توہین مذہب

کیا ہوتی ہے یہ توہین مذہب؟ اس کے معنی اور مطالب سے کوئی واقف ہے توکم ازکم مجھے ضرور بتائے! جب سے ہوش سنبھالا ہے مسلمانوں پر اپنوں اورکبھی غیروں نے اس مخصوص لفظ کی چھاپ سے دل چیر کر رکھا ہوا ہے۔

مغرب کا جب جی چاہتا ہے اظہار رائے کی آڑ میں دنیا کی سب سے قابل احترام ہستی ختمی مرتبت، سید عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان ارفع و اعلیٰ میں کوئی نہ کوئی دل جلانے والی بات کر بیٹھتے ہیں اور پھر امت مسلمہ کے ردعمل کو بے وجہ اور متشددانہ طرز عمل گردانتے ہوئے وہ کچھ کہہ دیتے ہیں کہ عاشق تڑپ کر رہ جائے … ہاں میں مانتا ہوں کہ سفیرکو ملک بدر کرنے کا معاہدہ سرا سر شعار اسلامی اور شریعت مطہرہ کے بنیادی اصول و ضوابط کے خلاف تھا… رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دورِ برہان میں سفیروں سے ایلچیوں کی طرح تعلقات تھے وہ اپنا پیغام لاتے تھے سرکار مکتوب الیہ روانہ فرماتے تھے…

خسرو پرویز ، ایرانی بادشاہ نوشیروان کا پوتا تھا ، جو کہ اپنے باپ ہرمز کے قتل کے بعد 15 فروری 590 عیسوی کو ساسانی تخت پر بیٹھا … مشہور ایرانی جنرل بہرام چوبیں نے خسرو کی اطاعت سے انکار کردیا تھا اور لڑائی میں خسرو کو شکست دی… یہ وہی ساسانی ہیں جنھوں نے آج تک اپنے قبیلے کے بدترین انسان ابو لولو فیروز نہاوندی پیروزی کو اپنا رہبر مان رکھا ہے اور اسے شجاع آبادی کا لقب دے کر نہاوند ایران میں اس بد ذات کی قبر پر جاتے ہیں جس نے امت کے بہترین عادل سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو عین حالت نماز میں شہید کیا۔

سرو پرویزکو یونانی افواج کے مقابلے میں بھی شکست ہوئی… اس نے راہ فرار اختیار کی مگر ایرانی امرا  نے گرفتارکر لیا اور اس کو اور اس کے بیٹوں کو قتل کردیا۔ فارسی ادب کی مشہور شخصیت شیریں اس کی ملکہ تھی… اس کے گھوڑے کا نام شب دیز تھا۔

خسرو پرویز چونکہ وہ رومیوں کی حمایت سے تخت نشین ہوا تھا ، اس طرح روم کو ایران میں مداخلت کا موقع مل گیا تھا … خسرو اپنے محسن قیصر روم مورس کی زندگی میں خاموش رہا … 604 میں مورس کے بعد فوکس قیصر روم منتخب ہوا،خسرو نے فورا جنگ کا اعلان کرتے ہوئے رومی علاقے پر حملہ کر دیا… یہ جنگ خسرو کی موت تک جاری رہی…627 میں دست گرد کے مقام پر رومی بادشاہ ہرقل نے خسرو کو آخری شکست دی ، خسرو میدان جنگ چھوڑ کر بھاگ گیا۔

ایرانی امرا نے ان ناکامیوں کو خسرو کی ذاتی کوتاہیوں پر مجہول کرتے ہوئے اسے تخت سے اتار کر قتل کر دیا … اس کا بیٹا شیرویہ جو خود سازش میں شریک تھا، قباد دوم کے لقب سے تخت پر بیٹھا۔

خسرو پرویز ساسانی خاندان کا آخری حوصلہ مند حکمران تھا، مگر عیش پسند اور مغرور بھی تھا… اس نے عظیم الشان محلات تعمیر کرائے اور عیاشیوں کے لیے وافر مقدار میں سامان مہیا کیے… مشہور ہے کہ اس کی بیویوں کی تعداد تین ہزار تھی… لیکن جب اس بدبخت نے رسول اللہ کا مکتوب الیہ چاک کیا اور اپنے ایلچیوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گرفتارکرنے مدینہ بھیجا تو رحمت اللعالمین کے تمام صحابہ خسرو کا غرور دیکھ کر سفرا کے قتل پر آمادہ ہوگئے لیکن مسکراتے رسول نے صرف اتنا فرمایا ’’ میرا دین قاصدوں ، ایلچیوں اور سفرا کو قتل کرنے کی اجازت دیتا ہے اور نا ہی وطن بدری کی،کیونکہ یہ تو صرف اپنی ریاست کے نمایندے ہیں کیوں نہ ان کو دین کی دعوت دی جائے اور بتایا جائے میرا رب کیسا مہربان اور نہایت رحم فرمانے والا ہے‘‘ نامزد اور باکمال صحابہ کرام اِن پر وقت صَرف کرتے اور بالاخر یہ دوڑے دوڑے رسول اللہ کے قدموں سے لپٹ جاتے اور پھر وہی ہوتا کہ ’’ اس کو سب مان گئے آپ کو جو مان گیا۔‘‘

میں اہل مغرب سے سوالی ہوں کہ ہمارے ہاں ابراہیم ، یعقوب ، اسحق ، یوسف ، عزیر ، صالح ، یحیی ٰ، موسیٰ، عیسیٰ سب ہی نام تو رکھے جاتے ہیں لیکن آپ نے کبھی ’’ محمد ‘‘ یا ’’ احمد ‘‘ نام کیوں نہیں رکھا؟ بغض و عداوت تو پھر آپ کا شیوہ رہا نا ؟ ہم تو انبیا میں تفریق کر ہی نہیں سکتے کہ یہ حکم ربی ہے لیکن آپ بشارت مصطفی دینے والے عیسیٰ ابن مریم اور زیارت محمد کے مشتاق موسی علیہ الصلوۃ والسلام کی اس خواہش کے بھی دشمن ہیں کہ انھوں نے سرکار کی اقتدا میں مقتدی بن کر نماز کے قیام کو اپنے لیے اعزاز جانا اور عملی طور پر آپ کو امام الانبیا بنا دیا …

اگر آپ واقعی کھلے دل کے مالک ہیں تو ہمارے نبی کی بھی تکریم کیجیے ، رکھیے نا اپنی نسلوں کے نام محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام پر … اور میں نبی پر جان چھڑکنے والے عاشقان سے بھی عرض گزار ہوں کہ نجاشی کے دربار میں ابوسفیان نبی کریم کے ساتھیوں کی حوالگی کا مطالبہ لے کرگئے تھے اور جب سیدنا جعفر طیار رضی اللہ عنہ کو نجاشی کے سامنے پیش کیا گیا تو اس نے ابو سفیان کی زہر بھری گفتگو سن کر کیا جعفر طیار سے نہیں پوچھا تھا ’’ تمہارے نبی ہماری پاک مریم کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟‘‘ اور عین اسی وقت سرکار العالمین کے اس چنے ہوئے سفیر نے سورہ مریم کی تلاوت کر کے نجاشی کو اشک بار کردیا تھا اور وہ غضب ناک ہو کر ابوسفیان سے یوں مخاطب ہوا کہ ’’جب تک میں زندہ ہوں محمد رسول اللہ کے ساتھی میرے مہمان بن کر رہیں گے۔ ‘‘

کیا آج ہم اتنے کمزور پڑ چکے ہیں کہ لاعلم غیر مذہب کے افراد کو نبی کریم کی پاک ہستی کی پاک و مطہر باتیں سنا کر لاعلموں کو علم سے بہرہ مند نہیں کر سکتے؟ اورکیا توہین مذہب کی چھتر چھایا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پروانوں کو شمع رسالت پر قربان ہونے سے باز آنے پر روکا جا سکتا ہے؟ نہیں نا ! تو پھر مغرب بھی مانے کہ نام محمد سے دور ہٹ کرکجی اور حسد کا مظاہرہ انھوں نے کیا ہے ، یہ جس جس کو اپنا نبی مانتے ہیں انھیں ٹھیس پہنچائی ہے …

اللہ کو ناراض کیا ہے اور دنیا کو نفرت کی آگ میں دھکیلا ہے! مکالمہ کیوں نہیں کرتے؟ سوالات و جوابات کی نشست کا اہتمام کرنے کے بجائے منہ سے نفرت کا کف کیوں اڑاتے ہو؟ رکھو نا اپنے بچوں کے نام احمد اور محمد ہم آپ کی اس ادا پر آپ کے شیدائی ہوجائیں گے … بہترین انسان کی پہچان علم سے نہیں ، ادب سے ہوتی ہے کیونکہ علم تو ابلیس کے پاس بھی موجود تھا لیکن وہ ادب سے محروم تھا … اہل مغرب سے کہنا چاہتا ہوں کہ جھانکنے کی صحیح جگہ اپنا گریبان اور رہنے کی صحیح جگہ اوقات ہے لہٰذا اوقات میں رہیے اور اس حد تک آگے نہ بڑھ جائیے کہ تہذیبوں کے تصادم کی آگ سب کو اپنی لپیٹ میں لے کر خاکستر کر ڈالے … نہیں مانتے نہ مانیے فیصلہ آپ کا لیکن ہمیں دعوت تو دیجیے کہ ہم آپ سے ایک بار مکالمہ کر سکیں۔

افلاطون نے کہا تھا ’’بچے اگر اندھیرے سے ڈر جائیں تو تعجب نہیں لیکن بالغ روشنی سے ڈرنے لگیں تو یہ حیرت کی بات ہوگی۔‘‘

بشکریہ روزنامہ آج