108

سوموٹو کی پہلی سماعت

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججز کی جانب سے لکھے گئے خط پر سپریم کورٹ کی جانب سے لیے گئے سوموٹو کی پہلی سماعت ہو گئی۔ یہ پہلی سماعت ایک سات رکنی بنچ نے کی ہے لیکن چیف جسٹس نے تمام مخالفین کے منہ بند کرنے کے لیے یہ بھی کہہ دیا کہ ممکن ہے کہ اگلی سماعت فل کورٹ کرے۔ انھوں نے کہا کہ ابھی اتنے ہی جج اسلام آباد میں موجود تھے۔

اس لیے سات رکنی بنچ بنایا گیا۔ تاہم جب باقی اسلام آباد میں واپس آجائیں گے تو ممکن ہے کہ فل کورٹ بھی بنا دیا جائے۔ اس لیے جو لوگ یہ کہہ رہے تھے کہ فل کورٹ کے بغیر یہ معاملہ حل ہی نہیں ہو سکتا، ان کے لیے بھی چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے تسلی کا اعلان کر دیا ہے کہ شور نہ مچائیں فل کورٹ بھی بنا دیں گے۔

میری رائے میں عدالت کو عوامی دباؤ پر کام نہیں کرنا چاہیے۔ عدالت کو آئین وقانون کے مطابق کام کرنا ہے۔ عدالت کو عوامی دباؤ اور عوامی رائے عامہ سے کوئی سروکار نہیں ہونا چاہیے۔ میں اس کی اس طرح مثال دینا چاہتا ہوں کہ اگر عدالت کے باہر لاکھوں لوگ کسی کی بے گناہی کے لیے مظاہر ہ کر رہے ہوں تو اس مظاہرہ سے مرعوب ہو کر عدالت کسی کو بے گناہ نہیں کر سکتی۔ ان لاکھوں لوگوں کے مقابلے میں اگر دو گواہ عدالت میں موجود ہوں تو عدالت کے لیے عدالت سے باہر مظاہرہ کرنے والے لاکھوں لوگ اہم نہیں۔ عدالت کے لیے عدالت میں کھڑے دو گواہ اہم ہیں اور عدالت نے ان دو گواہوں کی بنیاد پر فیصلہ کرنا ہے۔

اسی لیے کہتے ہیں انصاف اندھا ہوتا ہے۔ وہ عدالت سے باہر نہ کچھ دیکھ سکتا ہے اور نہ ہی کچھ سن سکتا ہے۔ اگر ججز عوامی رائے کے ماتحت کام کرنے لگ جائیں تو یہ نظام انصاف کے بنیادی فلسفے کی نفی ہو جائے گی۔ اس لیے میں عوامی دباؤ میں لیے گئے سو موٹو اور فل کورٹ کے حق میں نہیں۔ میں سمجھتا ہوں عدالت کو اپنے طور پر کام کرنا ہے۔ دباؤ کیسا بھی ہو ‘عدالت کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتا۔

سوموٹو کی پہلی سماعت میں سوموٹو کے لیے تین سو وکلا کی جانب سے لکھے گئے خط کا بھی ذکرہوا۔ چیف جسٹس نے خود ہی کہہ دیا کہ اول تو اس خط پر صرف نام ہیں‘ کسی کے دستخط موجود نہیں ہیں۔ اس لیے قانون کی نظر میں اس کو تین سو وکلا کا خط نہیں کہا جا سکتا۔ لیکن میں اس کو بھی غیر اہم بات ہی سمجھتا ہوں۔

سب سے اہم قانونی نقطہ ہے کہ وکلا کیسے عدالت سے سوموٹو کا مطالبہ کر سکتے ہیں۔ وکلا تو عدالت میں پٹیشن دائر کر سکتے ہیں اور مطالبہ کر سکتے ہیں کہ ان کی پٹیشن سنی جائے۔ یہ وکلا نے سوموٹو کا کب سے مطالبہ کرنا شروع کر دیا‘ انھیں تو پٹیشن دائر کرنے کا اختیار اور حق ہے۔

میں متفق ہوں عدالت کے ان ریمارکس پر کہ جو وکیل سوموٹو کا مطالبہ کرے‘ وہ وکالت کی توہین کر رہا ہے۔ قانون کے ماہر ہو کر آپ ایسا کیسے کر سکتے ہیں۔ اس لیے پہلی سماعت میں اس خط کا بھی بھر کس نکل گیا ہے۔ واضح کر دیا گیا ہے کہ اس کی نہ تو کوئی قانونی حیثیت تھی اور نہ ہی کوئی عوامی حیثیت ۔ لیکن پھر بھی میں سمجھتا ہوں خط نے اپنا کام کر دیا تھا۔

خط جسٹس تصدق جیلانی صاحب کو بھگانے کے لیے لکھا گیا تھا اور وہ بھاگ گئے۔ خط سپریم کورٹ کو سوموٹو اور فل کورٹ پر مجبور کرنے کے لیے لکھا گیا تھا‘ وہ مقصد بھی حاصل ہوگیا۔ اس لیے بے شک خط لکھنے والوں کی تھوڑی سبکی ہو گئی ہے۔ لیکن خط لکھنے والے اپنے مقاصد سو فیصد حاصل کر گئے ہیں۔ اس لیے خط ایک ماسٹر سٹروک تھا جو نشانے پر لگا۔اگر لکھنے والوں کی تھوڑی بہت سبکی ہو بھی جائے تو انھیں برا نہیں منانا چاہیے۔ سیاست کے کھیل میں ایسا تو چلتا ہے۔

سوموٹو کی پہلی سماعت کافی دلچسپ رہی ہے۔ اٹارنی جنرل کے ابتدائی دلائل بھی کافی اہم تھے۔ جس سے اس کیس میں حکومت کی پالیسی سمجھ آرہی تھی۔ حکومت کیس کو کیسے چلانا چاہتی ہے۔ دوسری طرف بنچ کے ریمار کس سے بھی یہ سمجھ آرہی تھی کہ وہ کیس کو کیسے چلانا چاہتے ہیں۔ حا مد خان بھی پیش ہوئے ‘انھوں نے بھی کوئی درخواست دائر کی ہوئی ہے۔ وہ اس پر دلائل دینا چاہتے تھے۔

چیف جسٹس نے انھیں بتایا کہ ان کی درخواست ابھی سماعت کے لیے مقرر نہیں ہوئی۔ تا ہم سپریم کورٹ بار کے صدر کو سنا گیا۔ میں سمجھتا ہوں اس کیس میں نہ تو کوئی سیاسی جماعت فریق ہے اور نہ ہی کوئی عام شہری فریق ہے۔ یہ چھ ججز کے سپریم جیوڈیشل کونسل کو لکھے گئے خط پر ایک سو موٹو کی سماعت ہے۔ آپ سپریم کورٹ کی بار کو بطور وکلا ء کے نمائندے کے سن لیں۔ ویسے تو اس کی بھی کوئی ضرورت نہیں۔ لیکن سیاسی جماعتوں کے وکلا ء کی درخواستوں کو اس میں شامل کرنا درست نہیں ہوگا۔

دوران سماعت یہ ابہام بھی واضح ہوگیا کہ انکوائری کمیشن کے لیے جسٹس تصدق جیلانی کا نام چیف جسٹس پاکستان اور وزیر اعظم کی ملاقات میں عدلیہ کی جانب سے دیا گیا۔ عدلیہ نے دو نام دیے تھے۔ ایک تصدق جیلانی کا دوسرا ناصر الملک کا۔ حکومت نے جسٹس تصدق جیلانی کا نام بہتر سمجھا۔ لیکن وہ دباؤ برداشت نہیں کر سکے۔

ویسے جہاں تک مجھے یاد ہے کہ 2014میں جب چیف الیکشن کمیشن کی تعیناتی کا معاملہ چل رہا تھا تب بھی تصدق جیلانی کا نام سامنے آیا تھا۔ لیکن عمران خان نے مخالفت کر دی تھی اور انھوں نے عمران خان کی کنٹینر کی ایک تقریر کے بعد معذ رت کر لی تھی۔ اس باربھی وہ ایک خط کے بعد معذرت کر گئے ہیں۔ اس لیے کچھ نیا نہیں ہوا ہے۔ بس اس پہلی سماعت سے حکومت کی اتنی پوزیشن واضح ہو گئی ہے کہ ان کا نام عدلیہ کی طرف سے آیا تھا۔ حکومت کی چوائس نہیں تھا۔

یہ بات بھی ریکارڈ پر آگئی کہ وزیر قانون نے ان سے ملاقات کر کے ان کی رضامندی حاصل کی تھی ۔ اس کے بعد ٹی او آرز بھی ان کو دکھا کر جاری کیے گئے تھے۔ رضامندی دینے کے بعد فرار ان کی کمزور شخصیت کا عکاس ہے۔

پہلی سماعت میں یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ ہائی کورٹ کے ججز کے پاس کسی بھی قسم کے دباؤ کو مسترد کرنے اور اس سے نبٹنے کے لیے توہین عدالت کے وسیع اختیارات ہیں۔ اگر کوئی ان پر غیر قانونی دباؤ ڈالے تو کوئی بھی جج اسے توہین عدالت میں سزا دے سکتا ہے۔ اس میں اس کو نہ تو چیف جسٹس اور نہ ہی سپریم کورٹ کی کسی اجازت اور مدد کی ضرورت ہے۔

یہ بات درست ہے کہ پوری دنیا میں ججز ہر قسم کے دباؤ کا اسی قانون سے مقابلہ کرتے ہیں۔ آپ دیکھیں اگر خط لکھنے کی بجائے ان میں سے کوئی ایک جج بھی جو دباؤ ڈالنے والے کو توہین عدالت کا نوٹس دے دیتے تو صورتحال کتنی مختلف ہوتی۔ سپریم کورٹ کی یہ وضاحت کافی ہے کہ جج صاحبان جو اختیار ان کے پاس ہے اس کا استعمال کرنے میں مکمل آزاد ہیں۔ اس پر کوئی رکاوٹ ہے نہ تھی۔ میری رائے میں یہ جج صاحبان بھی تصدق جیلانی کی طرح کے جج ہی ہیں۔

خود توہین عدالت کی کارروائی کرنے سے ڈرتے ہیں اور یہ خط بھی راہ فرار ہی ہے۔ میں تو ویسے بھی اس خط کو قانونی اور آئینی نہیں بلکہ ایک سیاسی خط سمجھتا ہوں۔ لیکن اب سپریم کورٹ فل کورٹ بنا رہی ہے تو امید کرتے ہیں کہ خط لکھنے کے چھپے ہوئے مقاصد بھی سامنے آجائیں گے۔

بشکریہ ایکسپرس