7186

بھارت اور کنبھ میلہ

بھارت میں کنبھ میلہ ہر بارہ سال بعد ہوتا ہے۔ یہ میلہ بھارت کے تین دریاؤں گنگا ، جمنا اور سرسوتی کے سنگم پر منعقد ہوتا ہے۔ جس میں پورے بھارت اور دنیا کے دیگر ممالک سے ہندو شریک ہوتے ہیں۔ یہاں ایک انوکھا منظر دو دریاؤں کا الٰہ آباد کے قریب نظر آتا ہے، جس میں دونوں دریا مل کر چلتے ہیں اور ان کے پانی کی رنگت الگ الگ ہوتی ہے۔

یہاں جو میلہ برپا ہوتا ہے، اس میں لوگوں کی تعداد کروڑوں میں ہوتی ہے، مگر اس مرتبہ کا جو میلہ تھا وہ کورونا کی آمیزش کے ساتھ تھا ، مگر اس کو بھارتی حکومت منسوخ کرنے میں یا اس کو محدود کرنے میں ہمت نہ دکھا سکی۔ حالانکہ طبی ماہرین نے اس بات کا خدشہ ظاہرکیا تھا کہ میلے کے بعد وبا بڑی قوت سے متحرک ہو جائے گی اور پھر یہی ہوا کہ یوپی ، کرناٹکا ، مہاراشٹر ، دہلی اور گجرات میں اموات کے انبار لگ گئے۔

بڑے شہروں میں اس قدر اموات ہوئیں کہ نعشوں کو کوڑے کی گاڑیوں میں لے جایا جانے لگا ، اخبار کے نمایندوں کا یہ کہنا تھا کہ اسپتالوں میں آکسیجن کے خاتمے کے سبب ہزاروں اموات ہونے لگیں۔ دنیا بھر کے اخبار اس بھیانک منظر کو اپنے اپنے انداز میں پیش کر رہے ہیں۔

 

دنیا کے بیشتر ممالک نے بھارت سے آنے والی فلائٹ کو منسوخ کردیا ہے۔ بھارتی اعدادوشمار کے مطابق چوبیس گھنٹے میں ڈھائی ہزار سے زائد اموات ہوچکی ہیں۔ یہ تو وہ ہیں جو اسپتالوں میں درج افراد تھے اور ہزاروں ایسے جو گلی کوچوں، دیہاتوں میں موت کی نیند سو گئے۔

ان حالات کو دیکھتے ہوئے پاکستان کی حکومت نے بھی ہمسایہ ہونے کے سبب انسانی ہمدردی کو مدنظر رکھتے ہوئے بھارت کو طبی امداد کی پیش کش کی ہے۔ حالانکہ یہی مسٹر نریندر مودی ہیں جنھوں نے اپنے مذہب کو استعمال کیا اور کنبھ میلے کو منسوخ نہ کیا اور کوئی احتیاطی تدابیر بھی نافذ العمل نہ کی اور اب وہ ایک وبا کی شکل میں پورے ملک میں پھیل گیا یہاں تک کہ اب حیدرآباد دکن میں بھی کورونا پھیل رہا ہے مگر دکن کے مسلمان ہندو مت کے لوگوں اور ڈاکٹروں کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں۔وہ اپنا پلازمہ اور خون ہندو مریضوں کو دے رہے ہیں جس سے بھائی چارگی میں اضافہ ہو رہا ہے۔

بقول ایک رہنما کے جو حیدرآباد دکن میں تقریر کر رہے تھے کہ اب مسلمان کا خون ہندو بھائیوں کی رگوں میں سرائیت کرنے لگا اور ان کو صحت مہیا کرے گا۔ جو مسلم بھائی اسپتالوں میں پلازمہ اور خون دے کر آ رہے ہیں ان پر ہندو رعایا ، پھول نچھاور کر رہی ہے۔ اس طرح آر ایس ایس جو نفرتیں دلوں میں ڈالتی ہے اس کو یہ پھول کی لڑیاں دوستی میں بدل رہی ہیں۔ لہٰذا بھارت میں نئے باب کا اضافہ ہو رہا ہے۔ زیادہ اموات کی وجہ سے مردہ جلانے کے لیے لکڑی کی کمی ہوگئی ہے اور اسپتالوں میں آکسیجن ختم ہوچکی ہے۔

یوپی اور ممبئی کے اسپتال آکسیجن کی کمی کا شکار ہوگئے ہیں۔ ایک اخباری اطلاع کے مطابق آکسیجن کے سیلنڈر کیرالہ اور دوسرے صوبوں سے جن جن جگہوں پر آکسیجن کی کمی واقع ہو وہاں بیشتر عوام کو آکسیجن دے کر بچایا جا رہا ہے لیکن کمی اتنی زیادہ ہے کہ زیادہ تر اموات آکسیجن کی کمی سے ہو رہی ہیں۔ اس لیے حکومت پاکستان نے بھی اپنا دامان وسیع کردیا ہے تاکہ اموات پر قابو پایا جاسکے، لیکن اموات وبائی شکل اختیار کر گئی ہیں جس کے نتیجے میں نریندر مودی کے مذہبی فلسفے سے منفی قوتوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ بھارت نے جو اعلان کیا تھا کہ اس نے بھی کورونا ویکسین بنا لی ہے لیکن نریندر مودی کو ویکسین لانے کے منصوبے پر عمل درآمد کا باقاعدگی سے خیال نہیں آیا۔ کیونکہ نریندر مودی اپنی ذات کے فروغ اور نمائش میں اس قدر مبتلا ہوگئے ہیں کہ وہ کروڑوں روپے کے لباس میں ملبوس ہوکر اپنی نمائش کرتے ہیں۔ ان کو اپنی کم علمی کا اس قدر احساس ہے کہ وہ رابندر ناتھ ٹیگورکی شکل میں اپنی داڑھی مونچھیں رکھ کر تصویریں کھنچوانے میں مصروف ہیں۔ بھلا کہاں رابندر ناتھ ٹیگور جیسے درویش منش شاعر جو نوبل انعام یافتہ ہیں اور کہاں نریندر مودی۔

نریندر مودی کی پارٹی نے جو بھارت کے انتہائی دائیں بازوکی ایک جماعت ہے ، اس نے دانستہ کنبھ میلے کی اجازت منسوخ نہیں کی تاکہ بھارت کے ہندو مت میں ان کا تصور بلند مرتبے کا حامل رہے اور پھر ان کو اور ان کی پارٹی کو اس بات کا وشواس تھا کہ بھگوان ان پر کرم کرے گا اور کورونا عوام میں ضرب کرنے سے قاصر رہے گا۔ لیکن ان کو قدرت کے کارخانے کا یہ اصول معلوم نہ تھا کہ قدرت ہر ذی حیات کی بقا کو اہمیت دیتی ہے۔ خواہ وہ ذی حیات اتنی حقیر ہی کیوں نہ ہو کہ عام آنکھوں سے ان کی بینائی ممکن نہ ہو۔ ان کی حفاظت کا بھی ایک قانون موجود ہے۔

اسی لیے تمام بیکٹیریا فروغ پاتے ہیں۔ مگر ادویہ اپنا اثر و رسوخ رکھتی ہیں اور قدرت ان کی تائید میں مصروف رہتی ہے۔ اسی طریقے سے کاروان حیات رواں دواں ہے اور قدرت انسانی مشقت کو رائیگاں نہیں کرتی۔ اسی لیے ادویات کا کردار حکیم لقمان سے لے کر آج تک پروان چڑھتا جا رہا ہے ، مگر قدرت کے اس قانون کو آر ایس ایس نے الیکشن میں شماریات کے فوائد کی بنیاد پر رد کردیا۔ اس لیے بھارت میں لاکھوں انسانوں کی زندگی لیڈروں کی نااہلی کی بنیاد پر ان کی سوچ کا شکار ہوگئی اور آج وہ بھی ہاتھ مل رہے ہیں کہ کاش وہ ایسا نہ کرتے۔ قدرت کے قانون سے ٹکر لینا خواہ مذہب کا نام لے کر کیوں نہ لیا جائے انسان کبھی سرفراز نہیں ہو سکتا۔

ان حالات کے پیش نظر بھارت میں بی جے پی اور آر ایس ایس نے تمام تر عیوب اور فساد کی بنیاد مسلمانوں کو قرار دیا تھا ، اب وہ خود  قدرت کی گرفت میں آگئے ہیں۔کنبھ میلے کی غلطیوں کو ماننے سے وہ انکار تو نہیں کرسکتے۔ ایسا لگتا ہے کہ قدرت نے ان کے ہونٹ سی دیے ہیں۔ اسی لیے دنیا بھر کے میڈیا کی تضحیک کے باوجود وہ جواب دینے سے قاصر ہیں۔ یہاں تک کہ پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے اپنے پڑوسی کی مدد کے لیے جن اقدامات اور امداد کا اعلان کیا اس کی تعریف بھی بھارتی حکمران نہ کرسکے۔

یہاں تک کہ ایدھی فاؤنڈیشن کی جانب سے پچاس ایمبولینسوں کا جو تحفہ دیا جانا تھا اس کی وصولیابی پر بھی فیصل ایدھی کو کوئی جواب نہ دیا گیا۔ حالانکہ اطلاعات کے مطابق لکھنو اور الٰہ آباد میں مردہ افراد کوڑے کی گاڑیوں میں شمشان گھاٹ پہنچائے جا رہے ہیں۔

بھارت کی صورتحال تو سب کے سامنے ہے۔ پاکستان جو ان کا پڑوسی ملک ہے یہاں بھی کورونا کے حالات تیزی سے خراب ہو رہے ہیں کیونکہ وائرس کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہوتا۔ پاکستان کی سرحدیں اور آبادیاں بھارت کی آبادیوں سے قریب تر ہیں۔ لہٰذا پاکستان کو بھی حفظ ماتقدم کے طور پر زیادہ احتیاطی تدابیر اختیار کرنی پڑ رہی ہیں۔ کیونکہ آبادی کا ایک بڑا حصہ ابھی تک ویکسین نہیں لگوا سکا ہے، لیکن بھارت کے دعوے کے مطابق بھارت نے کورونا ویکسین تیار کرلی تھی۔ لیکن اس نے سرعت اور منصوبہ بندی کے ساتھ بروقت عوام میں ویکسینیشن نہیں کی۔

یہ مانا کہ بھارت میں آمد و رفت کا نظام کسانوں کی ہڑتالی تحریک سے مفلوج ہو چکا ہے اور بھارتی حکمران ابھی بھی ان کی آواز کو کئی طریقے سے دبانے میں مصروف ہیں اس لیے آمد و رفت کی یہ طوالت آسانی سے کم نہ ہوگی اور ایسے حالات میں حکومتی کارکردگی تعطل کا شکار رہے گی لہٰذا بھارتی حکمران پارٹی کو اپنے زاویہ نگاہ کو تبدیل کرنا ہوگا۔ ملک کی تمام اقلیتوں کو ان کے حقوق دینا ہوں گے اور کسی ایک مذہب کا غلبہ دوسرے مذہب پر کرنا مناسب نہ ہوگا۔ بے شمار مسلمانوں نے اسپتالوں میں جا کر کورونا کا شکار ہندووں کو خون اور پلازمہ دیا ہے۔ انسانیت کے ناتے یہ بڑی خوش آیند بات ہے۔

بشکریہ ایکسپرس