358

عالمی حق سے محروم بچے اور ملاقاتی باپ

حق یا حقوق کی اصطلاح عوام کے مشترکہ اور تسلیم شدہ دعوے کے لئے استعمال کی جاتی ہے۔ ہر مہذب معاشرہ ترقی کے لئے انسانی حقوق کو  تسلیم کرتا ہے اور ریاست اس کے نفاذ کو یقینی بناتی ہے۔ آج کہیں بھی کسی طبقے کی حق تلفی ہو  یا اس کے بنیادی حقوق سلب ہو رہے ہوں تو وہ صدائے احتجاج بلند کر سکتا ہے یا پھر عدلیہ کا دروازہ کھٹکھٹا کر اپنے حقوق کی جنگ لڑ سکتا ہے۔ ایسے کسی بھی محروم طبقے کی دادرسی کے لئے سماجی، سیاسی یا عوامی سطح پر بھی کوئی نہ کوئی آواز اٹھتی نظر آ ہی جاتی ہے۔ لیکن ہمارے معاشرے میں محرومیوں کا شکار ایک طبقہ ایسا بھی ہے جس کے بارے میں کبھی کسی حکومت، عدلیہ، سیاسی یا مذہبی جماعت حتی کہ ہر طبقے کے لیے سڑکوں پر آ جانے والی سول سوسائٹی کو بھی آج تک سوچنے کی توفیق نہیں ہوئی۔ اس طبقے میں پھولوں جیسے وہ معصوم بچے شامل ہیں جن کا آشیانہ ماں باپ کے درمیان طلاق  کے باعث اجڑ جاتا ہے اور وہ ماں باپ کی یکساں محبت کے عالمی حق سے محروم ہو جاتے ہیں۔ 1989 میں اقوام متحدہ کے کنونشن برائے حقوق اطفال میں دنیا بھر کے بچوں کے حقوق متعین کرتے وقت اس معصوم طبقے کو ماں اور باپ میں علیحدگی کے باوجود دونوں کے ساتھ رہنے کا حق دیا گیا تھا۔ پاکستان نے بچوں کے حقوق کے کنونشن کی توثیق 12 نومبر 1990ء میں کی جس کے مطابق حکومت اس بات کو یقینی بنانے کی ذمہ دار تھی کہ ہر بچے کو اس کے حقوق ملیں۔ اس معاہدے کے آرٹیکل 9 میں واضح کیا گیا ہے کہ ماں باپ میں علیحدگی کے باوجود ہر بچے کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ مستقل بنیادوں پر ماں اور باپ دونوں سے ذاتی تعلقات اور براہ راست رابطے برقرار رکھے۔ معاہدے کے تحت یہ لازم تھا کہ ہر ریاست بچوں کے اس حق کا احترام کرتے ہوئے اسے یقینی بنائیں گی۔ کسی بچے کو اس کی خواہش کے خلاف اپنے والدین سے الگ نہیں کیا جائے گا۔ مگر آج معاہدے کا رکن بننے کے تیس سال بعد بھی پاکستان کے حالات کا جائزہ لیں تو ظاہر ہوتا ہے کہ ان کمسن پھولوں کو ماں باپ کی یکساں محبت کا عالمی حق ملنا تو درکنار ریاست نے اب تک ان کے وجود کو ہی تسلیم نہیں کیا۔ پاکستان میں ان بچوں کی بدقسمتی کا آغاز اسی لمحے ہو جاتا ہے جب ان کے والدین میں علیحدگی ہوتی ہے۔ ازدواجی زندگی کی ناکامی کے بعد اگلا مرحلہ بچوں کی تحویل کا آتا ہے لیکن کوئی ثالثی فورم دستیاب نہ ہونے کے باعث یہ براہ راست عدالتوں میں پہنچ جاتا ہے اور دونوں فریقین میں ایک نہ ختم ہونے والی عدالتی جنگ شروع ہو جاتی ہے۔ پاکستان  میں بچوں کی تحویل کا فیصلہ 130 سال پرانے قانون گارڈین اینڈ وارڈز ایکٹ 1890 کے تحت کیا جاتا ہے۔  اگرچہ اس قانون کی منشاء بچے کی بہبود ہے لیکن عدالتی کاروائی کا آغاز ہوتے ہی پہلی فتح ماں کو ملتی ہے اور گارڈین عدالتیں بچوں کا تسلیم شدہ عالمی حق نظر انداز کرتے ہوئے انھیں صرف ماں کے ساتھ رہنے کی اجازت دے دیتی ہیں۔ اس عدالتی فیصلے کے نتیجے میں بچے بلاجواز اپنی زندگی کی سب سے اہم ترین ہستی باپ کی شفقت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ قانون میں کوئی شق نہ ہونے کے باوجود عدلیہ کی ازخود طور پر بچوں کی تحویل صرف ماں کو دینے کی روایت نے باپ کی حیثیت محض ایک ''ملاقاتی'' کے برابر کر دی ہے۔ زیادہ تر عدالتیں ریلیف کے نام پر باپ کو بچوں سے ماہانہ دو گھنٹے ملاقات کی اجازت دیتی ہیں یعنی باپ اور اولاد ایک سال میں کل 24 گھنٹے ماقات کر سکتے ہیں جبکہ یہ ماہانہ ملاقات بھی کسی آزاد ماحول میں نہیں بلکہ احاطہ عدالت میں ہی کی جا سکتی ہے۔ اس طرح اولاد کی پرورش میں باپ کا اہم ترین عملی کردار ختم کر کے اسے محض بچے کا خرچہ ادا کرنے کا پابند کر دیا جاتا ہے۔ پہلے دو سے تین سال تک تو باپ اپنی اولاد کو دیکھنے کے لئے بھی ترس جاتا ہے۔ باپ سے دور کر دئیے جانے والے یہ بچے اپنی زندگی کے قیمتی سال شفقت پدری سے محرومی میں گزار دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملکی عدالتیں بچوں کی تحویل کے معاملے میں 97.7 فیصد وقت صرف ایک فریق (ماں) کو ہی دیتی ہیں۔اولاد کی ضروریات پوری کرنے کے باوجود ان کی جدائی برداشت کرنے والے بہت سے باپ ارباب اختیار سے پوچھ رہے ہیں کہ علیحدگی اختیار کرنے والا ہر باپ اولاد کا دشمن کیوں سمجھا جاتا ہے۔ کیوں ان بچوں کو باپ سے ان کی مرضی کے مطابق ملنے اور ساتھ رہنے سے روک دیا جاتا ہے۔ یہ صورتحال بتاتی ہے کہ ہماری حکومت اور عدلیہ بچوں کو ان کے عالمی اور باپ کو اس کے فطری حق سے محروم کرنے کے علاؤہ کچھ نہیں کر رہیں۔ حکومت کی اس سے بڑی نااہلی کیا ہو گی کہ 130 سالہ قدیم اور مبہم گارڈین قانون میں آج تک بچوں کے عالمی حقوق کو شامل نہیں کیا جا سکا ہے اور نہ ہی ان بچوں کی محرومیوں کا احساس کرتے ہوئے قانون میں موثر ترامیم کی زحمت محسوس کی گئی ہے۔ ریاست تو شاید ان بچوں کے وجود سے بھی آگاہ نہیں لیکن عدلیہ کی بھی اس معاملے پر خاموشی سمجھ سے بالاتر ہے۔ آج عدلیہ کو بڑی حد تک آزاد اور انسانی حقوق کی ضامن سمجھا جاتا ہے۔ لیکن اعلی اور ماتحت عدلیہ کے جج صاحبان بھی عالمی حق سے محروم ان بچوں کے مستقبل کے بارے میں اپنی اولاد کی طرح سوچنے سے قاصر نظر آتے ہیں۔ عدلیہ نے ایسا راستہ اختیار کیا ہے کہ بچوں کو ماں اور باپ دونوں کے ساتھ رہنے کا حق ملنا تو ایک طرف باپ سے بھی اولاد کی تربیت اور محبت نچھاور کرنے کا حق چھن جاتا ہے۔ چونکہ یہ کمسن پھول صدائے احتجاج بھی بلند کرنے کی طاقت نہیں رکھتے، اس وجہ سے بھی ان کی محرومیوں میں ڈوبی سسکیاں ارباب اختیار کے کانوں تک نہیں پہنچ پاتیں بلکہ ان کا بچپن اور لڑکپن ماں باپ کی محبت ڈھنونڈتے عدالتوں کی راہداریوں میں ہی گزر جاتا یے۔ اعلی عدلیہ کو گارڈین عدالتوں کی اس قانونی من مانی کا نوٹس لینے کی ضرورت ہے کہ جب قانون میں بچے کی پرورش کا اختیار صرف ماں کو دینے کی کسی شق کا سرے سے وجود ہی نہیں تو ہماری ماتحت عدلیہ کس اختیار کے تحت بچوں کو باپ کی شفقت سے محروم کر رہی پے۔ نان کسٹوڈیل باپوں نے چیف جسٹس پاکستان اور چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ سے مطالبہ کیا ہے کہ ماتحت عدلیہ کے ججز صاحبان سے یہ وضاحت لی جائے کہ ان کی نظر میں ایسی کون سی قانونی قدغن ہےکہ وہ ان بچوں کو عالمی حق کے مطابق ماں باپ کی یکساں محبت نہیں دلوا سکتے۔ کیا ہمارے جج صاحبان اس بچے یا بچی کی شخصیت پر پڑنے والے اثرات اور ان محرومیوں کا اندازہ لگا سکتے ہیں جنھیں انصاف یا فلاح و بہبود کے نام پر باپ کی شفقت نصیب نہیں ہوتی۔ کیا ہم اس باپ کے کرب کا اندازہ لگا سکتے ہیں جس سے ایک عدالتی حکم کے ذریعے اپنے بچوں سے ملنے اور پرورش کا حق چھین لیا جائے۔ اگر نہیں تو پھر وزیر اعظم سمیت ان کی پوری کابینہ اور عدلیہ میں شامل تمام جج صاحبان کو اپنا آپ ایسے بچے کی جگہ رکھ کر سوچنا پڑے گا کہ اگر بچپن میں انھیں باپ کی شفقت سے محروم کر دیا جاتا تو کیا وہ آج اس مقام پر کھڑے ہو سکتے تھے۔ (جاری ہے

بشکریہ اردو کالمز