135

معاہدہ لوزان کے حقائق

پاکستان میں سوشل، الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا میں طویل عرصے سے ترکی کے سن1923ء میں اتحادی ممالک کے ساتھ طے پانے والے معاہدہ لوزان کے سوسال پورا ہونے کے بعد معاہدہ ختم ہونے اور اس کے نتیجے میں ترکی کو مکمل طور پر آزادی حاصل ہونے کی خبریں اور تبصرے جگہ پاتے چلے آرہے ہیں۔ تبصرے دیکھیں تو آپ کو محسوس ہوگا کہ معاہدہ لوزان واقعی 2023ء میں ایک سو سال مکمل ہونے پر اپنے انجام کو پہنچ جائے گا اور ترکی مکمل طور پر آزاد ہوتے ہوئے اپنی عظمت ِرفتہ حاصل کرلے گالیکن میں واضح کردوں کہ ایسی کوئی دستاویزترکی، فرانس، امریکہ، برطانیہ یا دنیا کے کسی بھی ملک میں موجود نہیں ہے(کیونکہ حقیقت میں ایسی کسی دستاویز کا سرے سے وجود ہی نہیں ہے)۔ ان ماہرین میں سے چند ایک ایسے بھی ہیں جن کا خیال ہے کہ 2023ء میں اس معاہدے کے خاتمے کے ساتھ ہی ترکی اپنی جمہوری حیثیت ختم کرکے خلافتِ عثمانیہ کو بحال کرنے کا اعلان کردے گا۔ میرا ان ماہرین سے بڑا سادہ سا سوال ہے جب کوئی ایسا معاہدہ ہی موجود نہیںتو ترکی بھلا کیسے وہ آزادی حاصل کرلے گا، کیسے خلافتِ عثمانیہ بحال کرےگا ؟ ترکی نے جب خود ہی اس معاہدے پر دستخط کرتے وقت خلافتِ عثمانیہ کی حدود میں واقع تمام ممالک شام عراق، لبنان اور سعودی عرب کو الگ الگ آزاد ریاستوں کے طور پر تسلیم کرلیا اور یہ تمام ممالک اب اقوام متحدہ کے رکن بھی ہیں تو وہ بھلا کیسے انہیں دوبارہ اپنی خلافت میں شامل کرسکتا ہے؟ دوسری اہم بات ترکی اب ایک جمہوری ملک ہے اور اس جمہوری ملک میں تمام اداروں کا نظم و نسق جمہوریت یا ڈیموکریسی کےاصولوں کے مطابق ہی چلایا جاتا ہے۔ پاکستان کے ماہرین جو اس بات کا دعویٰ کرتے ہیں کہ صدر ایردوان 2023 ء میں دوبارہ صدر منتخب ہونے کے بعد ملک میں خلافت بحال کردیں گے ،وہ یہ بات بھول جاتے ہیں کہ صدر ایردوان نے کبھی خلافت قائم کرنے کا اعلان نہیں کیا کیونکہ انہیں اس بات کا اچھی طرح احساس ہے کہ وہ خود بھی جمہوری طریقے سے منتخب ہو کر آئے اور اگر انہوں نے عوام سے خلافت قائم کرنے کا وعدہ کرتے ہوئے صدارتی انتخابات میں ووٹ لینے کی کوشش کی تو وہ کسی بھی صورت اتنے ووٹ حاصل نہیں کرسکیں گےکہ ایک بار پھر صدر منتخب ہو جائیں۔ پاکستانی ماہرین کا یہ دعویٰ بھی بڑا مضحکہ خیز ہے کہ ترکی کو اب تک معاہدہ لوزان کی رو سے ہی اپنی سرزمین سے پٹرول یا معدنیات نکالنے کی اجازت حاصل نہیں ہے جبکہ اس سے آزادی حاصل کرنے والے تمام عرب ممالک جن میں عراق اور سعودی عرب پیش پیش ہیں‘ بڑے پیمانے پر پٹرول نکال رہے ہیں۔ ان کے لیے عرض ہے کہ معاہدہ لوزان 143 شقوں پر مشتمل ہے۔ کیا انہوں نے اس لوزان امن معاہدے کی تمام شقوں کا جائزہ لیا ہے؟ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں ہرگز نہیں کیونکہ ان شقوں میں ایسی کوئی شق موجود نہیں ہے اور ماہرین صرف سنی سنائی باتوں پر ہی یقین کرتے چلے آرہے ہیں۔ ترکی اپنے قیام سے ہی اپنے قدرتی وسائل خاص طور پر تیل اور معدنیات کے حوالے سے خود مختار ہے بلکہ جہاں تک معدنیا ت کی تلاش کا تعلق ہے توترکی دنیا میں وہ واحد ملک ہے جہاں سے بڑے پیمانے پر ’’بور‘‘ معدنیات (زیادہ تر توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیےاستعمال کی جاتی ہیں) کو دنیا کے مختلف ممالک کو برآمد کیا جا رہا ہے اور بور معدنیات میں ترکی اس وقت 73فیصد پیداوار کے ساتھ پہلے نمبر پر ہے اور دنیا کی بور کی 59فیصد ضروریات کو اکیلا ہی پورا کرتا ہے۔ اس کے علاوہ ترکی میں بڑے پیمانے پر تانبہ، کوئلہ، سونا، کرومیم، میگنیشیم، مرکری، لوہا، گندھک، نمک اور دیگر معدنیات کو بھی نکالا جا رہا ہے ۔

خلافتِ عثمانیہ جس نے 10 اگست 1920ء میں ’’معاہدہ سیور‘‘کی کڑی شرائط کو قبول کرتے ہوئے اپنی سرزمین کے بڑے حصے جس میں شام، عراق، تیونس، الجزائر، لیبیا اور سعودی عرب جیسے ممالک کو تین مغربی ممالک برطانیہ، فرانس اور اٹلی کے حوالے کردیا تھا جس پر عوام نے نہ صرف اس معاہدے کو مسترد کردیا بلکہ سلطان کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے غازی مصطفیٰ کمال پاشا کی قیادت میں ’’قواع ملیہ‘‘ یعنی عوامی فوج تشکیل دی اور ملک میں جنگِ نجات یا جنگ آزادی کا آغاز کردیا۔ ملک کی آزادی کے جذبے کے ساتھ لڑی جانے والی جنگِ نجات کے دوران اتحادی ممالک کو کئی ایک محاذوں جن میں معرکہ چناق قلعے (درہ دانیال) بھی شامل ہے‘ شدید ہزیمت اٹھانا پڑی۔

ان فتوحات ہی کے نتیجے میں اتحادی ممالک اتاترک کے ساتھ مذاکرات کرنے پر مجبور ہوئے۔ اتاترک اپنے نطق میں لکھتے ہیں کہ معاہدہ موندروس کے بعد اتحادی ممالک نے ترکی کو چار بارامن مذاکرات کی پیشکش کی اور انہوں نے تین بار ترک قوم کی خواہشات کا احترام نہ کرنے پر اسے مسترد کردیا تاہم چو تھی بار ترک قوم کی خواہشات کا احترام کرنےپر سوئٹزر لینڈ کے شہر لوزان میں امن مذاکرات میں شرکت کرنے کی ہامی بھری لیکن ابتدا میں ان مذاکرات میں ترکی کے لیے مشکلات کھڑی کیے جانے پران مذاکرات کا بائیکاٹ کردیا جس پردوبارہ سے شروع ہونے والےکٹھن مذاکرات کے نتیجے میں جولائی 1923ء میں لوزان کے رومین پیلس میں لوزان امن معاہدہ طے پایا جسے اس دور میں ترکی زبان میں ’’ لوزان صلح معاہدہ نامہ سی‘‘ سے یاد کیا جانے لگا۔اس معاہدے پر ترکی، برطانیہ، اٹلی، فرانس، یونان، رومانیہ، بلغاریہ، پرتگال، بلجیم اور یوگوسلاویہ کے نمائندوں نے دستخط کیے اور اس وقت سے اس معاہدے پر عملدرآمد جاری ہے اور اسے ختم کرنے کے بارے میں کسی فریق نے آج تک رجوع نہیں کیا۔

SOURCE JANG https://jang.com.pk/news/917225

بشکریہ جنگ نیوزکالم