میں اور میں اکثر ساتھ رہتے ہیں ایسے جیسے وہ میرا جڑواں بھائی ہو ، کبھی ایسا لمحہ نہیں جب میں مجھے چھوڑ کر گیا ہو اکثر اس وقت جب مجھے کسی سے معافی مانگنی ہو یا کسی غریب کا دل رکھنا ہویا کسی کا کوئی کام کرنا ہو میں، میرے پاس آ کر انتہائی خاموشی کے ساتھ مخلصانہ مشورے دیتا ہے اگر مجھے کسی سے معافی مانگنی ہو تو میں،میرے سامنے آ کر کہتا ہے " تم کیوں معافی مانگوں تم نہ مانگنا ، معاشرے میں تمھاری عزت کم ہو جائے گی" دوست جو ٹھہرا اسلیے جناب کو میری عزت کی بہت پرواہ رہتی ہے۔ میں، کو اگر شکل و صورت میں بیاں کروں تو وہ مجھ جیسا لگتا ہے ایسے جیسے الراقم آئینہ کے سامنے کھڑا ہو جائے تو آئینہ کے اس پار جو عکس بنتا ہے بلکل ویسی شکل وصورت، اب الراقم خود کو ڈراونہ تو لکھنے سے قاصر ہے۔ سو وہ شکل میں آنکھ کو انتہائی خوبصورت معلوم ہوتا ہے جب الراقم چند کتابوں کا مطالعہ کر کےان کا بوجھ اپنے کندھوں پر ڈالتا ہے تو میں، مجھے انتہائی خوبصورت ناموں سے نوازتا ہے اکثر اس علم کے بوجھ کو اگر میں کم کرنے کا سوچتا ہوں تو یہ میرے ساتھ کھڑا ہو کر کہتا ہے تمھارے ساتھ تمھارا دوست میں کا سہارا ہے ۔ تم بس سینا تان کر چلتے رہو میں، کی یہ باتیں دل کو بڑی بھلی محسوس ہوتی ہیں اس لیے مجھے اسے ہر وقت ساتھ رکھنا پڑتا ہے میری عادت ہے نماز و روزہ مجھ سے کبھی نہیں قضا ہوتے اکثر ذکر خدا میں رہتا ہوں یہاں پر بھی میں، مجھ سے آ کر کیا خوب یارانہ گفتگو کرتے ہوئے میری ہمت بڑھاتا ہے۔ اس خراب دنیا میں تم جیسا کوئی نہیں ہے وہ سامنے والے کو دیکھو نماز سے غافل ہے اور وہ جو اس کے بغل میں کھڑا انسان ہے اس کی داڈھی بھی نہیں ہے مگر تم یہ سب عمل انجام دیتے ہو کیتنے نیک سیرت انسان ہو،تم ان سب سے افضل ہو۔ میں، مجھے لوگوں سے بلکل الگ تھلگ رکھتاہے مجھے لوگوں کی پروا نہیں ہوتی بس خدا بھلا کرے میرے اس دوست میں کا جو مجھے کبھی تنہا نہیں چھوڑتا۔ میرے ایک اور دوست بھی ہے جسے ضمیر کہتے ہیں جو کہ ملتا تو کبھی کبھار ہے مگر ہمشہ میرے دوست میں، کی برائیں کرتا ہے ۔ الراقم نے کبھی اس کی بات نہیں سنی جب الراقم مشکل سے چند کتابوں کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہوتا ہے اکثر آ ٹپکتا ہے۔اپنے اس بوجھ کو لوگوں میں تقسیم کر کے اپنا بوجھ کم کر لو ، ارے ضمیر جب میرا دوست میں، میرے ساتھ ہے وہ مجھے یہ بوجھ محسوس نہیں ہونے دیتا تو پھر میں اپنا بوجھ کیوں کم کروں، لو جی یہ بھی کوئی بات ہوئی بھلا ویسے ضمیر کی ساری باتیں ہی ایسی ہوتی ہیں۔ اب میں نے اتنی محنت سے اپنا ایک نام بنایا ایک عہدہ حاصل کیا بہت سے لوگ میرے نیچے کام کرتے ہیں میرا دوست میں، مجھے ان لوگوں سے جو میرے نیچے کام کرتے ہیں منفرد رہنے کا مشورہ دیتا ہے جو کہ ایک معقول مشورہ ہے کہ تم ان لوگوں سے مختلف ہو مگر یہ ضمیر میاں یہاں بھی چپ نہیں رہتے اکثر وہی جمبیلہ ڈالتے ہیں کہ تم بھی ان کی طرح انسان ہو بس،بلکے ان جیسے ہو اس لیے میری ضمیر میاں سے نہیں بنتی اپنا تو بس میں، ہی دوست ہے جو میرا بوجھ اٹھاتا ہے جو مجھے لوگوں کے سامنے جھکنے نہیں دیتا اسلیے معاشرے کے اندر میں، کے بہت دوست ہیں بڑے بڑے ادیب،مفکر اور اساتذہ کرام، میں کو اپنا دوست رکھتے ہیں مگر ضمیر بیچارے کا دوست کوئی ایکا دوکا ہی ہے اس لیے اب ضمیر کی نہ کوئی سنتا ہے اور نہ مانتا ہے مگر میں، کو سب نے دوست بنا رکھا ہے۔