311

ہیڈ محمد والاکا حادثہ، لاپرواہی اور غفلت  قیمتی جانیں نگل گئی 

یہ خبر یقیناضلع لیہ کے باسیوں پر ایک دکھ اورالمیے سے کم نہیں کہ دوسروں کی آخری سانس تک بچانے کیلئے لڑنے والے خود ہیڈ محمد والا پر زندگی کی بازی ہار گئے موضع سمرا نشیب کے 1122میں خدمات انجام دینے والے بلال حسین،ریلوے سٹیشن کوٹ سلطان کے ظفر اقبال،شاہ پور لیہ کے محمد اصغر اس وقت تیز رفتار بس کی زد میں آگئے جب وہ موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا ایک انسان بچانے کیلئے  جنوبی پنجاب کے سب سے بڑے نشتر ہسپتال میں چھوڑ کر منزل مقصود کی جانب لوٹ رہے تھے 
ایسا واقعہ جو اتفاق سے ہوتا ہے یا پھر بدقسمتی سے ہوا واقعہ جو غیر متوقع طور پر یا غیر ارادی طور پر پیش آتا ہے۔عام طور پر اس کے نتیجے میں جانی یا مالی نقصان ہوتا ہے۔جب ایک گاڑی کسی دوسری گاڑی سے،پیدل چلنے والے،جانور،سڑک کے ملبے یا کسی دوسری بے جان رکاوٹ جیسا کھمبے،یا عمارت سے ٹکرا جاتی ہے تو اس کو سڑک پر حادثہ یا ٹریفک کا تصادم کہلاتا ہے۔مگر بلال حسین،ظفر اقبال اور محمد اصغر لاپراہی اور تیز رفتاری کی بھینٹ چڑھ گئے جن کے یہ پیارے جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ان کی کیفیت کیا ہوگی؟یہ وہی جانتا ہے جو ٹریفک حادثہ کی ایسی کیفیت سے گزرا اچانک جب لہُوسے لتھڑی شہدا کی لاشیں گھر کی دہلیز پر پہنچی ہونگی تو ایک ماِ ں پر،ایک بہن پر،ایک بیوی پر اور یتیم ہونے والے بچوں پر غشی کی کونسی حالت طاری ہوئی ہوگی؟
یہ حکومتی رپورٹ ہے کہ وطن عزیز میں ایک شخص ہر پانچ منٹ کے دوران روڈ حادثہ میں جان کی بازی ہار جاتا ہے یا ہمیشہ کیلئے معذوری اس کا مقدر بن جاتی ہے ہماری وزارت مواصلات کی ایک رپورٹ یہ ہے کہ وطن عزیز کا شمار ان ممالک میں ہے جہاں روڈ حادثے کا شکار فرد موقع پر زندگی کی سانسیں ہار جاتا ہے روڈ سیفٹی کے حوالے سے بہترین ممالک وہ ہیں جہاں 30دن کے اندر حادثے کا شکار فرد انتقال کرتا ہے روڈ سیفٹی کے حوالے سے وطن عزیز کا شمار دنیا کے بد ترین ممالک میں ہوتا ہے عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ ہے کہ پاکستان کے دس لاکھ افراد میں سے 14افراد روزانہ روڈ حادثات میں موت سے دوچار ہوتے ہیں سالانہ 30ہزار سے زائد افراد روڈ حادثات میں جان گنوا بیٹھتے ہیں۔آجکل سڑک حادثات بہت عام ہوگئے ہیں کیونکہ لوگ موٹر گاڑیاں زیادہ خرید رہے ہیں جس کی وجہ سے حادثات میں روز بہ روز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔عالمی ادارہ صحت ہی  کی رپورٹ کے مطابق 1.35 ملین سالانہ لوگ روڈ ایکسیڈنٹ میں مرتے ہیں۔دنیا میں ہر روز تقریبا 37 ہزار کے قریب لوگ کار،بس،موٹر سائیکل اور ٹرک جیسی گاڑیوں کی زد میں آکر موت کا شکار ہوتے ہیں۔20 سے 50 ملین کے درمیان لوگ مہلک چوٹوں ا ور جسمانی معذوری کا شکار ہوتے ہیں۔روڈ حادثات کی وجہ سے افراد،ان کے اہل خانہ اور پوری قوم کو انسانی جانوں کے ضیاع کے علاوہ بہت زیادہ معاشی نقصان پہنچتا ہے۔ٹریفک حادثات میں بیشتر ممالک کو ان کی مجموعی گھریلو پیداوار کی3 فیصد لاگت آتی ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق 90 فیصد ٹریفک اموات ترقی پذیر ممالک میں ہوتی ہیں۔افریقی علاقوں میں ٹریفک حادثات کی شرح سب سے زیادہ ہے۔یہاں تک کہ ترقی یافتہ ممالک میں بھی کچھ لوگ حادثات میں ملوث ہوتے ہیں۔بچے اور جوان جن کی عمر 5سے 29 سال تک کی ہے روڈ حادثات میں موت کا شکار ہوتے ہیں۔جوان لڑکوں کی ٹریفک حادثات میں اموات کی تعداد 73 فیصد زیادہ ہے بہ نسبت عورتوں کے۔اکثر لوگ نشہ کرکے ڈرائیونگ کرتے ہیں اس صورت میں ٹریفک کے حادثات کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔غیر محفوظ گاڑیاں سنگین قسم کے حادثات کا شکار ہوتی ہیں ٹریفک پولیس اور موٹر ویز پولیس کے مطابق زیادہ تر روڈ حادثات انسانی غلطی کی وجہ سے ہوتے ہیں جس میں زیادہ تر دارومدار ڈرائیور کی غفلت بنتی ہے ہمارے ہسپتالوں میں سہولتوں کا فقدان بھی انسانی جانوں کے ضیاع کا سبب بنتا ہے ملتان میانوالی روڈ وطن عزیز کی بڑی شاہراہ ہے جو آئے روز قیمتی انسانی جانوں کو نگل رہی ہے وزیر اعظم کا أبائی ضلع بھی میانوالی ہے  اس روڈ کی تعمیر کیلئے ایک طویل عرصہ سے جنوبی پنجاب کے شہری ون وے روڈ بنانے کیلئے آواز اُٹھا رہے ہیں لیکن ان کی آوازیں اقتدار کے ساؤنڈ پروف ایوانوں سے ٹکرا کر واپس لوٹ رہی ہیں اس شاہراہ کی خستہ حالت،ہر طرح کی گاڑیوں کی آمدورفت اور عدم تعمیر انسانی جانوں کا ضیاع بن رہی ہے ملتان میانوالی روڈ کو اکثر احباب ”شاہراہ موت“کا نام بھی دیتے ہیں جہاں آئے روز کوئی نہ کوئی حادثہ کسی پیارے کو اپنوں سے ہمیشہ کیلئے جدا کردیتا ہے سندھ میں ہونے والے چالیس فیصد حادثات ناقص طرز تعمیر کی حامل شاہراہوں پر ہوتے ہیں انڈس ہائی وے سندھ کی وہ واحد شاہراہ ہے جو اپنی تعمیر کے 23برس بعد بھی خستہ حالت میں موجود ہے اس روڈ کو 1998 میں جاپان کی معاونت سے تیار کیا گیا اور اس کا معائنہ کرنے سمیت اس پر کام کرنے والی تکنیکی ٹیم بھی زیادہ تر غیر ملکی تھی، اس لیے اس روڈ کی تعمیر، ڈیزائن اور معیار پر شک نہیں کیا جاسکتا، البتہ اس روڈ کے حوالے سے سیفٹی قوانین کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔
۔گاڑیوں کی حفاظت کے متعلق اقوام متحدہ کے متعدد ضوابط ہیں جو اگر گاڑیاں بنانے والے کارخانوں پر لگائے جائیں تو بہت سی جانیں بچائی جا سکتی ہیں۔غیر محفوظ سڑکوں کا انفراسٹرکچر یا سڑکوں کے ڈیزائن سے گاڑیوں کی حفاظت پر کافی اثر پڑ سکتا ہے۔مثال کے طور پر سڑک کو تمام قسم کی احتیاطی تدابیر کو مدنظر رکھتے ہوئے ڈیزائن کیا جانا چاہئے مگر ہمارے ہاں ایسا ممکن نہیں

بشکریہ اردو کالمز