یہ دنیا بھی بہت عجیب و غریب ہے کیوں۔۔؟ کیونکہ اس عجیب و غریب دنیا میں انسان جیسی پیرچالاک شے موجود ہے جس کے پاس ہر چیز کو فریب دینے کا ہنر ہے خاص طور پر قانون کو،اس کے متعلق شاید آپ کو زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں پڑے گی آپ اپنے آس پاس ہی قانون کی حالات زار کو دیکھ کر اندازہ کر سکتے ہیں کہ وہ کیسے کسی غریب کی طرح کَس مپرسی کی حالت میں ہے ادھر کوئی نیا قانون جنم لیتا ہے ادھر یار لوگ اس کا توڑ پہلے سوچ لیتے ہیں اگر ہم تھوڑا سا پیچھے چلے جائیں تو برصغیر میں پاکستان بننے سے پہلے جاگیرداروں میں یہ عام تھا کہ جب بھی ان کے کسی کاروبار پر کوئی کارروائی یا پولیس کا چھاپہ پڑتا تو اس صورت میں کرایہ کے بندے کو پولیس کے سامنے کر دیا جاتا تھا اگر جرمانہ ہوتا تو وہ مالک ادا کر دیتا اور اگر سازا ہوتی تو وہ کرایہ کا بندہ جیل چلا جاتا مگر جاگیردار اس بندے کے جانے کے بعد اس کے گھر کا خرچہ بھی برداشت کرتا تھے اور واپس آنے پر اسے اچھا خاصہ معاوضہ بھی دے دیا جاتا تھا اس طرح قانون بھی پاے تکمیل کو پہنچتا اور سرمایہ دار یا جاگیر دار کی بھی عزت محفوظ رہتی تھی۔ اُف الاماں کیا زمانہ تھا مگر زمانہ کا کیا زمانے تو وہی رہتے ہیں پس لوگ بدل جاتے ہیں خیالات بدل جاتے ہیں اور قانون کو بھی فریب دینے کے طریقے بدل جاتے ہیں میں نے، جب ڈسکہ کے پولنگ اسٹیشن پر پھر سے الیکشن کا سنا تو حیران و پریشان ، سوچوں میں گم بس یہی سوچتا رہا بیچارے قانون کو پھر فریب دے دیا گیا اب اگر کوئی شریف النفس انسان الیکشن کمیشن سے پوچھے جی میاں کیا یہ ثابت ہو گیا کہ دھاندلی ہوئی تھی۔۔؟، جی ہوئی تھی تو پھر دھاندلی میں ملوث افراد کی شناخت ہوئی۔۔؟ ، جی بلکل دھاندلی ہوئی تھی، نہیں نہیں میاں ہم نے پوچھا جن افراد نے دھاندلی کی کیا ان کی شناخت ہوئی ہے۔۔؟ جی وہ ہم نے ثابت کر لیا ہے کہ دھاندلی ہوئی تھی اور ہم نے پھر سے الیکشن کا اعلان کر دیا ہے۔ کمال کرتے ہیں میاں، یہ تو وہی بات ہوئی آپ کے پڑوس میں چوری ہوئی اتفاق سے آپ چور کو بھی جانتے تھے مگر آپ نے اپنی پروسی کے لیے چندہ جمع کر کے پھر سے ان کو نیا سامان لا دیا تاکہ پھر سے چور وہ سامان چوری کر کے لے جائے۔ اگر مہربانی ہی کرنی تھی تو چور کا بتا دینا تھا یہاں پے الیکشن کمیشن نے بھی یہی کام کیا پھر سے الیکشن کمیشن نے ڈسکہ میں الیکشن کا اعلان کر دیا مطلب یہاں بھی پھر سے دھاندلی ہو گی۔۔۔؟ کیونکہ دھاندلی سے ہمارا رشتہ بہت پرانا ہے پھر 1951 ہو یا 1977 ہو یا بعد کے الیکشن ہم نے دھاندلی کو ہمشہ اپنے ساتھ رکھا ہمشہ نئے الیکشن پر زور دیا مگر اس مائی دھاندلی کو نہیں پکڑا اس دھاندلی کے پیچھے تو ساری اپوزیشن پڑی ہے مگریہ کوئی نہ بتاتا ہے نہ پوچھتا ہے کہ مائی دھاندلی کس کے گھر میں پرورش پاتی ہے یا پا رہی ہے۔ مگر ہر الیکشن کے بعد یہ شور ضرور ہوتا ہے، دھاندلی ہو گئی۔ اس دھاندلی سے ہم صرف پیچھا اُس وقت چھوڑا سکتے ہیں جب دھاندلی کرنے والے عناصر کی شناخت ہونا شروع ہو گی نہیں تو پھر سے دھاندلی ہوگی