990

ملحد کی یلغار اور مذہب کا امکان۔

ملحد کی  یلغار دور حاضر کا مذہبی فکر میں سب سے بڑا ابھرتا ہوا مسئلہ ہے. جدید ذہن کا مذہبی فکر سے ہم آہنگ نہ ہونا  اور عقلی بنیادوں پر مذہب سے جواب طلبی اسے الحاد سے قریب تر  کرتی جا رہی ہے .اس نئے ابھرتے ہوئے مسئلے  کی بہت سے مذہبی فلسفیانہ اذہان نے نشاندہی کی ہے گویا کہ یہ بات درست ہے کے اس کا خطرہ  صرف موجودہ زمانے کا ہی پیدا کردہ نہیں  بلکہ پرانا ہے , جس کی جھلک ہمیں علامہ اقبال کے خطبہ ” کیا مذہب کا امکان ہے” کے عنوان  میں بھی نظر آتی ہے. تشویش اس بات کی ہے کہ یہ مسئلہ آنے والے وقت میں مزید پچیدگی  اختیار کرتا ہوا نظر آتا ہے. دور حاضر میں ضرورت اس امر کی ہے ہم جدید ذہن سے مذہب کو ہم آہنگ کرنے کے  ایسے اصول مرتب کریں جو آگے چل کر کائنات میں مذہب کے امکان کو باقی رکھ سکیں ورنہ تو عین ممکن ہے کہ مذہب اپنی ہیئت میں  کمزور  نظر آنے لگے.  دور جدید  کے  ذہنی ڈھانچے کی مضبوطی کا انحصار اسی بات پر ہے کہ اس مسئلہ کو سنجیدگی سے  دیکھا جائے . کئی عرصہ سے ہمیں اسلامی فکر میں اجتماعیت کی بنیاد پر کوئی ایسی تحریک نظر نہیں آتی جس نے مذہبی فکر کو دور جدید سے ہم آہنگ کرنے کی کاوش کی ہو۔ , اگر کوئی  ایک شخص نظر آتا بھی ہے تو وہ انفرادی سطح  پر ہی ان جیسی مخالف قوتوں سے سامنا کرتا ہوا نظر آتا ہے.  اس کی سب سے پہلی وجہ تو یہی معلوم ہوتی ہے کہ اسلامی فکر بذات خود مختلف دائرہ کار میں تقسیم ہو کر اپنی حقیقی قوت کو یکجا کرنے میں ناکام نظر آتی ہے لیکن  دورے حاضر میں یہ ضروری ہے کہ تمام مذہبی فکر اجتماعیت کے دائرہ میں  یکجا ہو کر اس  اہم سوال  پر غور کرے کہ جدید ذہن کو   مذہبی استدلال  پر کیسے آمادہ  کیا جا  سکتا ہے .؟ جو عقلی استدلال کو ہی راہ نجات سمجھتا ہے  اس کے لیے انتہائی ضروری ہے کہ ہم   مذہبی فکر کی بنیادوں کا از سر نو جائزہ لیں اور جن عقلی استدلال کو ہم غیر ضروری سمجھ کر  رد کیے ہوئے ہیں ان کو دوبارہ  تعمیر کرنے کی کوشش کریں اور اپنے مذہبی تصورات کی بہتر جہد کو   سمجھنے  کی  اہلیت کو زندہ رکھیں. اگر ہم صرف اس بنیادی بات  کا  ہی گہرائی سے  جائزہ لیں کہ یورپ  کن  وجوہات کی  بنا  پر کائنات کو مسخر کرنے میں ہم سے آگے ہے. تو ہمیں   اپنے بنیادی تصور میں بہتری کا سامان میسر ہو جائے گا , کہ کیسے یورپ نے انسان کی انفرادیت کو تسلیم کیا  اور وہ معاشرتی سطح پر وہ تمام مواقع فراہم کرنے میں کامیاب  رہا ہے جس میں انسان  کی قوت کا بھرپور اظہار ہو سکے اور یہی تخلیقی قوت   بہتر سے بہتر معاشرہ بنانے میں کار فرما رہی ہے اوراسی وجہ سے ہی تاریخ میں یورپ ہر میدان میں بڑے نام پیدا کرتا  آیا ہے جنہوں نے دنیا کی فکر کا دھارا موڑنے میں اہم کردار ادا کیا ہے .آج  اسی کاوش کی وجہ سے یورپ منطقی بنیادوں کو اس قدر مضبوط استوار کر چکا ہے  کہ ہمیں اپنے نقطہ نظر کو ثابت کرنےکے لئے پہلے اس جدید ذہن کی ساخت کو بہتر کرنا ہوگا اور پھر اس کے بعد ہی ہم اپنے نقطہ نگاہ کو استدلال سے پیش کر سکتے ہیں اس تمام دشواری کا سبب ہے یہ بھی   ہے کہ تاریخ میں  ہم نےایسے علوم کو فروغ نہیں  دیا جو وجدان یا مذہبی تجربہ کو  آج سمجھنے میں مددگار ثابت ہو سکتے. جبکہ دوسری طرف یورپ نے عقلی استدلال کی بنیاد پر ایسے تمام علوم کو فروغ دیا ہے کہ جن کی  بنا پر آج  ان کے لیے اپنا نقطہ نظر ثابت اور واضح کرنا مشکل نہیں رہا.   علاوہ ازیں قرآن یا وحی کو بہتر جہد میں سمجھنے کے لئے ہمارے ہاں کوئی ایسے  ادارے قائم نہیں کئے گئے جو جزوی طور پر  ایسی یونیورسٹیاں قائم کرتے کہ جن میں  مختلف اسلامی تصورات پر  الگ سےکام کیا جاتا. مثلا ہمیں کوئی ایسی یونیورسٹی نظر نہیں آتی کہ جس  کا دائرہ کار صرف اسلام کے صرف  ایک مختص موضوع  کو سمجھنے  اور پھر اس میں تحقیق کی تمام راہیں کھولنے پر کام کیا گیا ہو جبکہ دوسری طرف یورپ میں جزوی مضامین کی خاصیت کو تسلیم کیا گیا اور اس  کو تحقیق کے  تمام مواقع فراہم کئے گئے یہی وجہ ہے تمام علوم ترقی کرتے گئے اور آج بہتر حالت میں موجود نظر آتے ہیں  یہ بالکل اسی طرح  ہی ہے کہ جیسے ایک وقت میں  یونانی طب کو انتہائی  اہم علم کے طور پر تسلیم کیا جاتا تھا اور پھر بعد میں  یورپ میں جدید  طب پر اس قدر  زیادہ اورتیزی سے تحقیق  ہوئی کہ آج اسے دنیا میں سب سے زیادہ بہتر طریقہ علاج کے طور پر قبول کیا جانے لگا ہے. اسی طرح ہمیں بھی  مذہب کی ہیئت  کو  کائنات میں ثابت رکھنے کے لیے  تخلیقی شعور, اجتماعیت اور تحقیق کی قوت کو  حقیقی معنوں میں تسلیم کر کے از سر نو جائزہ لینا چاہیے———————

 

 

بشکریہ اردو کالمز