عیدتعطیلات‘حسن اتفاق

اندیشہ تھاکہ جامعہ پشاور کے نئے وائس چانسلر عید کی تعطیلات میں ممکن ہے کہ انجینئر امتیاز گیلانی کی طرح سرکاری پیروی کو ترجیح دے کر یونیورسٹی ملازمین کی جی بھر کر تعطیلات کی خودمختاری کی راہ میں حائل ہونگے مگر حسن اتفاق دیکھئے کہ حکومت نے بھی پوری آٹھ چھٹیوں کا اعلان کیا اور یوں گنتی شروع ہونے سے پہلے آنیوالے ہفتہ اور اتوار نے جامعہ کے خود مختار ملازمین کی مرضی کی گنتی پوری کردی ویسے تو کورونا نے چھٹیوں کی ضرورت ختم کردی ہے کیونکہ چودہ مہینے سے کبھی لاک ڈاؤن کبھی سمارٹ لاک ڈاؤن اور کبھی خود ملازمین کے اپنے ہاتھوں کی تالہ بندی نے دفتری کام کاج کو خیرباد کہہ دیا ہے باقی رہا درس و تدریس کا سلسلہ تو اسکی حالت مت پوچھئے یعنی ہر دوسرا طالب علم انٹرنیٹ سہولت کی عدم دستیابی کے سبب آن لائن کلاسز سے محروم اور فیس کی ادائیگی کا پابند ہے جامعہ کے ملازمین ہمیشہ سے حکومتی اعلان کے برعکس یعنی مرضی کی چھٹیاں کرتے ہوئے یہ دعویٰ کرکے چلے آئے ہیں کہ وہ خود مختار ہیں مگر مملکت خداداد کے آئین میں اٹھارویں ترمیم کے بعد یونیورسٹیوں کو خود مختار کہنا یا قرار دینا اپنے آپ کو ورغلانے کے سوا کچھ نہیں یار لوگوں نے گزشتہ سال مارچ کے وسط سے تاحال ون ونڈو ورک‘ کاؤنٹر ورک‘ حاضری سے پچاس فیصد استثنائی ورک اور مکمل لاک ڈاؤن کے مراحل سے گزرنے میں اپنی محنت کا معاوضہ وصول کیا ہے مگر پھر بھی اس حلوے میں کانٹا اس وقت نکل آیا جب سرکاری جامعات نے مراعات کٹوتی کا حکومتی مراسلہ بطور حکومتی فرمان منظور کرکے تنخواہوں میں ملک کی تاریخ کی پہلی پاگل کر دینے والی مہنگائی کے باوجود کمی کا سامان کیا‘ ملازمین کی چیخ وپکار کی بالکل شنوائی نہیں ہوئی نئے پاکستان کے دھرنا احتجاج کی ریہرسل بھی کی گئی اور سڑکوں کو بلاک کرکے لوگوں کی تکلیف یعنی مردم آزاری کا اہتمام بھی کیا گیا مگر کچھ ہاتھ نہیں آیا۔ مراعات کٹوتی کیخلاف ملازمین کے احتجاج میں لگنے والے نعروں اور ہونیوالے مطالبات کی مثال میرے نزدیک کچھ ایسی تھی جیسے حکومت گزشتہ ایک سال سے بار بار عوام سے احتیاطی تدابیر کی پاسداری کی اپیلیں کرکرکے نہیں تھکتی اور عوام کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی تو مراعات کٹوتی کا مراسلہ تو خیر سے تھروپراپرچینل منظور ہوا اور یوں ملازمین کے میڈیکل الاؤنس اور ہاؤس سبسڈی میں کمی کرکے تنخواہوں کی کمر توڑ دی گئی مگر ایک نہایت تلخ بات یہ سامنے آئی کہ صرف الاؤنسز میں کٹوتی پر اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ ملازمین کو اس سے بھی کچھ زیادہ قربانی کا بکرا بنانے کا اہتمام کرتے ہوئے یونیورسٹی میں اس سے قبل مفت تعلیم حاصل کرنیوالے ان کے بچوں کی فیسیں بھی مقرر کی گئیں مطلب یہ کہ دیہاتی سیانوں کی یہ بات اب گئی گزری ہوگئی کہ یونیورسٹی کی نوکری ہے اسے کریں بھی مت اور چھوڑیں بھی مت‘ ایک طرف کورونا کے کاری ضرب اور دوسری جانب بیروزگاری اور بدترین مہنگائی کے اس بدترین دور کے شہر ناپرسان میں امسال بھی یوم مزدور یکم مئی خاموشی سے آکر گزر گیا۔ نئے پاکستان میں مزدور کے جسم اور روح کا رشتے برقرار دیکھتے ہوئے یہ یقین مزید پختہ ہو جاتا ہے کہ واقعی رازق اللہ ہے۔ کورونا نے یہ حقیقت بھی واضح اور ثابت کردی کہ جامعات کے حقیقی سٹیک ہولڈر طلباء میں جس کے نہ ہونے سے یونیورسٹیوں میں ہر سو خاموشی تو کیا ہوکا عالم ہے سننے میں آیا ہے کہ وباء نے تعلیم کو جس قدر تبا ہی سے دوچار کردیا اس کے ازالے کیلئے تو اربوں روپے ریلیف پیکیج کی ضرورت تھی مگر ضرورت اس بے چاری قوم اور اس لاوارث تعلیم کی تھی یعنی حکمرانوں کی نہیں تھی اسلئے محسوس نہیں کی گئی اور کہا جاتا ہے کہ اس ضرورت کو پورا کرنے کیلئے فیسوں میں بے تحاشا اضافے کی شکل میں طلباء کو قربانی کا بکرا بنایاجارہا ہے۔
 

بشکریہ روزنامہ آج