294

ریاست کی رٹ مبارک ہو

مبارک ہو۔ریاست کی رٹ قائم ہوئی۔ ثابت ہوا ،تحریک انصاف اپنا ثانی نہیں رکھتی۔ تاریخ میں پہلی بار ریاست حرکت میں نظر آئی۔ یہ وہ چند روز تھے، جب متعلقہ وزراء اپنی ہی وزارت بارے بات کرتے نظر آئے۔ پہلی بار وزیر اعلی پنجاب سردار عثمان بزدار بھی اپنی وزارت سے وفادار ہوئے۔ ریاست سے ٹکراؤ کا نتیجہ کس قدر خطرناک ہوتا ہے، عمران خان نے بتا دیا۔ تحریک انصاف نے اپنا انصاف بانٹ دیا۔۔مبارک ہو ۔ریاست کی رٹ قائم ہو گئی۔ انصاف کی تشریح ملاحظہ ہو۔ جو سر اٹھے، کچل دیا جائے۔ جو آواز اٹھے، دبا دی جائے۔ دلیل سے نہیں، ڈنڈے اور لاٹھی سے قائل کیا جائے۔انسانیت کی نہیں، گولی اور آنسو گیس کی زبان میں بات کی جائے۔ یہی تو ہوتا آیا ہے۔ کسی نے چند فرلانگ کے فاصلے پر بیٹھ کر ماڈل ٹاؤن میں گولی کی زبان میں بات کی تو کسی نے میلوں کے فاصلے سے۔ ایک دو نہیں، تقریبا سبھی بادشاہوں کا مزاج ایسا رہا۔ بس ایک زندہ رہنے کو سانس لینا ہی قابل قبول تھا ورنہ کس کی مجال آواز بھی حلق سے نکل جائے۔ حبیب جالب لکھتے ہیں۔ تم سے پہلے وہ جو اک شخص یہاں تخت نشیں تھا اس کو بھی اپنے خدا ہونے پہ اتنا ہی یقیں تھا کوئی ٹھہرا ہو جو لوگوں کے مقابل تو بتاؤ وہ کہاں ہیں کہ جنہیں ناز بہت اپنے تئیں تھا انصاف بانٹنے والوں کے نزدیک مذہبی جماعت کے مطالبات ناجائز تھے۔ناجائز مطالبات کسی بھی طرح مانے نہیں جاتے۔ ناجائز خواہشات تو اپنے والدین بھی تسلیم نہیں کرتے۔ ویسے بلاشبہ ریاست ہوتی ماں جیسی ہے۔لیکن سگی ماں تو کیا سوتیلی ماں بھی ناجائز مطالبات پر لہولہان نہیں کرتی۔ جان نہیں لیتی۔ شاید ریاست کی ماں سے تشبیہ ہم جیسے ممالک پر صادق نہیں۔ لاہور میں جو کچھ ہوا۔غلطیاں دونوں اطراف سے تھیں۔ مگر یہ کہنا غلط نہ ہوگا،حکومت نے اس پورے معاملے کو مس ہینڈل کیا۔حالات کو ڈگر پر لانے کے لئے تقریبا وہ تمام شرائط اب تسلیم کر لیں جن سے روگردانی کی گئی۔ حکمت کا مظاہرہ کیا جاتا،تو بہت سی قیمتی جانیں بچ سکتی تھیں۔ ریاست کی اس نام نہاد رٹ کی مختصر تفصیل کچھ یوں ہے۔ احتساب کا عالم یہ ہے۔ جو وعدے کئے، وفا ہو رہے ہیں۔ ایک کے بعد ایک۔ بارعب جادوئی شخصیت کے مالک عمران جان جن پر نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد آج بھی فدا ہے ،کنٹینر کی چھت پر جو کچھ کہا بلاشبہ پورا کیا۔ چھوڑوں گا نہیں، نہیں چھوڑا۔ میں ان کو رلاوں گا۔ سچ میں رلا دیا۔ اب ان نعروں میں عوام بھی شامل تھے یہ کوئی نہیں جانتا تھا۔لوٹا ہوا ملک کا پیسہ واپس لاوں گا۔ اس کاوش میں مصروف عمل ہیں۔ یہ سب کچھ ممکن تھا۔ ویسے ناممکن کچھ بھی نہیں۔ عمران خان بذات خود احتساب کرنے میں لگ گئے۔ کپتان کی نظر تو بعد میں اٹھی۔ کسی کا خیال بھی آیا اس پر احتساب نام کی قینچی چلا ڈالی۔ ہاں! یہ اور بات ہے کہ احتساب کی یہ قینچی اپنوں سے بہت دور ہے۔ کرپٹ عناصر، خاص کر جو ملک کو ہی کھوکھلا کر دے، ناقابل معافی ہے۔ اب یہ کام اداروں کا تھا۔ کرپٹ لوگوں پر ٹھوس ثبوتوں کی بنیاد پر مضبوط کیسز بنائے جاتے۔ پراسیکیوشن کو مضبوط کیا جاتا، تاکہ کوئی ملزم قانون کی گرفت سے بچ نا سکے۔ادارے اس قابل کہاں کہ مضبوط ایکشن لے پاتے۔ نیب کی تحقیقات اور کام کے طریقہ کار پر اعلی عدلیہ کے ریمارکس زبان زد عام ہیں۔ عدلیہ میں بھی اصلاحات کی اشد ضرورت ہے جس پر اگر کام ہو بھی رہا ہے تو کچھوے کی رفتار سے۔slow and steady wins the raceشاید اسی فارمولا کے تحت کام ہو رہا ہے۔ پولیس اصلاحات کی تصویر سامنے کیا رکھوں۔ مرحوم ناصر درانی تو برداشت نہ ہو سکا۔ اس لیے فاتحہ پڑھ لینی چاہیے۔ بظاہر، اصلاحات ایک مذاق بن چکیں ہیں، احتساب انتقام کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ پھر بھی مبارک ہو ۔ریاست کی رٹ قائم ہو چکی۔ زور چلنے کی بات ہے۔ مافیاز ہمیشہ ان ایکشن رہے۔ انہونی صرف اس بار تو نہیں۔عوام، میڈیا، صحافی، اینکر حضرات شور اس لیے مچا رکھتے ہیں کیونکہ نواز،زرداری ادوار دیکھے لیکن اس بار تبدیلی کچھ متوقع تھی۔ سہانے سپنے اس قدر کہ گمان ہونے لگا تھا جیسے دودھ اور شہد کی نہریں بہنے لگے گیں۔کرپشن کا خاتمہ ہوگا۔ انصاف سستا اور فوری ہوگا۔بالکل جیسے کسی مسیحا کی تلاش ہو اور مل جائے۔ خوابوں کا کیا ہے، پیسہ خرچ ہوتا ہے نہ کوئی ٹیکس لاگو ہوتا ہے۔ باوجود اتحادی ہونے کے تحریک انصاف کو حکومت ملتے ہی پہلا بیان ق لیگ کے کامل علی آغا نے داغا۔" تحریک انصاف حکومت میں رشوت کا ریٹ ڈبل ہو گیا ہے" مبالغہ آرائی قطعی نہیں۔ کبھی آٹا نایاب ہوتا ہے تو کبھی چینی۔جہاں میسر،وہ پہنچ سے باہر ہے۔ عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمت اوپر جائے تو پاکستان میں فراوانی سے دستیاب لیکن عالمی سطح پر قیمت گرتے ہی آئل پاکستان میں نایاب ہو جاتا ہے۔ قصہ مختصر ۔ ادویات کا مافیا ہو یا آٹا،بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں ہوں یا آئل مافیا۔ وفاقی حکومت اس قدر مجبور ہے کہ گھٹنے ٹیک دیتی ہے۔ یہ مافیا کنٹرول ہوں یا نہ لیکن لاہور کی حد تک مبارک ہو کیونکہ ریاست کی رٹ قائم ہو گئی۔ ریاست اور اس کی نافذ رٹ اسی طرح بے معنی ہو گئی ہے جیسے عمران خان کے دکھائے سپنے، جیسے وزراء کے لمبے لمبے بیانات، جیسے پاکستانیوں کی نئے پاکستان سے امیدیں۔

 

بشکریہ نایٹی ٹو نیوز کالمز