274

'' پی ڈی ایم کا اگلا وار کتنا کارگر ثابت ہو سکتا ہے''

پچھلے کچھ عرصہ سے حکومت اور تمام بڑی اپوزیشن جماعتوں کے درمیان سیاسی معرکہ کارزار گرم ہے۔ دونوں طرف کے مردان پیکار بڑھ چڑھ کر ایک دوسرے پر وار کرتے چلے جا رہے ہیں۔ اور گھمسان کا رن برپا ہے۔ پی ڈی ایم کے لشکر کے کمان دار اور میر سپاہ منجھے ہوئے پرانے اور گھاگ سیاست دان ہیں, جب کہ حکومتی معسکر بظاہر نئے پھرتیلے اور نسبتاً ناآزمودہ کار اور غیر مشاق سالاروں پر مشتمل دکھائی دیتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ پی ڈی ایم کے سرپنچوں میں اکثر چلے ہوئے کارتوس اور پِٹے ہوئے بھاری بھرکم جسیم ہونے کے باوجود ان کے بیانیے کو ہر گزرتے دن کے ساتھ تقویت ملتی چلی جا رہی ہے۔ اور ہر نئی رزم گاہ میں وہ پہلے سے زیادہ جارحانہ اور پراعتماد لب و لہجہ اپنائے ہوئے نظر آتے ہیں۔ 
چند دن پہلے ملتان کے میدان کارزار میں حکومتی صفوں میں جس طرح سے کھلبلی اور افراتفری مچی نظر آئی, اور جلسہ روکنے کے لیے جس طرح سے کنفیوزڈ سٹریٹجی کا مظاہرہ کیا گیا, اس سے یہ بات تو طے ہو گئی کہ پی ڈی ایم کا جادو سر چڑھ کر بولنے لگ گیا ہے۔ اور بظاہر مطمئن اور بے فکر رہنے کی کوششیں اب بے سود دکھائی دیتی ہیں۔ کیونکہ حکومتی وزراء و مشراء کے بیانات میں تضادات, کوئی متفقہ اور ٹھوس حکمت عملی ترتیب نہ دے سکنا اور ہر سطح پر الجھاؤ اور گھبراہٹ بہت سارے سوالات کو جنم دے رہا ہے۔ ملتان جلسے کے بعد وزیر اعظم کے معاون خصوصی عامر ڈوگر اور کئی سینئر وزراء نے اس معاملے میں حکومتی بدانتظامی اور افراط و تفریط کا برملا اعتراف بھی کر لیا۔ اسی طرح آئندہ 13 دسمبر کو لاہور جلسہ روکنے یا نہ روکنے کے حوالہ سے بھی اب تک کوئی واضح لائحہ عمل تیار نہیں کیا جا سکا, اس حوالے سے کہیں تو روکنے اور مقدمات بنانے کی چیخ چنگھاڑ سنائی دے رہی ہے اور کہیں کوئی مصاحب مدھم سی آواز میں فری ہینڈ کا پیغام دیتا  دکھائی دیتا ہے۔ 
 خیر اس سلسلے میں حکومت جو بھی فیصلہ کرے  یہ تو طے ہے کہ پی ڈی ایم ایک بپھرے ہوئے ہاتھی کی مانند اب حکومتی سائیسوں کے کنٹرول سے باہر   ہے, اور وہ کسی صورت بھی قابو میں نہیں آ رہی۔ لاہور جلسہ تو اس لیے بھی اہمیت کا حامل ہے کہ ماضی کی سیاسی تحریکوں اور جلسے جلوسوں کے حوالے سے لاہور شہر کو ایک تاریخی اہمیت حاصل رہی ہے۔ 10 اپریل 1986 کو مینار پاکستان لاہور پر ضیاء آمریت کے خلاف محترمہ بے نظیر بھٹو کا تاریخی جلسہ کسے یاد نہیں, جس میں واقعتاً لاکھوں افراد نے شرکت کی تھی, اور جس کے بعد ضیائی آمریت کے کاخ امراء دہل کر رہ گئے تھے, پھر نواز شریف کی قیادت میں پرویز مشرف کی آمریت کے خلاف اور ججز بحالی کی ریلی تو ابھی کل کا ہی واقعہ ہے جو گوجرانوالہ پہنچنے سے پہلے ہی منزل مقصود پر پہنچ چکی تھی۔ سیاسی انقلابات کے حوالے سے لاہوریوں کے دل ہمیشہ سے ہی فراخ واقع ہوئے ہیں, 30 اکتوبر 2011 کو عمران خان کے مینار پاکستان جلسے سے ہی نئے پاکستان کا غلغلہ اٹھا تھا۔ اور تبدیلی کے اس نعرے کو مہمیز ملی تھی۔ اور بلاشبہ موجودہ دور حکومت کا خمیر بھی مینار پاکستان کے اس جلسے کی مٹی سے ہی تیار ہوا تھا۔
  اگرچہ پی ڈی ایم اب تک اپنی سیاسی مہم جوئی میں کسی حد تک کامیاب نظر آتی ہے کیونکہ ان کے ہر وار پر نتائج ان کی توقع سے بڑھ کر سامنے آ رہے ہیں, اس کی بڑی وجہ ملک کی معاشی ابتر صورت حال, مہنگائی, بدامنی, بیڈ گوورنس اور روز بروز بڑھتی بے روزگاری کے آثار ہیں, اس کے علاوہ مستقبل قریب میں کسی بڑے ہدف کے حصول میں کامیابی کا امکان, معاشی اشاریوں میں کوئی مثبت بڑھوتری یا غیر معمولی سطح پر کسی قومی بیماری و علت کا مداوا یا چارہ گری بھی دور دور تک نظر نہیں آتی, جو اپنے تئیں حکومت اور اس کے خیر اندیشوں کے لیے ایک الگ مسئلہ ہے۔ 
 لیکن اس سب کے باوجود پی ڈی ایم کی قیادت کا متنازعہ ماضی اور ان کی مبینہ کرپشن کہانیوں کی صورت میں حکومت وقت کے پاس ایک بڑا اور دھانسو قسم کا ہتھیار موجود ہے۔ جسے وہ شروع سے لے کر اب تک استعمال کرتے آئے ہیں بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ یہ ہتھیار ہی حکومت وقت کے اکھڑ پن, الہڑ پن اور اناڑی پن کو اب تک اپنی کوکھ میں چھپائے ہوئے ہے تو بے جا نہ ہو گا۔ اور یقیناً یہی پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کی کمزوری بھی ہے, اور دوسرا حکومت کو جو پلس پوائنٹ حاصل ہے وہ پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کی نظریاتی تکرار کا ہے, جس کی واضح مثال میاں نواز شریف کے بیانیے پر پی پی پی کے بلاول بھٹو زرادری کا دو ٹوک موقف ہے۔ یہ طے ہے کہ وقتی طور پر تو پی ڈی ایم میں شامل دونوں بڑی جماعتیں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی مولانا فضل الرحمن کی امامت میں مقتدی بن کر کھڑی ہو گئی ہیں, لیکن حقیقتاً یہ ایک غیر فطری اتحاد ہے جس نے اپنے نظریاتی مفادات پر نہ پہلے کبھی سمجھوتا کیا اور نہ اب کی بار بھی کوئی امید ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر زیرک اور دانا ماہرین سیاست یہ پیش گوئی کرتے ہیں کہ پی ڈی ایم کی لڑی کا یہ منکہ کسی بھی وقت ایک طرف لڑھک سکتا ہے۔ اور بلاشبہ یہی وہ دوسرا بڑا ہتھیار ہے جو سابقہ سینٹ انتخابات سے لے کر موجودہ صدر مملکت کے انتخاب تک اور پھر مولانا فضل الرحمٰن کے آزادی مارچ سے لے کر میاں نواز شریف کے موجودہ بیانیے کے اختلاف تک ہر یلغار میں آڑے آتا رہا ہے۔ اور موجودہ صورت حال میں بھی حکومتی ڈھال بن کر سامنے آ سکتا ہے۔ 
  اگرچہ طبل جنگ بج چکا اور دونوں اطراف میں پیادے بڑھ چڑھ کر وار کرتے نظر آ رہے ہیں, بظاہر پی ڈی ایم کی کشتی پر تمام جماعتوں کے سرخیل بانہوں میں بانہیں ڈالے باہم شِیر و شکر بھی ہیں اور 13 دسمبر کے معرکے کو فیصلہ کن معرکہ بھی قرار دیا جا رہا ہے۔ لیکن حکومتی لشکر کے پیچھے بیٹھے ازلی صاحبان بست و کشاد بھی اس سے بے خبر نہیں ہیں, وہ یقیناً شطرنج کی بساط بچھائے کسی نئی حکمت علمی یا کسی نئے مرکب کے بارے بھی ضرور سوچ رہے ہوں گے۔ اور اگر اب کی بار  یہ صاحبان حل و عقد اس کشتی میں سوراخ کرنے میں ناکام رہے تو یقیناً پی ڈی ایم کا یہ لاہوری وار بہت کاری ثابت ہو گا, اور اہل نظر جانتے ہیں کہ ہر طرح کی جنگوں میں کوئی ایک آدھ کاری وار ہی پوری جنگ کا پانسہ پلٹنے کا باعث بنتا ہے۔ 

 

بشکریہ اردو کالمز