یہ بات عجوبہ نہیں ہے کہ بھارت اپنی ہٹ دھرمی اور مذہبی انتہا پسندی میں اتنا آگے جا چکا ہے
اب یہ چھپکلی نہ نگلی جائے گی نا اگلی جائے گی
سونے پر سہاگہ یہ ہے کہ کہ مودی سرکار کی بنیاد ایک انتہا پسند جماعت اور ہندو ازم سے ہندو دیش ہے وہاں پر اقلیتوں کے حقوق بہت پیچھے رہ گئے ہیں کشمیری مسلمانوں پر مظالم دنیا سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں اس پر کشمیر میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے جواندرونی حالات ہیں اس سے باہر کی دنیا بے خبر ہے یہ الگ بات ہے کہ کشمیر کے حقوق کیلئے 18 سے زیادہ قرار داد منظور کی جا چکی ہیں جن میں مقبوضہ کشمیر سے افواج کی واپسی اور ریفرنڈم کروانے کا کہا جا چکا ہے ہے مگر ہر بار بھارتی ہٹ دھرمی انتہا پسندی اور اور ضد کے آگے عالمی برادری اور سلامتی کونسل بھی بےبس ہیں تقریبا ایک لاکھ سے زائد شہادتیں اور ہزاروں خواتین کی عزتوں کی پامالی اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ کشمیری اپنی آزادی کے لیے لئے مسلسل جدوجہد کر رہے ہیں
اکیس جنوری 1990ء میں جب مقبوضہ کشمیر کی عوام بھارتی جارحیت کے خلاف سرینگر اور دیگر شہروں میں لاکھوں کی تعداد میں سڑکوں پر آئے تو بھارت کی درندہ صفت فوج نے نہتے کشمیریوں کو بربریت کا نشانہ بنا کر درجنوں شہریوں کو شہید کر دیا
یہ ایک ایسا موقع تھاجب اتنی بڑی تعداد میں کشمیریوں نے منظم ہوکر اتحاد اور یکجہتی کا مظاہرہ کیا اور کشمیر پر بھارت کے غاصبانہ قبضہ اور فوجی تسلط کے خلاف جنگ آزادی کا اعلان کر دیا
5 فروری کو کشمیری مسلمان بھارت و سلامتی کونسل کی وعدہ خلافی کے خلاف پوری دنیا میں احتجاج کرتے ہیں وہاں پاکستانی قوم بھی اپنے کشمیری بھائیوں کیساتھ احتجاج کرتے ہوئے ان کو اپنے کشمیری بھائیوں کی آزادی کی صدا سنواتے ہیں اور دنیا کو باور کرواتے ہیں کشمیر کی آزادی تک ان کی حمایت جاری رہے گی دوسری طرف بھارتی سرکار اب سکھوں کے معاملے میں بھی الجھتی جاری ہے ملک میں کسانوں کی تاریخ بہت زور پکڑ چکی ہے اس پر بھی مودی سرکار اپنی ہٹ دھرمی پر قائم ہے بھارت میں کسانوں کی تحریک کی تاریخ بہت پرانی ہے تقریبا ایک سو سال میں پنجاب ہریانہ بنگال جنوبی اور مغربی بھارت میں بہت سے مظاہرے ہوتے رہے ہیں
مگر اس بار سکھوں نے جو لال قلعہ پر خالصتان کا پرچم لہرا دیا ہے وہ خنجر ہے جو بھارتی مذہبی انتہا پسندی کے سینے کے اندر اتار دیا گیا ہے اس پر ہندو انتہا پسند تنظیم آر ایس ایس نے سخت مذمت کی ہےکینیڈا کے وزیراعظم کا سکھوں کی تحریک کی طرف جھکاؤ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ سکھ برادری کینیڈا کی سیاست میں انتہائی اہم پوزیشن میں آ چکی ہے اور وہاں پر رہنے والے تمام سکھ برادری خالصتان ان کی تحریک کے لئے پیش پیش ہے ایسی تنظیمیں جو خالصتان کی آزادی کے لیے آواز اٹھاتی رہی ہیں اور خالصتان کے لیے ریفرنڈم کے حق میں ہیں
ایک طرف مسئلہ کشمیر اور دوسری طرف خالصتان کی تحریک بھارت کے گلے میں ہڈی کی طرح پھنس چکے ہیں ہیں جیسے جیسے سکھوں کی تحریک بڑھتی جا رہی ہے اس سے پوری دنیا کے سکھ منظم ہونا شروع ہو چکے ہیں عالمی میڈیا کی نظریں اب اس پر جمی ہوئی کہ یہ تحریک اب کیا موڑ لے گی اور کشمیر پر مکمل لاک ڈاؤن سے بھارتی انتہا پسندی کا اصل چہرہ نمایاں ہوتا جا رہا ہے سوشل میڈیا اس میں نہایت اہمیت کا حامل بنتا جا رہا ہے بھارتی سیکولر ریاست خواب کی قصہ پارینہ ہوتا جا رہا ہےیہ دونوں طریقے جس طرح عالمی سطح پر میڈیا اور سفارتی محاذ پر ابھرتی جا رہی ہے اس سے امید ہے کہ بھارتی ہندو نواز پالیسی اپنے منطقی انجام کی طرف بڑھ رہی ہے