507

پرورش کا حق اور قرآن و حدیث سے متصادم قانون

آج کے اس پر آشوب اور نفسانفسی کے دور میں اگر کسی رشتے کو غرض سے پاک اور مخلص سمجھا جا سکتا ہے تو وہ والدین یعنی ماں باپ کا ہے۔ بچوں کی اچھی تربیت والدین کی معاشرتی ذمہ داری سمجھی جاتی ہے۔ لیکن ایسا صرف اس وقت ہی ممکن ہو پاتا ہے جب بچے کو ماں اور باپ دونوں کی یکساں محبت میسر ہو۔اولاد کی پرورش میں ماں اور باپ دونوں کا کردار اپنی جگہ بہت اہم ہے۔ بچے کی کچھ تربیت ماں کی آغوش میں ہوتی ہے تو باقی تربیت باپ کی توجہ کے بغیر ممکن نہیں ہو سکتی۔ اسی لیے اگر کسی بچے کی زندگی سے باپ جیسا اہم کردار نکل جائے تو اس کا اثر اس کی پوری زندگی پر پڑتا ہے۔ یقینی طور پر ایسے بچے خوش نصیب سمجھے جا سکتے ہیں جن کے والدین نے اپنی اولاد اور ان کے مستقبل کو ذاتی اناء، لڑائی جھگڑوں اور تمام تراختلافات پر ترجیح دی اور انھیں یکساں محبت کے عالمی حق سے محروم نہیں کیا۔ لیکن ہمارے ہاں ایسے بچوں کی بھی کمی نہیں جو ماں کی ممتا اور باپ کی شفقت جیسی نعمت سے محرومی کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں یا پھر پیدا ہونے کے بعد ان کی خواہش جانے بغیر یہ حق چھین لیا جاتا ہے۔  عموماً یہ محرومیاں ان بچوں کی قسمت میں آتی ہیں جن کے والدین گھریلو ناچاقیوں کے سبب اپنی راہیں جدا کر لیتے ہیں۔ طلاق ہوتے ہی دونوں فریق اولاد کے حصول کی کوشش کرتے ہیں اور معاملہ عدالت تک پہنچ جأتا ہے۔ جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے کہ پاکستان میں طلاق یافتہ والدین کے بچوں کی تحویل کا فیصلہ گارڈین اینڈ وارڈز ایکٹ 1890 کے تحت کیا جاتا ہے۔ مگر افسوسناک بات یہ ہے کہ یہ قانون اولاد کو باپ سے جدا کرنے کا ایسا خوفناک آلہ بن چکا ہے جو بڑی بے رحمی سے بچوں کا مستقبل تباہ کر رہا ہے۔ یہ قانون اولاد کی پرورش سے متعلق باپ کو حاصل شرعی حقوق اور قرآن و سنت کے احکامات کے برعکس صرف ماں کو پرورش کرنے کا حق دیتا ہے۔ اولاد کی پرورش میں ماں کے کردار کی اہمیت سے کسی کو انکار نہیں لیکن باپ کو بھی اسی طرح اولاد کی پرورش کا مکمل حق حاصل ہے۔بلاشبہ ماں کی آغوش بچے کی پہلی درسگاہ ہے لیکن قرآن کریم اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اولاد کی پرورش میں باپ کی ذمہ داری سب سے اہم ہے۔ اولاد اور اہل خانہ کو باپ کی رعیت قرار دیا گیا ہے۔  قرآن حکیم کے مطابق اولاد والدین کے لیے امانت ہے اور قیامت کے دن وہ اولاد کے متعلق جواب دہ ہوں گے۔ قرآن حکیم کے سورہ تحریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:مومنو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو آتش (جہنم) سے بچاؤ جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں۔ اسی طرح سورہ الطور میں ارشاد خداوندی ہے ترجمہ: اور جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد نے ایمان میں ان کی پیروی کی ہم ان کے ساتھ ان کی اولاد کو بھی (جنت) میں ملا دیں گے اور ان کے عمل میں سے کچھ بھی کم نہیں کریں گے۔ اسی طرح نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے، مفہوم: ’’ کسی باپ نے اپنی اولاد کو کوئی عطیہ اور تحفہ حسن ادب اور اچھی سیرت سے بہتر نہیں دیا۔‘‘ یہی وجہ ہے کہ ہر باپ کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنے بیٹے کی بہترین پرورش اور تربیت کرے تا کہ اس کا جانشین معاشرے میں ایک اعلی اور باعزت مقام پا سکے۔ خواہش کے ساتھ ساتھ یہ ایک باپ کی ذمہ داری بھی ہے۔ صحیح بخاری وصحیح مسلم میں احادیث کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ "تم میں سے ہر کوئی نگران ہے اور ہر کوئی اپنی رعیت کے متعلق جواب دہ ہے اور آدمی اپنے گھر کا ذمہ دار ہے اس سے اس کی رعیت کے متعلق باز پرس ہو گی۔ اس حدیث کی رو سے بھی یہ واضح ہے کہ ہر آدمی سے اس کی اولاد کے بارے میں سوال ہو گا۔ ابن ماجہ میں بیان کیا گیا ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’اپنی اولاد کا اکرام و احترام کرو اور انہیں اچھے آداب سکھاؤ۔‘‘ اسی طرح ایک اور موقع پر ارشاد فرمایا کہ :’’کوئی شخص اپنی اولاد کو ادب سکھائے تو اس کے لئے ایک صاع صدقہ کرنے سے بہتر ہے ۔‘‘  ایک دفعہ ایک صحابی نے نبی کریمﷺ سے دریافت کیا ’’ ہم اپنے باپ سے کس انداز ولہجے میں بات کریں ؟‘‘ نبی ﷺ نے فرمایا ’’ ایک غلام، جس کا آقا بہت سخت اور ظالم ہو ، غلام سے کوئی بڑی خطا سرزد ہو جائے اور وہ آقا کو اس کی اطلاع دینا چاہے، تو کیسا انداز اور لب و لہجہ اختیار کرے گا ؟ پس اسی طرح اپنے باپ کو مخاطب کیا کرو۔‘‘ دور رسالت میں ایک بار ایسا واقعہ پیش آیا جس کے بعد باپ کی عظمت سے متعلق کوئی بات باقی نہیں رہ گئی۔ واقعہ کچھ اس طرح ہے کہ ایک مرتبہ دربارِ رسالتؐ میں ایک صحابی نے شکایت کی کہ ’’میرا باپ میری ذاتی کمائی کو میری رضامندی کے بغیر خرچ کر دیتا ہے۔ نبی ﷺ نے اس کے باپ کو بلوایا۔جب بیٹے کی شکایت کا علم باپ کو ہوا تو سخت رنجیدہ ہوا اور راستے میں غم کے عالم میں دِل ہی دِل میں کچھ اشعار کہے۔ اس سے قبل کہ وہ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوتا، اللہ تعالیٰ نے جبریلؑ کے ذریعے نبی ﷺ کو اس بات کی خبر کردی ۔ جب و ہ شخص(باپ) دربارِ رسالت ﷺ میں حاضر ہوا، تو آپ ﷺ نے اسے وہ اشعار سنانے کا حکم دیا ، جو اُس نے راستے میں اپنے دِل میں کہے تھے۔ بوڑھا شخص حیران رہ گیا اور بولا، ’’ بے شک آپ سچّے رسول ہیں اور اللہ بڑی قدرت والا ہے کہ اس نے میرے وہ الفاظ بھی سُن لیے، جو اب تک میری زبان سے ادا بھی نہیں ہوئے ۔‘‘ اُس کے بعد اُس نے عربی میں وہ اشعار سُنائے۔ نبی کریم ﷺ نے جب وہ پُر الم اشعار سُنے تو اتنا روئے کہ آنسوؤں نے ریشِ مبارک بھگو دی ۔ آپ ﷺ نے بوڑھے کے بیٹے کو لباس سے پکڑ کر جھنجھوڑا اور فرمایا ’’ تُو اپنے باپ پر مقدّمہ کرتا ہے ! چلا جا یہاں سے، تُو اور تیرا مال تیرے باپ کا ہے۔‘‘ اور یوں گویا قیامت تک کے لیے باپ کی عظمت کا فیصلہ ہوگیا۔ قرآن و حدیث کے ان احکامات کے علاوہ آئین کے مطابق بھی پاکستان میں کوئی قانون قرآن و سنت کے منافی نہیں ہو سکتا لیکن نہ جانے کیوں قرآن و حدیث سے متصادم یہ قانون تشریح کرنے والوں کی نظر میں کیوں نہیں آ سکا۔ حیرت تو یہ ہے کہ ہماری عدلیہ نے قرآن و سنت کے واضح احکامات نظر انداز کرتے ہوئے علیحدگی اختیار کرنے والے والدین کے بچوں کی پرورش میں باپ کا کردار عملاً ختم کر دیا ہے۔ روز قیامت جب اولاد سے دور کر دئیے جانے والے باپ سے اولاد کی پرورش کے بارے سوال ہو گا تو قصوروار کون ثابت ہو گا کہ کیا حکمران اور فاضل جج صاحبان وہاں یہ بتا سکیں گے کہ حکم خدا کے باوجود انھوں نے کیوں ایک باپ کو اولاد کی پرورش کے حق سے محروم کیا؟ (جاری ہے)

بشکریہ اردو کالمز