکٹ کے لیے بھی وقت نکالتے ہیں۔ ان کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ وزارت داخلہ اور پاکستان کرکٹ بورڈ کو فل ٹائم چلا رہے ہیں۔ ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا۔ ہو بھی کیسے سکتا تھا، کوئی محسن نقوی تھا ہی نہیں۔ ان کے بارے میں تو یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ

تم اقتدار میں شامل ہوئے ہو ضد کر کے

اور اقتدار ہمیشہ سے پائیدار نہیں

فیصلہ ساز اگر سمجھتے ہیں کہ کوئی فرد قومی مفاد میں ایک سے زیادہ ٹوپیاں اپنے سر پر پہن سکتا ہے تو کسی کو اعتراض کا کوئی حق نہیں۔ قومی مفاد کا حوالہ اس لیے دیا کہ ذاتی مفاد میں تو یقیناً ایسے فیصلے نہیں ہوتے ہوں گے۔ حاسدین کا کیا ہے، وہ کسی کی کارکردگی کہاں دیکھتے ہیں۔ انھیں بس تنقید کرنے کا موقع ملنا چاہیے۔ وہ بھلے کہتے رہیں محسن نقوی وزیراعظم سے بھی زیادہ طاقتور ہیں۔ وہ کیا گانا ہے:

کچھ تو لوگ کہیں گے، لوگوں کا کام ہے کہنا

نقوی صاحب نے یہ وضاحت کر کے بڑا اچھا کیا کہ وزیراعظم ان کے بڑے بھائی اور دوست ہیں اور وہ پورٹ فولیو پر ذاتی تعلقات کو ترجیح دیتے ہیں۔ اچھا ہے، بہت اچھا ہے، وہ سسٹم کے لیے ناگزیر ہیں۔ لوگ جلتے رہیں۔

کرکٹ کی بات کریں تو کسی دور میں ٹیسٹ میچ بھی 6 دن کا ہوتا تھا۔ پانچ دن کا میچ اور ایک دن کا درمیان میں وقفہ۔ تب کھلاڑی نازک مزاج ہوتے تھے۔ ان کی سہولت کے لیے پانچ دن مسلسل کھیل نہیں رکھا جاتا تھا۔ بے چارے تھک جو جاتے تھے۔ سال بھر میں ٹیسٹ سیریز بھی ایک آدھ ہی ہوتی تھی۔ کبھی 5 اور کبھی 3 ٹیسٹ کی سیریز۔ انگلینڈ اور آسٹریلیا کے درمیان ایک ٹیسٹ میچ کے چار دن بارش کی نذر ہو گئے تو انھوں نے محدود اوورز اور ٹیسٹ میچ کی دو اننگز کے بجائے ایک اننگز میں فیصلے کے لیے میدان میں اترنے کا فیصلہ کیا۔

اس ایک فیصلہ نے ون ڈے کرکٹ کی بنیاد ڈال دی۔ شروع میں 55 یا 60 اوورز کی اننگز ہوتی تھی۔ پھر 50 اوورز تک محدود ہو گئی۔ دن کے بعد رات کو بھی میچ ہونے لگے جنھیں ڈے اینڈ نائٹ کہا جانے لگا۔ ون ڈے کا ورلڈ کپ شروع ہوا تو پہلے تینوں ورلڈ کپ انگلینڈ میں کرائے گئے۔ اس وقت کرکٹ کی دو ہی سپرپاورز تھیں، سب سے بڑی انگلینڈ اور پھر آسٹریلیا۔ پھر ٹی ٹوئنٹی کا دور آ گیا۔ اب تو ٹی ٹین بھی ہونے لگی ہے۔ کرکٹ کی آج کی سپرپاور انڈیا ہے۔

کہاں سال میں ایک سیریز اور اب پورا سال کرکٹ۔ انڈیا اپنے پلیئرز کو اضافی مشقت سے بچانے کے لیے انڈین پریمیئر لیگ کے سوا کسی لیگ میں کھیلنے کی اجازت نہیں دیتا۔ اس کے کھلاڑیوں کو آئی پی ایل سے اتنی دولت مل جاتی ہے کہ انھیں کسی اور ملک میں کھیل کر اَن فٹ ہونے کی ضرورت نہیں۔ پی ایس ایل سے قومی کرکٹرز کی اتنی کمائی نہیں ہوتی کہ ان پر دوسری لیگز کے دروازے بند کیے جائیں۔

ہمارے کرکٹر سارا سال کرکٹ کھیلتے ہیں۔ قومی ٹیم، پی ایس ایل اور دوسری لیگز میں ان کا کھیل جاری رہتا ہے۔ دیگر تھکا دینے والی مصروفیات الگ سے ہیں۔ ایسے میں انھیں فوجی نہیں، کرکٹروں والی ٹریننگ کی ضرورت ہے۔ کرکٹرز کو کھیل کے ساتھ ساتھ اپنی بیٹنگ، باؤلنگ، وکٹ کیپنگ اور فیلڈنگ تکنیک بہتر بنانے کی ضرورت ہوتی ہے، محاذ جنگ پر جانے کی نہیں۔ کرکٹرز کو کھلاڑی ہی رہنے دیں کمانڈو بنانے کی ضرورت نہیں۔ باقی آپ کی مرضی۔

بشکریہ روزنامہ آج