465

"دیار غیر سے"


یہ واقعہ 2010ء کا ہے۔ میں ان دنوں برطانیہ میں مقیم تھا۔ برطانیہ کے شہر بریڈ فورڈ میں میرے ایک دیرینہ دوست جناب ڈاکٹر افضل چیمہ صاحب رہتے ہیں۔ ان سے میری ملاقات دسمبر 2009ء میں ہوئی تھی۔ ہم دونوں دوہا (قطر) سے ایک ہی فلائیٹ میں برطانیہ جا رہے تھے اور اسی دوران ہماری ایسی انڈرسٹینڈنگ ہوئی کہ آج تک قائم ہے۔

میں جب بھی بریڈ فورڈ یاترا پر جاتا تو ڈاکٹر صاحب سے ضرور ملتا تھا۔ ڈاکٹر صاحب کے پڑوس میں ایک پاکستانی نژاد برطانوی فیملی رہتی تھی۔ فیملی کے سربراہ میاں مقبول حسین اور ان کی بیگم ایک سٹور کے مالک تھے اور ان کی ایک ہی اکلوتی بیٹی تھی جو برطانیہ میں ہی پیدا ہوئی تھی۔ ڈاکٹر صاحب نے ایک دن مجھے میاں صاحب اینڈ فیملی کا ایک عجیب قصہ سنایا۔ وہ کہنے لگے کہ ایک دن میں میاں صاحب کے گھر بیٹھا ان کے ساتھ گپ شپ میں مصروف تھا کہ اچانک ان کے گھر کا دروازہ کھلا اور ان کی اکلوتی بیٹی شراب کے نشے میں دھت اندر داخل ہوئی۔ وہ اکیلی نہیں تھی بلکہ اپنے ساتھ نشے میں دھت اپنا انگریز بوائے فرینڈ بھی ساتھ لائی تھی۔ یہ منظر دیکھ کر میاں صاحب کے ہاتھ پاؤں بری طرح سےکانپنے لگے۔ انتہائی شرمندگی اور غصے کے مارے وہ اپنی بیٹی اور اس کے انگریز بوائے فرینڈ کو مارنے کیلئے جونہی آگے بڑھے، بیٹی نے فورا اپنا موبائل فون جیب سے نکالا اور کہا، "پاپا اگر آپ نے ہم دونوں میں سے کسی ایک کو بھی ہاتھ لگایا تو میں پولیس کو فون کر دوں گی"۔

ڈاکٹر افضل چیمہ صاحب بتانے لگے کہ یہ منظر دیکھ کر میاں صاحب شدت غم سے زمین پر گر گئے اور زور زور سے روتے ہوئے اپنی بیٹی کو بددعائیں دینے لگے لیکن ان کی بیٹی نے ذرا برابر بھی پرواہ نہ کی اور اپنے بوائے فرینڈ کو لیکر اوپر اپنے کمرے میں چلی گئی۔

قارئین کرام، ڈاکٹر افضل چیمہ صاحب کو کتنی شرمندگی ہوئی، انہوں نے اپنے پڑوسی میاں مقبول حسین صاحب کو کیسے سنبھالا اور پھر وہاں سے کیسے نکلے، یہ اپنے آپ میں ایک الگ کہانی ہے لیکن آپ سوچیں، وہ کیا معاشرہ ہو گا، جس میں ایک باپ کی آنکھوں کے سامنے اس کی اکلوتی جوان بیٹی شراب کے نشے میں دھت اپنے بوائے فرینڈ کو اپنے ساتھ کمرے میں لیکر جائے اور وہ باپ اپنی بیٹی کو روک تک نہ سکے ؟ وہ باپ ہو کر بھی اتنا بے بس ہو کہ پولیس کی ایک چھوٹی سی دھمکی سے ڈر جائے ؟ آپ سوچیں، اس دن اس کمرے میں کیا کیا ہوا ہو گا اور اس آدمی کی کیا حالت ہوئی ہو گی جس کو پتہ تھا کہ میری جوان اکلوتی بیٹی ایک غیر مرد کے ساتھ کمرے میں اکیلی ہے اور میں کچھ بھی نہیں کر سکتا ؟ کیا اس احساس نے اس آدمی کو زندہ رہنے دیا ہو گا ؟

دیار غیر میں رہتے ہوئے ایک عرصہ ہو گیا، لہذا عجیب و غریب واقعات میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھے بھی ہیں اور لوگوں سے سنے بھی ہیں۔ باہر کی دنیا میں بسنے کے ناطے اللہ رب العزت نے مجھے دوست احباب بھی ایسے دیئے کہ ان سے کافی کچھ سیکھنے کو ملا۔ کینیڈا کی ریاست اونٹاریو کے شہر ٹورانٹو میں میرے ایک عزیز دوست دانیال احمد صاحب رہتے ہیں۔ میرا چونکہ خود بھی کینیڈا میں بسنے کا پروگرام ہے، لہذا ان سے اکثر و بیشتر مختلف موضوعات پر تبادلہ خیال ہوتا رہتا ہے۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ کینیڈا میں پاکستانی نژاد لوگوں کی اکثریت کا یہ عام معمول ہے کہ جب اولاد خصوصاً بیٹی جوان ہونے لگے تو اسے کسی بہانے سے پاکستان لے جا کر اس کی وہاں شادی کروا دیتے ہیں، کیونکہ 18 سال کے بعد کینیڈین قانون کے مطابق آپ اپنے بچوں کو نہیں روک سکتے، وہ چاہے جو مرضی کریں۔ اب ظاہر ہے کہ کینیڈا کے آزاد ماحول میں پلنے والی اولاد سے آپ نیک اور صالح ہونے کی توقع تو کر نہیں سکتے، لہذا جوان ہونے سے پہلے ہی ان کی پاکستان میں شادی کا بندوبست کر دیا جاتا ہے، یا پھر وہیں کینیڈا میں کسی جان پہچان والی اچھی سی فیملی دیکھ کر ان سے بیاہ کر دیا جاتا ہے۔ دانیال احمد صاحب نے بتایا کہ اگر ایسا نہ کیا جائے تو لڑکیاں بلوغت کو پہنچتے پہنچتے اپنی عزت گنوا چکی ہوتی ہیں۔ مغربی دنیا میں یہ عام معمول کی بات ہے۔

قارئین کرام، یہ سب آپ کے گوش گزار کرنے کا میرا مقصد یہ ہے کہ آج کل اپنے وطن عزیز پاکستان میں جو بے حیائی کا عجیب و غریب طوفان برپا ہے، اس نے مجھے انتہائی پریشان کیا ہوا ہے۔ پچھلے دو یا تین سال سے میں دیکھ رہا ہوں اور یقیناً آپ بھی دیکھ رہے ہوں گے کہ کس طرح "عورت آزادی مارچ" کے نام پر مغربی ممالک اور ان کے این-جی-اوز بے تحاشا پیسہ خرچ کر کے اپنے معاشرے کی بے راہ روی اور غلاظت کو ہمارے وطن عزیز پاکستان میں نافذ کرنے کی مذموم کوششیں کر رہے ہیں۔ اس مقصد کیلئے انہیں چند بے راہ روی کی شکار عمر رسیدہ، بد ذات اور بے غیرت عورتوں کی ضرورت تھی۔ ان کی خوش قسمتی اور ہماری بدقسمتی کہ ہمارا پاکستانی میڈیا اس قدر بےغیرتی ہمارے ملک میں عام کر چکا ہے کہ ان کی ضرورت بہت آسانی سے پوری ہو گئی اور اب وہ آہستہ آہستہ جو جی میں آئے، کرتے اور کرواتے جا رہے ہیں۔ ہر سال 8 مارچ کو "عورتوں کے عالمی دن" کے موقع پر عورتوں کے حقوق کا ڈرامہ بنا کر سڑکوں پر چند ایک سو بد ذات اور بے غیرت عورتیں ہجوم کی شکل میں اکھٹی ہو کر نام نہاد "آزادی" کا مطالبہ کرتی ہیں۔ ان کے ہاتھوں میں بینرز ہوتے ہیں جن پر انتہائی غلیظ، گھٹیا اور بے حیائی سے لبریز نعرے درج ہوتے ہیں۔ مثلاً، "میرا جسم، میری مرضی"، "میرا جسم تمہارا میدان جنگ نہیں ہے"، "اپنے لیئے کھانا خود بنا لو"، "اگر دوپٹہ اتنا پسند ہے تو آنکھوں پر باندھ لو"، "چادر خود اوڑھ لو"، "باہر گھومنا میرا حق ہے"، "مجھے اجازت مت دو، مجھے ضرورت نہیں ہے"، "لو بیٹھ گئی صحیح سے"، "چائے چاہیئے تو نوکرانی لے آؤ"، وغیرہ وغیرہ۔

بے حیاء لباس میں ملبوس یہ بے غیرت عورتیں ان نعروں کو چیخ چیخ کر گانے والے انداز میں دہرا رہی ہوتی ہیں اور ڈھول کی تھاپ پر کھلے عام سڑکوں پر رقص کر رہی ہوتی ہیں۔ ان کی باقاعدہ نگرانی ہو رہی ہوتی ہے اور ان کی ویڈیو بن رہی ہوتی ہے۔ ہمارے بے حیاء نیوز چینلز والے ان کی لائیو کوریج کر رہے ہوتے ہیں اور پوری دنیا میں ان بے غیرت عورتوں کے بے حیاء کرتوتوں کو براہ راست دکھایا جا رہا ہوتا ہے۔

قارئین کرام، یہ سب جو ہو رہا ہے، اس کے پیچھے چھپے مقاصد کا علم پوری دنیا کو ہے۔ معاشرے میں ناسور کی مانند موجود یہ چند مٹھی بھر بے حیاء عورتیں اپنے اس کھیل تماشے کو چاہے جو مرضی نام دے دیں، چاہے اسے اپنے حقوق کی جنگ کہیں، آزادی کے حصول کی جدوجہد کہیں، یا پھر کوئی بھی اپنی مرضی کا نام دے دیں، لیکن حقیقت پوری دنیا جانتی ہے کہ یہ بے غیرت اور بے حیاء عورتیں دراصل چاہتی کیا ہیں۔ بہت صاف اور واضح سی بات ہے کہ انہیں پاکستان میں صرف اور صرف اپنی جنسی تسکین پوری کرنے کیلئے قانونی اور معاشرتی آزادی چاہیئے۔ یہ چاہتی ہیں کہ قانوناً انہیں اپنی مرضی کے ہر مرد کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرنے کی آزادی ہو، پورے پاکستان میں کوئی ان پر اعتراض کرنے والا نہ ہو، کوئی ان کو برا بھلا کہنے والا نہ ہو، کوئی ان کو روکنے ٹوکنے والا نہ ہو اور یہ جب چاہیں اور جہاں چاہیں، غیر مردوں کے ساتھ ناجائز تعلقات بنائیں اور جو جی میں آئے کر گزریں۔

یہ بد ذات عورتیں اپنے مغربی آقاؤں کے اشاروں پر پاکستانی معاشرے کو وہی مغربی معاشرہ بنانے کے خواب دیکھ رہی ہیں جس کا ذکر میں نے آپ سے کالم کے شروع میں کیا تھا۔ اگر ان چند مٹھی بھر بے غیرت اور بے حیاء عورتوں کو وہی معاشرہ چاہیئے تو پھر ان کو چاہیئے کہ یہ پاکستان سے دفع ہو جائیں اور یورپ یا امریکہ جا کر رہنا شروع کر دیں کیونکہ انشاءاللہ ان کی یہ ناپاک خواہش اللہ رب العزت کے حکم سے پاکستان میں کبھی بھی پوری نہیں ہو گی۔ پاکستان جس اونچے اور عظیم کلمے کی بنیاد پر وجود میں آیا ہے، اس کلمے کی حفاظت میرا رب خود کر رہا ہے اور الحمدللہ، میرے پاک وطن میں ایسے کروڑوں جانثار موجود ہیں جو اس کلمے کی حرمت اور عزت پر جان دینا جانتے ہیں۔ انشاءاللہ ان مٹھی بھر بے غیرت اور بے حیاء عورتوں اور ان کے مغربی آقاؤں کے ناپاک خواب پاکستان میں کبھی بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوں گے۔

الحمدللہ ہم ایک اللہ اور ایک رسول حضرت محمد مصطفی ﷺ کے ماننے والے ہیں۔ آپ ﷺ نے ہمیں جو تعلیمات دی ہیں، ان پر چل کر ہی ہم دنیا اور آخرت کی کامیابی اور اللہ رب العزت کی رضا اور خوشنودی حاصل کر سکتے ہیں۔ ہمارا معاشرہ، ہمارے اقدار، ہمارے رسم و رواج، ہمارے طور طریقے سب نبی کریم ﷺ کے لائے ہوئے مبارک دین اسلام کی بنیاد پر وجود میں آئے ہیں۔

مرد اور عورت میں فرق ہے، ساخت میں بھی اور ذمہ داریوں میں بھی۔ اسلامی معاشرے میں جب لڑکی بالغ ہو جاتی ہے تو اسے ڈگری، نوکری، گھر سے باہر غیر مردوں میں جانے اور کسی قسم کی آزادی کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ نکاح کی ضرورت ہوتی ہے، کیونکہ اسلامی معاشرے میں نکاح کا مبارک عمل ہی لڑکی کی اصل ڈگری ہے تاکہ وہ بروقت اپنا گھر بساۓ اور اپنے عزت اور غیرت کی حفاظت کر سکے۔ اسلام نے عورت کو جو حقوق دیئے ہیں، وہ دنیا کے کسی مذہب نے نہیں دیئے۔ عورت کی پیدائش سے لیکر اس کے جوان ہونے تک اس کے دیکھ بھال، رہن سہن، تعلیم اور تمام ضروریات کو پورا کرنا اس کے والدین اور بھائیوں کے ذمے ہوتا ہے۔ شادی کے بعد اس کی حفاظت، رہن سہن اور دیکھ بھال اس کے شوہر کی ذمہ داری ہوتی ہے اور بڑھاپے میں اللہ رب العزت نے اس کی حفاظت، رہن سہن اور دیکھ بھال کی ذمہ داری اس کی اولاد کے ذمے لگائی ہے۔ ڈگری لینا، نوکری کرنا، مشقت کرنا، مزدوری کرنا، گھر سے باہر نکلنا، روزگار کرنا، کاروبار کرنا، مال کمانا اور اپنے آل اولاد کی ضروریات کو پورا کرنا مردوں کی ذمہ داری ہے، عورتوں کی نہیں۔ مرد کماتے ہیں، مرد جنگیں کرتے ہیں، مرد دنیا کا نظام چلاتے ہیں، عورت کی ذمہ داری تو گھر اور اولاد ہے اور اس کو زندگی اس طرز پر گزارنی ہوتی ہے جس کا حکم نبی کریم ﷺ نے اپنی بیویوں اور بیٹیوں کو دیا۔ نبی کریم ﷺ کی بیویاں اور بیٹیاں دنیاوی امور میں شراکت نہیں کرتی تھیں۔ وہ گھر میں رہتی تھیں، امور خانہ داری چلاتی تھیں اور دین کا علم حاصل کرتی تھیں۔ یہی تقاضا دین اسلام کا ہر مسلمان عورت سے ہے۔

مفتی محمود صاحب رحمتہ اللہ کی قبر مبارک کو اللہ رب العزت اپنے نور سے بھر دے، ان بے غیرت اور بے حیاء عورتوں کو دیکھ کر مجھے مفتی صاحب کا ایک واقعہ یاد آ جاتا ہے کہ اسمبلی میں ایک لبرل عورت نے کھڑے ہو کر ان سے سوال کیا کہ "مفتی صاحب، اگر اسلام میں مرد کو چار شادیوں کی اجازت ہے تو عورت کی ایک سے زیادہ شادیوں پر کیوں پابندی ہے ؟"۔ اس پر مفتی صاحب مسکرائے اور بہت مدلل اور پیارا جواب دیا۔ فرمایا، "بی بی آپ چار نہیں، بیس شادیاں کر لو، آپ کو اجازت ہے۔ پابندی تو ان عورتوں کیلئے ہے جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان لائی ہیں"۔

قارئین کرام، ہمارے پیارے دین اسلام نے عورتوں کو حیاء کا زیور پہنایا ہے کیونکہ حیاء اور ایمان آپس میں لازم و ملزوم ہیں۔ آقا دو جہاں ﷺ کے ارشاد مبارک کا مفہوم ہے، "اور جب حیاء ختم ہو جائے، تو جو جی میں آئے کرو"۔ یعنی اگر غور کیا جائے تو آپ ﷺ نے کتنی سخت بات فرما دی ہے کہ جس میں حیاء ختم ہو جائے، اس کا ہم سے اور اسلام سے کوئی تعلق نہیں، وہ جیسی مرضی زندگی گزارے۔

اللہ رب العزت ہماری قوم اور خصوصاً ہماری قوم کی ماؤں، بہنوں، بیٹیوں کو ہدایت نصیب فرمائے، ہماری پوری پاکستانی قوم اور پوری امت مسلمہ کو نبی کریم حضرت محمد مصطفی ﷺ کے مبارک دین اور ان کے نقش قدم پر زندگی گزارنے کی توفیق عطاء فرمائے اور اسلام دشمن قوتوں کی چالوں، شر اور فساد سے ہمارے وطن پاکستان سمیت پوری امت مسلمہ کی حفاظت فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔

بشکریہ اردو کالمز