528

کون ہو گا اگلا وزیراعظم۔۔۔؟

شہر کے قریب ہی ایک بہت بڑا گائوں واقع تھا جس میں پانچ قبیلوں کے سردار اور اُن کے حمایتی صرف اس بات پر آپس میں لڑتے رہتے تھے کہ پورے گائوں پر ہمارے قیبلے کے سردار کی حکومت ہو اس وجہ سے گائوں کے تمام  لوگ  پریشان اور ترقی سے کوسوں دور تھے۔ آخر کار  پولیس نے تنگ آ کر  پانچوں  سرداروں کو تھانے میں بند کر دیا اس موقع پر پانچوں قبیلوں نے اتحاد واتفاق کر کے احتجاجی روپ میں تھانے جانے کا فیصلہ کیا کہ اگر ہم اتحاد و اتفاق کر لیں تو پولیس والے ہمارے سرداروں کو چھوڑ دیں گے بالآخر تمام قبیلے والے جلوس کی شکل میں نعرے بازی کرتے ہوئے تھانے پہنچ گئے تھانے کے انچارچ صاحب کو اطلاع دی گئی کہ تمام قبیلے کے لوگوں نے اتحاد و اتفاق کر لیا ہے اور اپنے سرداروں کی رہائی کے لیے تھانے کے دروازے پہ جلوس کی شکل میں موجود ہیں ۔ تھانے کے انچارج کو تھوڑی دیر کے لیے خوشی ہوئی مگر تھانے کے انچارج صاحب ایک پڑھے لکھے اور ذہین استاد کے شاگرد تھے۔ اس لیے خود بھی ایک ذہین انسان تھے۔ انچارج صاحب  نےتھانے سے باہر آ کر مجمعے سے کہا!  مجھے خوشی ہے کہ آپ لوگوں میں اتحاد و اتفاق پیدا ہو گیا ہے تو اب یہ بھی فیصلہ کر لیں کہ گائوں پر کس قیبلے کے سردار کی سرداری چلے گی تھانے کے انچارج کی بات سن کر مجمعے میں سے نا اتفاقی کی بو آنے لگے اور قبائل کے لوگوں میں بحث و مباحثہ ہونے لگا تھانے کے انچارج نے وقت کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے تمام قبیلوں سے مخاطب ہو کر کہا، جب آپ سب سرداروں کو چھوڑوانے کے لیے اتفاق کر سکتے ہیں  تو اس بات پر بھی اتفاق کر لیں کہ کس کو سرداری کی پگڑی ملنی چاہیے تاکہ گائوں ترقی و خوشحالی کی طرف گامزن ہو۔

یہ ساری تمہید باندھنے کا مقصد کچھ مہینوں سے چلنے والے  پی- ڈی -ایم کے اتحاد و اتفاق سے ہے، جہاں ملک کی 11 سیاسی پارٹیوں کے لوگ جمع ہو کر حکومتِ وقت کے خلاف تحریک میں مگہن ہیں ۔11 میں سے تین نے تو کسی جلسے میں شراکت نہیں کی مگر تین سیاسی پارٹیاں کافی متحرک ہیں۔ چلیں اس بات کو چھوڑیں میرا مضمون یہ نہیں  پی -ڈی- ایم کی طرف سے اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کی خبریں تو سب کے کانوں تک پہنچ چکی ہیں مگر اب اسلام آباد کے لوگ لانگ مارچ کے عادی ہو گئے ہیں جیسے کچھ لوگ زیادہ چائے پینے کے عادی ہوتے ہیں۔،   برحال پی- ڈی -ایم کے جلسے جلوسوں میں آنے والے لوگ جو کہ مختلف قبیلوں یعنی مختلف پارٹیوں سے ہیں اور ابھی تک  ایک ہی موقف پر قائم ہیں کہ انہوں نے وزیرآعظم صاحب سے استعفٰی لینا ہے اب اللہُ جانے استعفٰی عمران خان صاحب بذات خود دیتے ہیں یا پھر پچھلی حکومتوں کی طرح زبردستی ان سے استعفیٰ لیا جاتا ہے۔ 2014  میں عمران خان صاحب نے بھی نواز شریف صاحب کی حکومت کے خلاف اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ شروع کیا اور بے شمار دھرنے اور  جلوس نکالے تھے۔ مگر اس دفعہ حالات پہلے کی نسبت کافی تبدیل ہیں اس مرتبہ مملکتِ پاکستان کی 11 سیاسی پارٹیاں مل کر حکومتِ وقت کے وزیراعظم کے خلاف سراپاء احتجاج ہیں اور تمام پارٹیوں کے حمایتی اتحاد کئے ہوئے اس فیصلے پر ڈٹے ہوئے ہیں کہ ان کے سرداروں یعنی کے پارٹیوں کے رہنمائوں کو وزیراعظم صاحب کا استعفٰی چاہیئے  تاکہ وہ اپنی پارٹی کے رہنماؤں کو وزیراعظم بنا کر اس پاکستان کے مستقبل محفوظ کر سکیں۔ مگر دماغ کے ایک کونے میں ایک سوچ  سوالوں کی شکل میں کھڑی ہو کر دستک دی رہے اور دستک اتنی زوروں کی ہے کہ بعض دفعہ سوتے ہوئے بھی آنکھ کھل جاتی ہے  کہ اگر وزیراعظم صاحب استعفٰی دے دیتے ہیں تو پھر اگلا  وزیراعظم کون  ہو گا؟ کس پارٹی سے ہو گا۔۔؟اگر کسی ایک پارٹی سے ہوا تو باقی پارٹیاں بعد میں احتجاج  تو نہیں کریں گی؟

یہ سوال ہیں جو دماغ میں گھومے جا رہیں ہیں ایسے جیسے زمین سورج کے گرد گھومے جا رہی ہے کہ کون ہو گا اگلا وزیراعظم۔۔۔؟ جو کہ اس مملکتِ پاکستان کے شہریوں کو سیاسی جلسے جلوسوں اور لانگ مارچ سے نکال کر تعلیم ، شعور جیسی نعمت سے آشنا کرے گا کیونکہ پاکستان  بننے سے لے کر اب تک 11 مرتبہ مختلف سیاسی پارٹیوں کا اتحاد ہو چکا ہے جس سے سیاسی پارٹیوں کی سیاست کو تو تقویت ملی مگر مملکت پاکستان کے باشندے ہمیشہ کی طرح ضروریات زندگی سے محروم ہی رہے.پس دعا ہے اللہ اس قوم کے بچوں کو جلسے و جلسوں کی سیاست سے آزاد کرے ۔ آمین

بشکریہ اردو کالمز