277

حقائق!

میرا قلم حقائق بیان کرنے سے باز نہیں آتا جب کہ حقائق سننا اور پڑھنا پھر اُسے برداشت کرنا بہت مشکل کام ہے۔ جو لوگ حق سنتے ہیں ان کی تعداد دنیا بھر میں آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ آج کالم میں تاریخی تعصب کی عینک اتار کر لکھناچاہتا ہوں۔ میرا مقصد قوم کو آئینہ دکھانا مقصود نہیں۔ مجھے معلوم ہے کہ قوم حقیقت سننے کی عادی ہی نہیں پھر بھی سننا مقصودہے جب تک ہم حقائق کی حقیقت تک نہیں جاتے مسائل کا ادراک ممکن نہیں۔ اگر کوئی ڈاکٹر بغیر تشخیص کے علاج کرے تو  مرض بڑھتا ہے کم نہیں ہوتا شاید وقتی طور پر افاقہ ہو بھی جائے مرض ختم نہیں ہوتا پاکستان کے مسائل کا حل ہم ٹوٹکوں سے کرتے ہیں۔ تشخیص نہیں کرتے ہم مسائل کی دبیز تہہ سے دامن بچا کر نکل جاتے ہیں۔ صرف سیاسی ٹوٹکوں پر اکتفا کرتے ہیں۔ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جس میں حقائق سے پردہ اٹھانا سب سے مشکل کام ہے ہم لوگ بنیادی طور پر فرقہ پرست، پیر پرست ، لیڈر پرست واقع ہوئے ہیں۔ ہم اپنے لیڈر اورپیر کو بطور انسان نہیں دیکھتے بلکہ اسے کسی اور دنیا کا تصورکرتے ہیں۔ آج بھی پاکستان میں بھٹو پرست، بے نظیر پرست ، نوازشریف پرست،باچا خان پرست، الطاف پرست اورعمران خان پرست موجودہیں۔ ہم اپنے ان سیاسی دیوتوں کو مافوق الفطرت سمجھتے ہیں۔ تاریخ شاہد ہے ان سیاسی دیوتوں نے ملک کو عوامی منشاء سے نہیں بلکہ اپنی مرضی سے چلانے کی کوشش کی ہے۔ پھر ملک کو پیچھے دھکیلنے والے تو بے شمار ملے ہیں۔ ملک کو آگے لے جانے والے کم ملے ہیں۔ ملک کو لوٹنے والے تو بہت زیادہ اور ملک کو بچانے والے کم تعداد میں ملے ہیں۔ نااہل سیاست دانوں کی وجہ سے ملک پستی کی جانب گیا ہے اب پاکستان کاپورا معاشرتی نظام ہی ہڑپ کر گیا ہے اکیلے سیاست دان اتنے قصور وار نہیں جتنے ہم خود ذمہ دار ہیں۔ مضبوط مافیا نے پورے ملک کو اپنے حصار میں لیاہوا ہے۔ مافیاز کوئی آسمان سے نہیں آئے ہم نے خود پیدا کئے ہیں۔ پہلے مافیا کی جڑیں صرف سیاست دانوں تک تھیں اب اسٹیبلشمنٹ تک ہے۔ جب سے ملکی سیاست کمرشل ازم کا شکار ہوئی ہے مافیا کو خوب بڑھنے پھولنے کا موقع ملا ہے اب مافیا والے ایک محاذ پر نہیں کئی محاذ پر کھیلتے ہیں۔ مافیاز کی ایماء پر سیاست دان سیاسی جواء کھیلتے ہیں پھر مافیاوالے سیاست دانوں سمیت دیگر کے ناز نخرے بھی اٹھاتے ہیں جب سیاست دان اقتدار میں آتے ہیں تو الیکشن اخراجات برداشت کرنے والوں کے مسائل ہی حل ہوتے ہیں ان کے ناجائز کام کو بھی تحفظ مل جاتا ہے مل کر لوٹ مار کرتے ہیں۔ پہلے جواء کے اخراجات بمعہ سود وصول کرتے ہیں ۔ پھر اگلے الیکشن کے اخراجات اکٹھے کرتے ہیں۔ سیاست دانوںکی اکثریت جذبہ حب الوطنی سے عاری نظر آتی ہے بلکہ ذاتی مفادات کے حصول کے لیے الیکشن کا حصہ بنتی ہے پھر سیاسی جماعتیں اپنے اپنے سیاسی گھوڑوں کے مفادات کا کھل کر تحفظ کرتی ہیں۔ اب سیاسی جماعتیں ورکر پر اکتفا کرنے کی بجائے مافیاز اورکچھ خفیہ ہاتھوں کاسہارا ڈھونڈتی ہیں۔ اب کسی سیاسی جماعت کے پاس کوئی نظریہ نہیں بلکہ نظریہ ضرورت کے تحت ہی کام کرتی ہیں۔ وہی گھسے پٹے چہرے جو آج کسی پارٹی میں کل کسی اور پارٹی میں ہوتے ہیں پھر سیاسی جماعتیں صرف چہرے دیکھتی ہیں کردار نہیں پھرالیکشن کمیشن کے پاس کوئی پیمانہ نہیں جس پر سیاست دان کو پرکھا جاسکے پھر سیاست کے لیے تعلیم کا بھی کوئی معیار نہیں ۔ کتنی بدقسمتی ہے کہ ایک چپڑاسی کی بھرتی کے لیے تو اصول ہیں ملک کے سپریم ادارے کو چلانے والوں کے لیے کوئی اصول نہیں کوئی بھی اَن پڑھ اور کرپٹ شخص جیت کر پارلیمان کا حصہ بن سکتا ہے۔ قائداعظم کی وفات کے بعد سیاست پر قبضہ اُن لوگوں کا ہوگیا جو جاگیردار اورسرمایہ دارتو تھے سیاست دان نہیں تھے جب یہ سیاست دان ملک کو چلا نہ سکے تو بڑی تعداد فوج کی جھولی میں بیٹھ گئی انہیں سیاست دانوں کی بدولت ملک میں کئی مارشل لاء لگے بھٹو کی وفات کے بعد ملک کی سیاست نے نیا رخ اختیار کیا ۔ سیاست میں کمرشل ازم کا عنصر نمایاں ہوگیا پاکستان کی تاریخ میں بہت کم سیاست دان اصول پرست نظر آئے جبکہ اکثریت کا کوئی اصول ہی نہیں، نااہل سیاست دانوں کی وجہ سے ملک کی سیاسی کشتی کا چپو کا کنٹرول آف کمانڈکسی اور کے ہاتھ میں ہے جہانگیرترین بھی کمرشل ازم کی پیداوار ہے مافیا کا سرغنہ جب سیاست دان کا روپ دھارتا ہے تو کتنا خطرناک ہوتا ہے۔ جہانگیر نے بھی عمران خان پر اربوں کا جواء کھیلا اب وہ بمعہ سود وصولی چاہتا ہے۔ جب کہ حکمران اُسے آنکھیں دکھا رہے ہیں۔ حکومت اگرمافیاز کو نکیل ڈالناچاہتی ہے تو نظام درست کرے ورنہ جہانگیرترین جیسے بڑے لوگ عدالتوں سے بری ہو جاتے ہیں جو حکومت اور عوام کے منہ پر طمانچہ ہے۔
 

بشکریہ اردو کالمز