124

خواتین ڈے اور ھم۔۔

المیس عبد الجبار خان

 میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ اس مقام پر اور اتنی جلدی میں اس کے روبرو ہوں گئی  لاشعور میں ملاقات کی توقع  تھی مگر زندگی میں اتنے حسین بکھیرے تھے وہ  یاد ہی نہیں رہا تھا تو  اس سے ہونے والی متوقع ملاقات کے  غم میں بھلا کہاں مبتلا رہتی اور آج وہ پورے جاوجلال کے ساتھ میرے جواب کا منتظر تھا میں کسی پتھر کی مورت میں ڈھل گئی تھی مگر نہیں! پتھر تو بے حسی کی علامت ہوتے ہیں میں بے حس تو نہیں تھی سارے جہاں کا درد میرے دل میں موجزن تھا۔ میری نرم دلی، احساس ،ہمدردی تو ایک مثال تھی  کتنے اعزازات تھے جو مجھے دیے گئے تھے مجھے میرے شاندار گھر کا  ایک کونہ  ان میڈلز اور شیلڈز سے سجا پڑا تھا میری خدمت، پر میری دی گئی قربانیوں پر، اس احساس پر جس کی دولت سے میں مالا مال تھی آگاہی کی روشنی جو میں نے گھر گھر پہنچائی تھی سنا تھا علم نور ہے پھر میں بے نور کیوں رہ گئی تھی  سنا تو یہ بھی تھا کہ نیکیاں  روشن چراغ بن راستوں  کو منور کرتی ہیں  مگر میرے اردگرد تو اندھیرے ہی اندھیرے رقصاں تھے اور وہ بھی تو مجھ سے خفا  تھا خفگی اور غضب ناکی اتنی شدید کے میں موت کی تمنا کرنے لگی تھی ۔ موت جو اب کہیں نہیں تھی کبھی نہیں تھی زندگی اپنی تمام تر حقیقتوں سمیت امر ہو چکی تھی  میں نے کیا کیا تھا جو یہ اندھیرے میرا مقدر ٹھہرے ۔میری کی گئی نیکیاں چراغ بن کر میری راہ کو روشن کیوں نہیں کر رہی تھیں میرے تو دائیں بائیں اوپر نیچے آگے پیچھے ہر طرف اندھیرا تھا کیوں بھلا؟سوچنے کی حس مفلوج تھی پھر بھی میں سوچنے کی کوشش کرنے لگی تھی یہ سوچنا بھی مشقت طلب تھا بس دو دن کی روداد ہی تو تھی، نہیں! میرا خیال ہے آدھے دن کی یا شاید بس کچھ اس سے بھی تھوڑا ہی وقت گزرا تھا .   اگلے ہی لمحوں میں میری سوچ وبچار کی مشقت ختم کر دی گئی میرے سامنے عکس بننے بگڑنے لگے سارے گزرے منظر  روشن کر دیے گئے یہ میں تھی جینز ٹاپ میں ملبوس  ہاتھوں میں بینرز اٹھائے کتنی خوبصورت لگ رہی تھی میرے ساتھ بے شمار عورتیں اور مرد بھی تھے جو میری آواز سے آواز ملاتے میرے ہم قدم تھے  سفید بینر پر سیاہ سیاہی سے لکھی ہوئی خوبصورت عبارت دور سے چمکتی نظر آتی تھی "میرا جسم میری مرضی" یہ  الفاظ محض بینر پر  تحریر نہیں تھے زبان پر ورد کی صورت رواں تھے دل پر کسی مقدس قول کی طرح نقش ہو رہے تھے یہ الفاظ یوں ہی تو تاثیر ر نہیں رکھتے تھے اس کے پیچھے میری اور میرے جیسے بہت سوں کی سخت کاوش کار فرما تھی  ساری ملامت لعنت  اور مخالفت کے باوجود میں،میرے ساتھی ڈٹ کر کھڑے رہے تھے کس کے لیے؟ ان مظلوم عورتوں کے لیے جنہیں ان کے بنیادی حق سے محروم کردیا گیا اسلام کے نام پر  استعمال کیا جا رہا تھا مرد ان پر حاکم بنے بیٹھے تھے جن کی کوئی عزت نہیں تھی۔ ان کو آزاد کیا تھا ہر خوف سے جس میں وہ جھکڑی ہوئی تھی معاشرے کا خوف رشتوں کا خوف مردوں کا خوب عزت بےعزتی کا خوف۔ میری مسلسل کوشش تھی جو ان کو ہر خوف سے آزاد کر کے میرے ساتھ کھڑے کئے ہوئے تھی۔ میں نے آزادی دلوائی تھی حق لینا ہی تو سکھایا تھا کیا گناہ کیا تھا غلطی کہاں ہوئی تھی؟ آخر خسارے میرا مقدر کیوں تھے؟ میں ساری زندگی چراغ جلانے کے باوجود اب اندھیرے میں کیوں کھڑی تھی؟ میں نے ان کو خوف سے آزاد کیا تھا میں اس آگ اگلتے سورج کی تلے  بہت سے خوف اور ڈر کی زد میں کیوں تھی؟ اس تحریر کی سیاہی گہرے دبیز اندھیروں کی صورت اپنی زندگی پر چھاتی محسوس ہو رہی تھی۔
"کیا ہمارا پیغام پہنچایا نہیں گیا تھا"
"کیا بار بار میرے بندوں نے یاد دہانی نہیں کروائی تھی"
ان سوالوں کا میرے پاس کوئی جواب نہیں تھا شرمساری سے میری گردن جھک گئی تھی پورے وجود پر خوف سے کپکپاہٹ طاری تھی ۔ ان سوالوں کا جواب صرف ہاں یا نہ میں مطلوب تھا میں ایک لمبی وضاحت دینے کی کوشش میں تھی کی شاید کوئی  بھی نکلنے کی راہ میسر آسکے لفظوں سے مقابل کو خاموش کرانے کے فن سے آشنا تھی اب زبان یوں تھی گویا حرف کی ادائیگی سے بی صدا نہ آشنا رہی ہو ۔میرے جواب کی ضرورت وہاں تھی بھی نہیں ۔  ایک ایک حرکت کو محفوظ کر لیا گیا تھا سوچوں اور نیتوں تک آگاہی حاصل تھی میں جو کسی پیغام،ملنے والی ہر یادہانی کو جھٹلانا چاہتی تھی پتھرائی نگاہوں سے سے اس منظر کو دیکھ رہی تھی
"آپ غلط نہیں ہیں آپ کا طریقہ غلط ہے آپ ایک صحیح چیز کو غلط طریقے سے کررہی ہیں ہمارا جسم ہماری مرضی نہیں ہے اللہ کی مرضی ہے اس کی اطاعت کے تابع ہونا ہے  آپ پہلے خود کلیر ہوں کس قسم کی آزادی چاہیے آپ کو؟ کیا لباس کا مختصر سے مختصر کر دینا؟ واہیات قسم کے بینرز اٹھا کر دھول  کی تھاپ پر بنگھڑا کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آنا، ہر رشتے سے آزاد ہو جانا،جو دل چاہے وہ کرنا، کوئی حدود و قیود متعین نہ ہوں کیا اس قسم کی آزادی  مانگ کر رہی ہیں آپ " وہ ایک نورانی چہرے والے عالم دین تھے ان کی لہجے کی نرمی دل پر اثر کرتی تھی "بیٹی آپ کو تو اللہ نے آزاد پیدا کیا ہے  اسلام  آپ کے حقوق کا تحفظ کرتا ہے کسی مذہب کسی قانون میں ایموشنل ابیوز پر بات نہیں کی گئی اسلام صرف اس پر ہی  بات نہیں کرتا اس کے لیے آخرت میں سخت سزا کی  وعید بھی ہے  ہر ایک کی حقوق و فرائض متعین ہیں بالکل واضح جس میں کوئی ابہام نہیں کوئی ردوبدل نہیں" وہ نرمی سے کہہ رہے تھے میں نے انہیں  تیزی سے ٹوکا تھا "مرد عورتوں پر حاکم بن کر بیٹھا ہے مردوں کے معاشرے میں عورت ہر طرح سے مظلوم ہے اس کے حقوق غصب کیے جا رہے ہیں"
"تو بیتی حقوق غصب کرنے والے سے سوال کیا جائے نہ اس سے پوچھا جائے اس میں کمی ہے وہ کم فہم ہے وہ جانتا نہیں  اس کا ظلم اسے دنیا اور آخرت میں کیسے رسوا کرنے والا ہے اللہ کی بنائی ہوئی حدود کی پامالی کیوں؟ وہ سوال پوچھتے مجھے سوچنے پر مجبور کر رہے تھے میں سوچوں میں الجھی بھی تھی پھر اپنے ہی جیسوں کی محفل میں قہقہے لگاتے اندر اٹھتے سب سوال اپنی موت آپ مر گئے تھے اب دوسرا منظر دکھایا جا رہا تھا وومن رائٹس پر ایک انٹرنیشنل کانفرنس ہو رہی تھی  "مرد عورت برابر ہیں ہم اسلام کی نام پر عورت کو مینوں پلیٹ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اسلام کے نام پر اسے جذباتی طور پر کمزور کر کے اپنا محکوم بنانے کی کوشش کرتے ہیں"  لوگ مجھے تالیاں بجا کر داد دیتے نظر آرہے تھے مگر اگلے لمحے میں سٹیج پر آنے والی شخصیت نے مجھ سمیت  سب لوگوں کو اپنے لفظوں کے سحر میں جھگڑا تھا "میں اپنی بہن کی بات سے سو فیصد متفق ہوں  ہم واقعی ایسا کرتے ہیں  میری بہن نے کہا ہم کرتے ہیں یہاں ہم کا لفظ غور طلب ہے جو بھی کرتے ہیں ہم کرتے ہیں ہم میں سے ہر شخص اپنے کیے اعمال کا جواب دے ہے ہر انسان کے لئے وہی ہے جو اس نے کمایا ہم اسلام کی غلط تشریح کرتے ہیں ہمیں اپنے مطلب کی حادیث ازبر ہوتی ہیں مگر جہاں دوسروں کے حقوق کی بات  آئے تو اپنی مرضی کی تشریح کرتے ہیں ہماری بہنیں کیا کر رہی ہیں شریعت کے اصولوں سے انحراف کو انہوں نے آزادی کیوں سمجھ لیا ہے؟ مرد کو عورت پر حاکم بنایا گیا ہے  وہ اس کو ہر طرح سے پروٹیکٹ کرے گا وہ محافظ ہے عورت کی جان مال عزت کا ضامن،نگران ہے اس کا فرض ہے کہ وہ ہر اس چیز کی نگرانی کرے جو عورت کیلئے تکلیف کا باعث ہو اس کے بعد ہی وہ قوام کے منصب کا حقدار ٹھہرتا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت یہی ہے محبت اور احترام کا یہ عالم کہ جب ان کی بیٹی آتی تو اپنی جگہ سے کھڑے ہو جاتے،فریڈم آف سپیچ اتنی کے عورتیں بلا ججک  ہر طرح کا سوال کر لیا کرتیں،  حضرت عمر جیسے سخت طبیعت شخص کو ممبر پر ایک عورت نے ٹوک دیا تھا جب وہ مہر کی حد مقرر کرنے لگے تھے،حضرت خدیجہ تجارت کیا کرتی تھیں آپ انہیں فل سپورٹ کرتے تھے ،آپ صلی اللہ علیہ وعلی وسلم کنتی دیر صرف اس لئے کھڑے ہیں کہ حضرت عائشہ آپ کے پیچھے کھڑے ہوکر حبشیوں کا کھیل دیکھ رہی تھیں ،پھر وہ لڑکی جس کا باپ اس کی زبردستی شادی کروانا چاہتا ہے آپ اسے اس کی مرضی سے شادی کا حق دیتے ہیں وہ کہتی ہے مجھے ان کے فیصلے پر کوئی اعتراض نہیں مگر میں یہ بتانا چاہتی تھی کہ کوئی ہمیں مجبور نہیں کرسکتا،ایک صحابیہ کو اپنے شوہر پسند نہیں تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں  ان کے شوہر کے ساتھ رہنے پر مجبور نہیں کیا بلکہ ان کی علیحدگی کروا دی ،خطبہ حجۃ الوداع میں یہی تاکید تھی،آخری ایام میں بھی آپ عورتوں کے حقوق پر زور دیتے رہے،ایک شخص حضرت عمر کے پاس اپنی بیوی کی شکایت لے کر آتا ہے  پھر دروازے سے لوٹ جاتا ہے حضرت عمر کو خبر ہوئی تو وجہ دریافت کی،کہاں میں تو اپنی بیوی کی شکایت لے کر آیا تھا مگر آپ کے اپنے گھر سے آپ کی بیگم کے جھگڑنے کی آواز آ رہی تھی حضرت عمر نے فرمایا وہ ہمارا گھر سنبھالتی ہے ہے بچوں کی پرورش کرتی ہے ہے اتنے ڈھیر سارے کام کرتی ہے اگر کچھ کہہ بھی دے تو نظر انداز کر دیا کرو۔" اب بھی مرد عورتوں کو ایسی ہی عزت و تکریم دیتے ہیں ان کا تذکرہ کیوں نہیں کیا جاتا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے اپنی دو بہنوں یہ دو بیٹیوں کی پرورش اچھی طرح کی وہ جنت میں میرے ساتھ یوں ہوگا جیسے یہ دو انگلیاں ،ماں کے قدموں تلے جنت رکھ دی جو عزت تقریر مقام اسلام نے عورت کو دیا ہے کوئی مذہب کوئی قانون نہیں دیتا۔ آپ یہ کیسی آزادی مطلوب ہے میری بہنوں کو"وہ اب رک کر سوال کر رہے تھے وہاں خاموشی تھی خاموشی کا مطلب تھا ان کی کہی باتوں کا اعتراف "آپ اس طرح کی باتیں کر کے حقائق پر پردہ نہیں ڈال سکتے  کیا آپ نے اپنی آنکھیں اور کان بند کر رکھے ہیں روز بہت سی بچیاں زیادتی کا نشانہ بن رہی ہیں تیزاب گردی کے واقعات معمول بن چکے ہیں ڈومیسٹک وائلنس اپنی پیک پر ہے مرد کسی بھیڑئیے کی طرح عورت کو نکلنے کے لئے ہر دم تیار ہیں" میں تنفر سے کہہ رہی تھی میں نے غلط تو نہیں کہا تھا یہی تو ہو رہا تھا
وہ میری بات پر یوں مسکرا رہے تھے جیسے کسی نہ سمجھ بچے کی بات پر مسکرایا جاتا ہے
"میں بھی تو اسی نقطے کی طرف آپ کو لا رہا ہوں آپ ان مسائل کو ڈسکس کریں ہمیں آزادی نہیں چاہیے ہم آزاد ہیں ہمیں اپنے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانا ہے یہ  تحریکیں ویمن رائٹ کے لیے شروع کی گئی تھیں ایک ہی چیز کو غلط طریقے سے کر کے ہم نے اس کی نوبل کاز  کو نقصان پہنچایا ہے عوام میں نفرت اور کنفیوژن کریٹ کی ہے  میری بہن جن پہلوں کی نشاندہی کر رہی ہیں وہ ہمارے معاشرے کی تلخ حقیقت اور بدصورت شکل ہے مگر کیا ہر مرد یہ سب کر رہا ہے نہیں! لاکھوں  عورتیں اپنے گھروں میں محفوظ ز زندگی گزار رہی ہیں ایک ملکہ کی طرح جو اپنے ہر کام میں آزاد ہے آپ کو نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے آپ کر کیا رہی ہیں کرنا کیا چاہتی ہیں آپ کو مستقبل میں کرنا کیا چاہیے ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے قیامت کے دن اگر سوال ہو تو آپ اپنی عمل کو جسٹیفائی کرسکیں گی۔ اور پھر لاتعداد عورتیں  آپ کی اسی تحریک کی مخالفت میں بھی نکلتی ہیں انہیں آپ کی یہ ایجنڈہ قبول ہی نہیں ہے تو کیا پھر یہ ایک مخصوص طبقے کی نمائندگی نہیں ہے کیونکہ آپ کی اپنی جنس اس تحریک کے مخالف ہے" میں نے تب بھی سوچا تھا کہ میں سوچوں گی میرے اندر کہیں احساس تھا کہ میں غلط راستے کی مسافر ہوں آزادی کا مطلب ہرگز وہ نہیں ہے جس کی تشریح میں کر رہی ہوں مگر بار بار کے ریمائنڈر ملنے  کے باوجود اسی راستے پر محو سفر رہی تھی جس کی منزل بے نشان تھی اندھیرے میرا مقدر ٹھہرے تھے  اب  منظر بدلا تھا گویا حجت تمام کی جارہی تھی میں وہ نہیں دیکھنا چاہتی تھی تھی اپنے ہاتھوں سے کمائے حارے کوئی کیسے دیکھ سکتا ہے  کیسے شمار کر سکتا ہے میں بھی یہ نہیں کرسکتی تھی مگر اب یہی تو کرنا تھا بار بار کرنا تھا اسلام ترجیحات میں آخری نمبر پر کہی تھا دہکتی جہنم کے آخری درجے کی خقدار کیوںکر نہ ٹھہرتی۔اور وہ آخری منظر ہر منظر پر ہاوی ہو گیا تھا وہ ایک مشہور ٹاک شو کا منظر تھا  وہ خاتون میرے اتنے سارے  دلائل سننے کے بعد بہت نرمی سے مجھ سے مخاطب تھیں "اگر ابھی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے آپ جس آزادی کی بات کر رہی ہیں انہیں بھی اپنے دلائل سے قائل کر لیں گی ایسے ہی لاجیکل گفتگو کرسکیں گی"وہ نرم لہجے میں  استفسار کر رہی تھیں تب  کچھ لمحوں کے لئے میں  کچھ بھی بولنے کے قابل نہیں تھی پھر میں نے انہیں ایک نئی بحث میں الجھایا تھا یہ تھا ایک سہی چیز کو غلط طریقے سے کرنے کا انجام اب یہ منظر دیکھتے میں دھاڑے مار مار کر رو رہی ہوں میری آہ و بکا بلند ہو رہی ہے
رَبَّنَاۤ  اَبۡصَرۡنَا وَ سَمِعۡنَا فَارۡجِعۡنَا نَعۡمَلۡ صَالِحًا  اِنَّا مُوۡقِنُوۡنَ ﴿۱۲﴾
اے ہمارے رب! ہم نے دیکھ لیا اور سن لیا اب  تو ہمیں واپس لوٹا دے ہم نیک اعمال کریں گے ہم یقین کرنے والے ہیں  ۔

یٰلَیۡتَنَاۤ  اَطَعۡنَا اللّٰہَ  وَ اَطَعۡنَا الرَّسُوۡلَا ﴿۶۶﴾

کاش ہم اللہ تعالٰی اور رسول کی اطاعت کرتے

یٰلَیۡتَنِیۡ  کُنۡتُ تُرٰبًا ﴿۴۰﴾٪
کاش! میں مٹی ہو جاتا ۔

بشکریہ اردو کالمز