88

دوستیاں بڑھائیں

سنا ہے کہ کسی نے بجلی کا بل بہت زیادہ آ جانے پر اپنے دوست کے سامنے دل کے پھپھولے پھوڑے تو دوست نے مشورہ دیا کہ اسے اپنے گھر میں سولر سسٹم لگا لینا چاہیے۔ اس نے اپنے ہمدرد دوست سے اس کی لاگت پوچھی تو اس نے کہا کہ وہ اسے چیک کر کے بتائے گا۔

اگلے ہی دن اس نے آکر اس سے کہا کہ اس کے گھر کی ضروریات کے مطابق، اس کے ہاںپندرہ لاکھ کی لاگت سے سولر سسٹم لگ جائے گا اور لگ بھگ تین ماہ میں اس کا بل زیرو پر آ جائے گا ۔ ان اخراجات میں ساٹھ سے ستر ہزار روپیہ اس رشوت کا بھی شامل ہے جو کہ میٹر لگوانے کے لیے دینا ہو گا۔

( اس رقم کو سولر سسٹم لگانے والی کمپنیاں اپنی quotation میں شامل کرتی ہیں کہ اگر آپ معمول کے مطابق میٹر کی درخواست دیں گے تو اس میں کئی ماہ لگ سکتے ہیں اور اگر آپ ’’ نذرانہ‘‘ دیں گے تو اگلے ہی دن میٹر مل جائے گا۔) اسے بتایا گیا کہ اس کے گھر میں لگا ہوا سولر سسٹم بجلی بنائے گا جس سے کہ نہ صرف اس کا اپنے گھر کا سارا بل منفی ہوجائے گا بلکہ فالتو بجلی واپڈا کے پاس جائے گی جو کہ اس کے مستقبل کے بل کو بھی منفی کر سکے گی۔

’’پندرہ لاکھ کا سولر سسٹم لگوانے کے بجائے، میں پانچ لاکھ روپیہ رشوت دے کر اپنے کسی ایک بیٹے کو میٹر ریڈر نہ لگوا دوں، تا کہ میرے گھرمیں استعمال ہونے والی بجلی کا بل، ہمیشہ ہمیشہ کے لیے زیرو پر آ جائے گا۔‘‘

’’ پانچ لاکھ روپیہ رشوت دو گے تو اس کا جواب آخرت میں کیسے دو گے؟‘‘

’’ بالکل ویسے ہی جیسے کہ میں سولر سسٹم کے ساتھ میٹر لگوانے کے لیے ، ساٹھ سے ستر ہزار روپیہ کی رشوت دوں گا!‘‘

’’ مگروہ تو صرف ساٹھ سے ستر ہزار روپیہ ہے ‘‘

’’ ہمار ے ہاں ایک محاورہ ہے، ’چوری لکھ دی ہووے یا ککھ دی، چور ی اے‘، ( چوری چوری ہی ہے، چاہے وہ لاکھوں کی ہو یا کسی بے وقعت چیز کی۔) جھوٹ جھوٹ ہے، چاہے کوئی بادشاہ بولے یا فقیر۔‘‘

’’ مگر بیٹے کو پڑھا لکھا کر کوئی بڑا آدمی بناؤ… میٹر ریڈر کی کیا عزت ہوتی ہے؟‘‘

’’ میٹر ریڈر بھی انسان ہی ہوتا ہے… میںنے تو اپنے محلے میں بھی اور اپنے گاؤں میں بھی دیکھا ہے کہ کسی اور کو ملنے میں سستی کر جائیں تو کر جائیں مگر میٹر ریڈر کو لوگ اٹھ کر سلام کرتے ہیں۔

کسی کے گھر میں کوئی مرگ یا خوشی کا موقع ہو تو لوگ جنازے یا بارات کے وقت ہی آتے ہیں مگر جب میٹر ریڈر کے ہاں کوئی موقع ہو ، خواہ اس کی گائے کا بچھڑا ہی پیدا ہونے کے ساتھ مر جائے یا اس کے بچے کی آمین ہو… تو سارا گاؤں امڈ پڑتا ہے اور سارے انتظامات میں پیش پیش رہتا ہے ۔‘‘

’’ اب ایسا بھی کیا پروٹوکول بنتا ہے ، آخر اس کی کیا وجہ ہے؟‘‘

’’ شہر میں تو کچھ دے دلا کر لوگ میٹر ریڈنگ میں کمی دکھا سکتے ہیں اور کچھ عرصے کے بعد میٹر ریورس بھی کروا لیتے ہیں۔‘‘

’’ ہائے ایسا اس دنیا میں ہو رہا ہے، میرا مطلب ہے کہ ہمارے ملک میں؟‘‘

’’ جی آپ ہی کا تو ملک ہے، جسے کھانے اور لوٹنے کا از حد اسکوپ ہے اور اسی لیے دنیا کی بڑی طاقتیں بھی اس تر نوالے پر نظر بد جمائے ہوئے ہیں۔‘‘ جواب ملا، ’’ یہی نہیں، ہمارے ایک جاننے والے کے ایک رشتہ دار ایسے ہی ایک ادارے میں ملازم ہیں۔

جنھوں نے اپنے گھر کی مفت بجلی میں سے تاریں کھینچ کر اڑوس پڑوس کے جانے کتنے ہی گھروں کو دی ہوئی ہیں کہ وہ چاہے جتنی بھی بجلی خرچ کریں مگر انھیں ماہانہ ایک مقررہ نذرانہ پیش کر دیا کریں۔ انھیں کون سا بل آنا ہے اور انھیں اضافی رقم گھر بیٹھے مل جاتی ہے۔‘‘

’’ اگر کوئی مہینہ بھر مفت کی بجلی استعمال کرے اور انھیں مقررہ رقم نہ دے تو؟‘‘

’’ ارے، اس ملک میں ایک بے ایمانی ہی تو ہے جو کہ پوری ایمانداری سے ہوتی ہے۔‘‘ ہنس کر کہا ، ’’ اور ایک ماہ کی بجلی کے عوض بھتہ نہیں دے گا تو ان صاحب کا کیا جاتا ہے، ایک تار ہی تو کھینچنی ہے ، جسے قبول کرنے کو درجنوں بیٹھے ہوں گے اور پھر بے ایمانی کرنے والے صاحب کو اگلے ماہ کا جو بل پڑے گا، اسے کون ادا کرے گا۔ میٹر ریڈر تو بادشاہ ہے، جسے ناراض کرنے یا پھڈا لینے کا چانس کوئی نہیں لے سکتا۔‘‘

’’ یہ بھی شنید ہے کہ اب واپڈا والوں کو بھی مفت بجلی نہیں ملے گی۔‘‘

جن محکموں میں لوگ چھوٹے چھوٹے کاموں کے لیے رشوت لیتے ہیں وہ رشوت کیسے لیں گے اور ان کے گھروں کے تو چولہے بجھ جائیں گے۔

جانے پہلے ہی کتنے لاکھوں گھروں میں ہر روز چولہے نہیں جلتے، جانے ہر روز کتنے ہی لوگ بے روز گاری اور مجبوری کے ہاتھوں خود کشیاں کرتے ہیں… اب بجلی کے بلوں نے تو ہر ہر طبقے کی چیخیں نکال دی ہیں۔ تنخواہوں اور دیگر ذرایع آمدنی سے بھی بڑھ کر بجلی کے بل آرہے ہیں۔‘‘

’’ میری مانیں، آپ بھی اس وقت کے مسائل کے تناظر میں اپنے بیٹے کو لیکچرار بنانے کے بجائے… میٹر ریڈر!!! میری بات سمجھ گئے ہیں نا آپ؟؟

بشکریہ ایکسپرس