561

مفادات کی جنگ اور ریاستی خودمختاری 

 

ریاستی خودمختاری کوئی قانون نہیں جو کہ ضرورت پیش آنے پہ بنا لیا گیا نا ہی کوئی وقتی سمجھوتہ جو کہ سیاسی مفادات کے تحفظ خاطر کیا گیا ۔ بلکہ اس کے لیے انسانی تاریخ نے ایک داستان رقم کی ہے ۔ دل خراش داستان ، ایک پیریڈ آف تھاٹ ، ایک سیریز آف ایلیوشن ؛ جس کے نتیجے میں پیس ٹریٹی آف ویسٹ فیلیا میں یہ طے پایا کہ ریاست اپنی حدود میں مکمل خودمختار ہوگی سترہویں صدی میں طے پانے والا یہ معاہدہ سیاسیات کے میدان میں یکتا اہمیت رکھتا ہے ، یہ ہر لحاظ سے سبق آموز ہے۔ 

یہ ہے ایک طرف کا بیانیے  جو کہ مشرق وسطیٰ کے حالیہ تنازع پہ ہونے والی بحثوں  کی بنائے استدلال ہے ۔جبکہ حقیقت میں یہ سب پڑھنے ، سننے اور سمجھنے میں ایک حسین ، امن والے مستقبل کی امید سے بھرپور ایک معاہدہ تھا ۔ مگر حقیقتاً  سیاست کو جتنا ننگا یہ معاہدہ کرتا ہے شاید ہی کسی نے کیا ہو ۔حقیقت میں یہ سیاست کی ایک تلخ تعبیر پیش کرتا ہے کہ سیاست میں کوئی رکاوٹ رکاوٹ نہیں ہوتی ۔ کوئی حد ، حد نہیں ہوتی ۔ سیاست ممکن کی تلاش کا سفر ہے ۔ یہ صرف سیاست کے سیاہ چہرے کا چٹا نقاب ہے ۔

یہ تمام باتیں اس لیے عرض کر رہا ہوں کہ ایرانی القدس فورس کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد یہ بحث عروج پر ہیں کہ ایران اور امریکہ عراق پہ قبضہ کی جنگ کررہے ہیں اور عراق کو دونوں سے ایک طرح سا ہی نقصان پہنچے گا ۔جنرل قاسم سلیمانی ایرانی تاریخ کے کامیاب ترین جنرلوں میں سے ایک تھے ۔ ان کے مقام کا اندازہ لگانے کے لیے یہ جان لینا ہی کافی ہوگا کہ  نادر شاہ افشار کے بعد وہ کامیاب ترین ایرانی جنرل تھے ۔ نادر شاہ افشار ایران کی تاریخ میں ایک سنہری حرف ہے ۔ جو کہ ایشیا کا نپولین کہلاتے ہیں۔ نادر شاہ نے عثمانی ترکوں کو زبردست شکستوں سے دوچار کیا ، قندھار فتح کیا اور دری خیبر کے رستے  کرنال کے مقام پر مغلوں کو عبرتناک شکست سے دوچار کیا ۔ 

نادر شاہ افشار ایرانی تاریخ کے سنہری حروفوں میں سے ایک ہیں اور اب قاسم سلیمانی بھی انھی سنہری حروفوں میں شامل ہوچکے ہیں ۔ قاسم سلیمانی نے مشرق وسطیٰ کو محترم خامنہ ای کی مٹھی میں لانے کے لیے اہم کردار ادا کیا ۔

انقلاب ایران کے بعد امریکہ اور ایران ایک فطری حریف کی حیثیت اختیار کرگئے تھے ۔ جس کے بعد سے امریکہ نے ایران کو اپنے فوجی اڈوں کے ذریعے گھیر رکھا ہے ۔ اس وقت مشرق وسطیٰ میں ایران کے گردا گرد امریکہ کے سات بحری بیڑے ، گیارہ ائیر کرافٹ اور  پچاس ہزار سے زیادہ افواج موجود ہیں۔ 

افغانستان ، اومان ، متحدہ عرب امارات ، سعودی عرب ، ترکی ، عراق ، کویت ، شام ، قطر ، بحرین ان تمام ممالک میں امریکی فوجی اڈے قائم ہیں۔ پورے بحیرہ عرب کو امریکہ نے اپنے حصار میں لیا ہوا ہے ۔ اور ایران بھی اپنے مفادات اور خودمختاری کے تحفظ کی خاطر ان علاقوں میں اپنی موجودگی کو اپنا حق سمجھتا ہے ۔ ان اڈوں کی  وجہ صرف  ایران  نہیں ہے بلکہ بے شمار امریکی مفادات ہیں۔

انھیں حالات نے ایران امریکہ حالیہ  تنازع میں ایران کے ممکنہ ردعمل کو پیچیدہ معاملہ بنایا ہوا ہے۔

درحقیقت یہی سیاست کی حقیقت ہے ۔عالمی سیاست ہے ہی مفادات کا تحفظ اور انکے حصول کی جدوجہد کا نام ۔ اس حقیقت کے ہوتے ہوئے  یہ بحث فضول لگتی  ہے کہ فلاں ریاستی خودمختاری اور فلاں مفاداتی سیاست ۔ سیاست اپنی اصل میں گڈ اور بیڈ کے کانسیپٹ سے ہی عاری ہے ۔ داخلی خودمختاری کا حصول نا ہی ماضی میں ممکن ہوا ہے اور نا اس گلوبل ویلیج میں ممکن ہوا ہے ۔ مستقبل کی بینائی سے ہم محروم ٹھہرے ہیں۔سو اس حوالے سے کچھ کہنا فضول ہے ۔

مفادات کی جنگ نے ریاستی خودمختاری کے اس علامیے کو جس طرح تہ تیغ  کیا ہے گویا سیاست کے راز کھول کے رکھ دیے ہیں۔ جب بھی مجھے ایسی موضوع پہ بات چیت کے لیے موقع ملا جس میں ریاستی خودمختاری کی مدح سرائی کا معاملہ درپیش ہو مجھے کوفت ہونے لگتی ہے ۔ نا کبھی ریاست خودمختار ہوئی ہیں نا ہوتی نظر آ رہی ہے ۔ سوائے عوام کو تسلی تشفی کے سامان کے اس معاہدے نے کچھ نہیں کیا ۔ ریاستیں آج بھی حکمرانوں کی ذاتی خواہشات کے تابع چلتی ہیں ۔ بیرونی ممالک کے اثرورسوخ میں حکومتیں پروان چڑھتیں اور گرتی ہیں۔ 

امریکہ کے اس حملے نے سب پول کھول دیے ہیں ۔ مشرق وسطیٰ کے حالات مدت سے دہائی دیتے آرہے ہیں کہ ریاستی خودمختاری سوائے  کسی   دیوملائی خواب کے کچھ نہیں۔ ان حالات کو صریحاً مفادات کی جنگ کے تناظر میں دیکھنا چاہیے ۔ اور اس  جنگ نے  مشرق وسطیٰ کو ایک نئے موڑ پہ لا کھڑا کیا ہے ۔ جہاں ممکنہ طور پہ کچھ طاقتیں جو چھپی تھیں سامنے آئیں گی اور ایک نیا خونی کھیل ہوگا  ۔ جو کہ اس ریاستی خودمختاری کی رہتی لاج کو بھی تاراج کرکے رکھ دے گا ۔ 

یہ تاراج ماضی میں بھی ہوتی رہی ہے اور اب بھی اسی طرح ہوتی رہے گی ۔ آپ حوصلہ سنبھال کے رکھیے ۔

بشکریہ اردو کالمز