مشروط رابطے

بنیادی بات یہ ہے کہ جوہری ہتھیار و صلاحیت اور جوہری ٹیکنالوجی میں تحقیق جاری رکھنے کا عزم لئے دو ہمسائے ممالک کے درمیان کشیدگی کم کرنے کی کوششوں کو ضرور سراہا جانا چاہئے لیکن ماضی میں ان کے درمیان معاملات میں ایک قدم آگے اور دو قدم پیچھے جیسی صورتحال رہی ہے۔ اس لئے ضروری یہ ہے کہ ماضی میں سیکھے گئے سبق اور زمینی حقائق بشمول کشمیر میں بھارت کی جانب سے پیدا کئے گئے سخت حالات کو مدنظر رکھا جائے۔ بیک چینل رابطے کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔ جب بھی ممالک کے درمیان باضابطہ مذاکرات معطل ہوتے ہیں تو اِسی طریقے کا استعمال کیا جاتا ہے۔ ماضی میں بھی جب پاکستان اور بھارت اعلانیہ مذاکرات میں ناکام رہے تو ان بیک چینل رابطوں کا استعمال ہوا۔ بیک چینل رابطے رازداری سے یہ جاننے اور اندازے لگانے کیلئے بھی مفید ہوتے ہیں کہ کسی دوسرے فریق کے رویے میں کتنی لچک موجود ہے اُور وہ کس قدر لچک کا مظاہرہ کرنے کیلئے تیار ہے۔ باضابطہ مذاکرات میں ایسا کرنا مشکل ہوتا ہے کیونکہ ان مذاکرات میں عموماً طرفین ابتدا میں لچک دکھانے پر راضی نہیں ہوتے۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں مسئلہ کشمیر پر ہونے والے بیک چینل رابطوں اور ایک عارضی سمجھوتے تک پہنچنے میں تین سال کا عرصہ لگا تھا۔ یہ رابطے گزشتہ کچھ دہائی میں مسئلہ کشمیر کا سیاسی حل تلاش کرنے کیلئے سنجیدہ ترین کوشش تھی جو سرکاری عہدے داروں کے مابین ہوئے تھے جنہیں صدر پرویز مشرف اور وزیرِاعظم اٹل بہاری واجپائی کا مکمل اعتماد حاصل تھا۔ مشرف دور میں ہونے والی بات چیت سے دونوں ممالک نے باضابطہ مذاکرات کی بحالی کا اعلان کیا تھا۔ چھ جنوری دوہزارچار کو جاری ہونے والے مشترکہ بیان میں کہا گیا کہ ’جامع مذاکرات کی بحالی دونوں ممالک کے درمیان جاری دو طرفہ معاملات بشمول مسئلہ کشمیر کے قابلِ قبول حل کا باعث بنیں گے۔‘ اس کے بعد ہونے والے بیک چینل رابطے دراصل ترجیحی معاملات پر ہونے والے باضابطہ مذاکرات کا ہی ایک لوازمہ تھے۔ ان مذاکرات میں شریک مذاکرات کاروں کے ناموں کا بھی اعلان کیا گیا تھا۔ حالیہ بیک چینل رابطوں کے حوالے سے تفصیل پاکستانی حکام کی جانب سے سامنے آئی ہے اور بھارت کی طرف سے اس حوالے سے مکمل خاموشی ہے۔ بھارت میں اس حوالے سے کوئی بیک گراؤنڈ بریفنگ یا لیک سامنے نہیں آئی۔ پاکستان کی جانب سے اس یک طرفہ اعلان سے یہ تاثر جاسکتا ہے کہ پاکستان اس حوالے سے غیر معمولی دلچسپی رکھتا ہے۔ اس سے یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا حساس مذاکرات کے ابتدائی مرحلے پر ہی تفصیلات کا اعلان کرنا مناسب ہے خاص طور پر اس وقت کہ جب کسی چیز پر اتفاق ہی نہ کیا گیا ہو چونکہ موجودہ رابطوں کو ’مذاکرات کے حوالے سے بات چیت‘ کہا جارہا ہے تو کچھ نکات کو مدنظر رکھنا فائدہ مند ہوگا۔پہلا نکتہ: پہلی بات تو یہ ہے کہ پاکستانی مذاکرات کاروں کو یہ جانچنا ہوگا کہ بھارتی اقدامات فوجی نوعیت کے ہیں یا سٹریٹجک نوعیت کے اور پھر اس حساب آگے بڑھنا ہوگا۔ پاکستان کے حکام کا دعویٰ ہے کہ بھارت تمام معاملات پر بات چیت کیلئے تیار ہے۔ یہ معلوم کرنے کی ضرورت ہے کہ آخر اس سے کیا مراد ہے؟ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ بھارت مسئلہ کشمیر سمیت تمام حل طلب معاملات پر جامع مذاکرات چاہتا ہے یا پھر اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ صرف ایک لاحاصل مذاکرات ہوں گے جس میں بھارت مسئلہ کشمیر کو اپنا اندرونی معاملہ قرار دے گا اور پانچ اگست دوہزاراُنیس کے اقدامات کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال پر کوئی بات چیت نہیں کرے گا۔دوسرا نکتہ یہ کہ پاکستان کو اپنے اصولی مؤقف اور خاص طور پر مسئلہ کشمیر کے حوالے سے کچھ حدود کا تعین کرنا ہوگا۔ بھارت کے ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی رپورٹس کے مطابق بھارت پاکستان سے اِس بات کی اُمید لگائے بیٹھا ہے کہ پاکستان کشمیر کے غیر قانونی الحاق کو ختم کرنے کے مؤقف کو ترک کردے گا۔ پاکستانی حکام کے مطابق ’کشمیریوں کو ریلیف فراہم کرنے‘ جیسے فوری مقاصد پر بھی بات چیت ہوگی۔ غالباً اس کیلئے اعتماد سازی کے طریقوں کی مدد لی جائے گی۔ بہرحال اس مقصد کو جامع مذاکرات سے علیحدہ رکھنے کے بجائے ان مذاکرات کا حصہ بنانا چاہئے۔ یہاں بھی ماضی کے تجربات کو سامنے رکھنا ہوگا۔سال دوہزارچار سے دوہزارآٹھ کے دوران ہونے والے مذاکرات میں کشمیر کے حوالے سے طے شدہ اعتماد سازی کے اقدامات کشمیر پر ہونے والے مذاکرات کے متبادل نہیں تھے بلکہ ان کا حصہ تھے۔ تیسرا نکتہ یہ ہے کہ بیک چینل رابطوں کو کسی بھی صورت نتیجہ خیز مذاکرات نہ سمجھا جائے۔ ایک طویل عرصے سے بھارت کا یہ مقصد رہا ہے کہ پاکستان کو کسی ایسے عمل میں الجھائے رکھے جس میں کسی بھی معاملے پر کسی نتیجے پر نہ پہنچا جائے اور پھر دنیا کے سامنے خود کو قابلِ قبول بنایا جائے۔ بھارت مسائل کو حل کئے بغیر دہشت گردی اور تجارت کو ترجیح دے کر حالات کو معمول پر لانا چاہتا ہے۔ اگر ایسا ہی ہے تو پھر اس طرح کے مذاکرات کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ اس کے نتیجے میں حاصل ہونے والا سکون عارضی ثابت ہوگا۔ کشیدگی میں کمی لانا ایک بڑا مقصد ہے لیکن یہ حالات کو معمول پر لانے سے مختلف ہے۔ حالات کو معمول پر لانے کیلئے اختلافات کو ختم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ حالات معمول پر آنے میں وقت لگتا ہے اور یہ کشیدگی میں کمی آنے سے مختلف صورتحال ہوتی ہے۔چوتھا نکتہ یہ کہ پاکستان اور بھارت کے مابین ہونے والی بات چیت کیلئے بیک چینل کو واحد ذریعہ نہیں بننا چاہئے۔ اس کے نتیجے میں باضابطہ اور جامع مذاکرات کو بحال ہونا چاہئے معاملہ جو بھی ہو ٹریک ٹو کے دوران ہونے والے معاہدوں کو ’فرنٹ چینل‘ مذاکرات میں باضاطہ شکل دینی چاہئے۔ سفارتی مذاکرات کی ذمہ داری تجربہ کار سفارت کاروں کو ہی دینی چاہئے جو اس کام کی اہلیت رکھتے ہوں۔ وزارت ِخارجہ کو بھی بیک چینل رابطوں کے حوالے سے آگاہ رکھنا چاہئے اور ان سے مشورہ بھی کرنا چاہئے۔پانچواں نکتہ یہ ہے کہ کسی بھی قسم کا اعلان فریقین کی باہمی رضامندی سے اور صرف اس صورت میں ہونا چاہئے جب کوئی پیشرفت ہوجائے۔ اہم بات یہ ہے کہ وزیرِاعظم اور آرمی چیف کی جانب سے مفاہمت کے بیانات کے جواب میں دوسری جانب خاموشی ہے۔ آخری اور اہم بات یہ ہے کہ بھارت کے ساتھ معاملات میں پاکستان کو اپنی عزت اور وقار کو برقرار رکھتے ہوئے امن کے حصول کے اصول کو تھامے رکھنا ہوگا۔ (مضمون نگار امریکہ‘ برطانیہ اور اقوام متحدہ میں بطور سفارتکار پاکستان کی نمائندگی کر چکی ہیں۔ (بشکریہ: ڈان‘ ترجمہ: ابواَلحسن امام)

بشکریہ روزنامہ آج