بچوں کے منتظر والدین

پچھلے دنوں ایک دیرینہ دوست یعنی پاٹے پرانے دوست امریکہ سے آئے کہ انکے و الد صاحب قدرے علیل ہوگئے تھے ایک ہونہار فرزند کی حیثیت سے خبر سنتے ہی اڑتے ہوئے پہنچے۔۔۔ ویسے تو امریکہ سے سبھی اڑتے ہوئے آتے ہیں پیدل تو نہیں آتے لیکن یہ دوست محاورے کے مطابق اڑتے ہوئے پہنچے اباجی کے سرہانے دو ہفتے بیٹھے رہے ابا جی نہ جاتے تھے نہ مکمل طورپر آتے تھے یعنی کبھی جان کے لالے پڑ جاتے تھے اور کبھی ٹیلی ویژن پر آئٹم نمبر دیکھنے لگ جاتے تھے۔۔۔ میرے دوست جو تیس برس سے امریکی ہیں مایوس ہو کر لوٹ گئے اور جاتے ہوئے چھوٹے بھائی سے کہہ گئے کہ اب یونہی خطرے کی گھنٹی نہ بجا دینا یوں بھی اگلے چھ ماہ تک میرا دوبارہ آنا ممکن نہیں کہ ملازمت بہت حساس ہے۔ اِدھر وہ نیویارک پر اترے اور اُدھر والد صاحب کوچ کرگئے۔۔۔ویسے ہمارے ہاں جو ایک نیا غیر ملکی معاشرہ تشکیل پا چکا ہے یعنی شاید ہی کوئی ایک گھرانہ ایسا ہو جسکے دوچار نہ سہی کوئی ایک آدھ فرد بھی ملک سے باہر مقیم نہ ہو۔۔۔ یوں خاندان تقسیم ہو چکے لیکن ہماری خواہش یہی ہوتی ہے کہ مشرقی روایات کی پاسداری بھی قائم رہے اور یہ ایک ناممکن خواہش ہے۔۔۔ اگر والدین حیات ہیں تو وہ بیمار پڑتے ہی برخوردار سے کہتے ہیں کہ لوٹ آﺅ مرے پردیسی۔۔۔ واپس آﺅ اور ہماری تیمارداری کرکے اولاد کے حقوق ادا کرو۔۔۔اچھا اس خواہش میں کوئی حرج بھی نہیں لیکن والدین کا بھی فرض ہے کہ وہ احساس کریں کہ اگرچہ ان ممالک میں زندگی کی سہولتوں کی پاکستان کی نسبت فراوانی ہے لیکن یقین کیجئے ان سہولتوں کے حصول کیلئے انسان کو مشقت کرنی پڑتی ہے اگر ملازمت ہو چاہے ایک مزدور کی ہو‘ ڈاکٹر یا انجینئر کی ہو‘ سال بھر میں طے شدہ چھٹیاں ہی ملتی ہیںاور اگر ایمرجنسی ڈیکلیئر کردی جائے تو بھی چند روز کیلئے غیر حاضر ہونے کی اجازت ملتی ہے اور اس غیر حاضری کی وجہ سے آپکی سنیارٹی بھی متاثر ہو سکتی ہے اور اگر آپ کسی بھی نوعیت کا کاروبار کرتے ہیں‘ کوئی گروسری سٹور کھول رکھا ہے کباب اور تکے فروخت کرتے ہیں تو بھی آپ اپنے کاروبار سے زیادہ دنوں تک غیر حاضر نہیں رہ سکتے۔۔۔ ورنہ کاروبار ٹھپ ہو جائیگا۔ اگر آپ ایک والدین ہیں اور آپ نے اپنی مرضی اور خواہش سے اولاد کو باہر کے ملکوں میں مقیم ہو جانے کی اجازت دی ہے تو پھر ان کی مجبوریوں کا احساس کیجئے۔۔۔ بہتر ہے کہ بیمار نہ پڑیئے اور اگر پڑ جایئے تو فوری طورپر بیٹی یا بیٹے کو ایس او ایس نہ بھیجئے۔۔۔ والدین کے بھی تو کچھ فرض ہوتے ہیں انہیں ادا کیجئے خواہ مخواہ نہیں طلب نہ کرلیجئے اگر طلب کرتے ہیں تو اپنا آخری فرض ادا کردیجئے۔ چند برس پیشتر مجھ پر بھی موت کانزول ہوتے ہوتے رہ گیا تھا۔۔۔ ان دنوں میرے بیٹے تو غیر ملکی پوسٹنگ پر تھے اور بیٹی تو کب کی امریکی ہوچکی تھی وہ تینوں بھی اڑتے ہوئے چلے آئے۔۔۔ میں متعدد آپریشنوں کے بعد اپنے پاﺅں پرچل کر گھر آگیا‘ تب مجھے ایک خیال آیا تھا کہ فرض کرتے ہیں کہ ایک دوماہ بعد میں پھر بیمار پڑ جاتا ہوں تو کیا وہ آسکیں گے آئینگے تو ذرا مشکل سے آئینگے عینی سے اسکے ہسپتال کا انچارج پوچھے گا کہ ڈاکٹر کیو تمہارے یہ ڈیڈی پھر بیمار ہوگئے ہیں‘ سلجوق سے اسکے یو این او کے شعبے کا ہیڈ کہے گا کہ۔۔۔ کیا پاکستان جانا بہت ضروری ہے۔۔۔اگلے ہفتے یو این او میں کچھ سلطنتوں کے سربراہ آرہے ہیں ان میں سے ایک دو کی ذمہ داری تمہارے سپرد کرنی تھی وغیرہ وغیرہ‘ تو وہ شاید نہ آسکیں اگر آئیں تو بمشکل آئیں اور اگر میں تیسری مرتبہ بیمار پڑ جاﺅں تو پھر شاید چاہنے کے باوجود بمشکل بھی نہ آسکیں۔۔۔ چنانچہ میں اور میری اہلیہ بھی اسی فہرست میں شامل ہیں اور ہم قطعی طور پر توقع نہیں رکھتے کہ ہم بیمار پڑیں تو وہ کشاں کشاں چلے آئیں۔

بشکریہ روزنامہ آج