گائوں کے لوگ بھی کافی دلچسپ اور سادہ ہوتے ہیں یقیناً آپ کا کبھی نہ کبھی گائوں جانا ضرور ہوا ہو گا کیونکہ شہر میں رہنے والے اکثر لوگ گائوں کی تازہ ہوا کو پیٹ کی بھوک کی وجہ سے چھوڑ آتے ہیں یا پھر آپ کا کوئی ایسا دوست یا رشتے دار ضرور ہو گا جو گائوں میں رہائش پزیر ہو لیکن آپ جب بھی گائوں جائیں گے آپ کو گائوں میں چند ایسے دلچسپ لوگ ضرور ملیں گے جو کہ بیٹھے بیٹھائے آپ کو سارے پاکستان کا حال منٹوں میں سنا دیں گے اس کے علاوہ آپ کو وہاں مختلف تجزیہ نگار بھی ملیں گے جو پاکستان کی معیشت ، سیاست اور فوجی خبریں ایسے سنائیں گے جو آپ نے کسی نیوز چینل سے بھی نہیں سنی ہوں گی۔
گائوں کے لوگوں کی ایک دلچسپ بات اور بھی ہے کہ حکومت چاہے کسی کی بھی ہو اُن کو فرق نہیں پڑتا بس اُن کے نزدیک مہنگائی نہیں ہونی چاہیے بس جس حکومت نے منگائی کر دی وہ حکومت گائوں کے لوگوں کے نزدیک بہت ملطق العنان حکومت ہے چونکہ الرقم بھی گائوں ہی سے تعلق رکھتا ہے اور سارا بچپن گائوں میں ہی گزارا ہے اس لیے الرقم کبھی کبھار اپنے گھر ضرور چکر لگا آتا ہے رات کے کوئی 8 بجے الرقم ماں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتے ہوئے ملکی حالات سے باخبر رہنے کے لیے خبریں بھی سن رہا تھا کہ اتنے میں منگائی کے متعلق ایک خبر چلی کہ؛ "وزیراعظم پاکستان کا ملک کی غریب عوام کے لیے بڑا اعلان ، منگائی جلد از جلد کنٹرول کرنے کے لیے ایک ٹیم تشکیل دے دی گئی"۔
مہنگائی کا نام آتے ہیں ماں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا بولیں!بس پچھلی حکومت میں بھی تم نے ایسے ہی کہا تھا یہ الفاظ جوں ہی میرے کانوں تک پہنچے میں نے بہت تعجب کے ساتھ ماں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا اماں جی پچھلی حکومت میں یہ وزیراعظم نہیں تھے۔ ماتھے پہ تعجب کے بل ڈالتے ہوئے اماں بولیں! نہیں تھے۔۔۔۔؟ بیٹا پچھلی حکومت میں بھی بلکل ایسی ہی باتیں ہوتی تھی ہم منگائی کو کم کر رہے ہیں یا منگائی کو کنٹرول کرنے کے لیے ٹیمیں بنا رہے ہیں اماں جی یقین کو اپنے چہرے پہ لاتے ہوئے جارحانہ انداز میں بولیں؛ جب سے میں خبریں سننے لگی ہوں تب سے یہ ہی وزیراعظم ہے۔
میں نہ کہا ایسا بلکل نہیں ہے جیسا آپ کہہ رہی ہیں اے عزت مآب اماں جی آپ ٹی وی پر دیکھیں یہ پی-ٹی-آئی کی حکومت ہے اس سے پہلے نواز شریف کی حکومت تھی اور اُس سے پہلے پاکستان پیپلز پارٹی کی اور یہ سب الگ الگ پارٹیوں سے تعلق رکھتے ہیں اور سیاست کے سمندر میں ایک دوسرے پر مخالفت،لعن و تان کی لہریں ایک دوسرے کی طرف بھیجتے رہتے ہیں۔ اماں جی نے سر پر ہاتھ رکھ کر کہا اوہ میڈا اللہ! اچھا اگر ایسی بات ہے تو پھر سب ایک جیسی ہی باتیں کیوں کرتے ہیں یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ یہ صرف پارٹی کا نام تبدیل کر لیتا ہو مگر بندہ وہی ہو۔ یہ سننے کے بعد میں نے ادب کو ملخوص خاص رکھتے خاموشی اختیار کر لی اور خیالی دنیا میں خود کو سامنے بیٹھا کر کہا، اماں جی بھی کتنی سادہ ہیں بھلا ایسا بھی کہیں ہوتا ہے