123

نگران کا بیان اور مہنگائی کا طوفان

بڑھتی ہوئی منہ زور مہنگائی ، پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہوشرباء اضافے اور خاص طور پر بجلی کے بلوں میں ظالمانہ ٹیکسز کے خلاف ملک بھر میں جاری احتجاج کا دائرہ بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ ملک کے چھوٹے بڑے شہروں اور قصبوں میں احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔ گزشتہ روز تاجروں نے ملک بھر میں شٹر ڈاؤن ہڑتال کی۔ اس کے علاوہ مختلف سیاسی، سماجی، تاجر تنظیمیں سول سوسائٹی اور عام شہری مسلسل احتجاج کر رہے ہیں۔ بجلی کی قیمتوں اور ٹیکسز کی آڑ میں ناجائز اضافے کے خلاف جاری احتجاج میں آنے والی شدت آگے چل کر کیا رخ اختیار کرتی ہے۔ اس کے بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔ کیونکہ اس بار عوام بغیر کسی قیادت کے اپنی مدد آپ کے تحت احتجاج کر رہے ہیں۔ ماضی میں کوئی نہ کوئی اپوزیشن موجود ہونے کی وجہ سے معاملات کو سیاسی انداز میں حل کر لیا جاتا تھا۔ مگر اب کی بار ایسا نہیں ہے۔ کیونکہ ملک میں موجودہ مہنگائی کی خوفناک صورتحال میں تمام جماعتوں کا برابر کا کردار ہے۔ خاص طور پر پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں پیپلز پارٹی یا مسلم لیگ ن سمیت دیگر جماعتیں اگر مہنگائی کے خلاف احتجاج کریں تو کس منہ سے کریں کیونکہ پی ٹی آئی کی حکومت ختم کر کے یہی لوگ معیشت کو بہتر کرنے اور عوام کو ریلیف دینے کے دعوے کے ساتھ اقتدار میں آئے تھے مگر چودہ ماہ میں ملک کو چودہ سال پیچھے دهكیل دیا۔ یہی وجہ ہے آج عوام کسی پر اعتماد کئے بغیر خود احتجاج کر رہے ہیں۔ مگر ایسی صورت میں ملک اناركی کی طرف جاسکتا ہے مگر افسوس یہ ہے کہ کسی کو بھی اس کا رتی برابر احساس نہیں۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے۔ کہ مہنگائی کا جو منہ زور طوفان ہر گزرتے دن ایک نئی شدت اختیار کر رہا ہے۔ اسے کسی ایک حکومت کے کھاتے میں نہیں ڈالا جاسکتا مگر کسی کو بری الذمہ بھی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ یہ انہی حکومتوں کی غلط معاشی پالیسیوں کا نتیجہ ہے کہ ہر نیا دن ایک نئے طوفان کا پیش خیمہ ثابت ہوتا ہے۔ سابقہ حکمرانوں کی غلط اور عوام دشمن پالیسیوں کا رونا اپنی جگہ مگر افسوس تو نگران حکومت کے رویے پر ہے۔ پہلے تو بجلی کے بلوں میں عوام کو ریلیف دینے کا اعلان کر کے لوگوں کو انتظار کی سولی پر لٹکایا گیا اور پھر وزیر اعظم نے ریلیف دینے سے معذوری ظاہر کرتے ہوئے بلوں کی قسطیں کرنے کا اعلان کیا اور پھر اسے بھی آئی ایم ایف کی منظوری سے مشروط کر دیا۔ بات یہیں تک رہتی تو قابل برداشت تھی۔ مگر وزیر اعظم نے سینئیر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے جو بیان دیا وہ عوام کے زخموں پر مرہم رکھنے کے بجائے نمک پاشی کے مترادف ہے۔ انھوں نے کہا بل تو عوام کو ہر صورت دینے پڑیں گے۔ اور یہ کہ مہنگائی اتنا بڑا مسئلہ نہیں کہ اس کے لیے احتجاج کیا جائے۔ یعنی مہنگائی تو ہے مگر اتنی مہنگائی نہیں۔ انھوں نے کہا کہ مہنگائی کے مسئلے کو جان بوجھ کر ہوا دی جارہی ہے اور اسے بڑھا چڑھا کر پیش کیا جارہا ہے۔ آئینی طور پر تو نگران حکومت کا کام صاف شفاف اور بر وقت انتخابات کو یقینی بنا کر اقتدار منتخب حکومت کے حوالے کرنا ہوتا ہے۔ مگر موجودہ صورتحال میں نگران حکومت جس نگرانی کے ساتھ اقتدار میں آئی۔ جس طرح نگران حکومت کے اقتدار کو طوالت دینے کی خبریں سامنے آرہی ہیں۔ اور پھر وزیر اعظم جس طرح کے بیانات دے رہے ہیں۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ ان کا ایجنڈہ انتخابات سے کہیں بڑھ کر عوام سے انتقام لینا ہے۔ اور اب تک عوام کا خون نچوڑنے میں جو کسر باقی رہ گئی تھی اسے پورا کرنا ہے۔ اس وقت حالت یہ ہے۔ کہ بجلی کے بلوں میں درجن بھر ناجائز ٹیکسز اور آئی ایم ایف کی شرط پر ٹیرف میں کئے گئے اضافے نے عوام کی چیخیں نکلوا دی ہیں۔ غریب عوام جن کے لیے دو وقت کی روٹی مشکل ہو چکی ہے ان کے لیے بجلی کے بل موت کے پروانے بن چکے ہیں۔ ملک بھر میں خود کشیوں اور گھریلو لڑائیوں میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ رہی سہی کسر پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کئے گئے حالیہ اضافے نے پوری کر دی ہے جس کے نتیجے میں ضروریات زندگی کی ہر چیز کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے۔ جبکہ ملکی معیشت کا یہ عالم ہے کہ ڈالر سنبھالے نہیں سنبهل رہا اس وقت ڈالر اوپن مارکیٹ میں 330 روپے میں بھی نہیں مل رہا جبکہ نگران وزیر اعظم کو یقین ہی نہیں آرہا کہ لوگ کس طرح کے حالات سے دو چار ہیں وہ فرماتے ہیں کہ مہنگائی اتنا بڑا مسئلہ ہی نہیں۔ آج حالت یہ ہے کہ بجلی کے ناقابل برداشت بلوں اور مہنگائی کی وجہ سے لوگوں کا سکون غارت ہوچکا ہے۔ غریب اور سفید پوش لوگوں کے گھروں میں تکرار اور لڑائیاں معمول بن چکی ہیں لوگ ایک دوسرے کے گریبانوں میں ہاتھ ڈال رہے ہیں سوال یہ ہے کہ جب لوگوں کے یہ ہاتھ حکمرانوں ، سیاستدانوں اور اشرافیہ کی گریبانوں تک آئیں گے پھر ان کو یقین آئے گا۔ یا پھر چوکوں چوراہوں میں اپنے حقوق کے لیے احتجاج کرنے والوں نے اپنا رخ حکمرانوں کے محلات کی طرف کر دیا تو پھر ان کو یقین آئے گا۔ یا پھر بھوک غربت بے روزگاری مہنگائی اور خوفناک بجلی بلوں کی وجہ سے آئے روز خود کشیاں کرنے والے وزیر اعظم ہاؤس یا سپریم کورٹ کے سامنے اجتماعی خود کشیاں کریں تو شاید ان کو یقین آ جائے کہ مہنگائی کتنا بڑا مسئلہ ہے۔

بشکریہ اردو کالمز